یوں تو جب سے امریکہ نے دہشت
گردی کے خلاف جنگ شروع کی ہے جو کہ بذات خود سب سے بڑی دہشت گردی ہے تب سے
ہی پاکستان مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہے لیکن کبھی اس کا گراف اوپر اور
کبھی نیچے آتا ہے۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مبینہ قتل کے
بعد سے اب تک پاکستان دو اطراف سے شدید دہشت گردی کی زد میں ہے۔ دو اطراف
سے اس لیے کہ ایک طرف سے امریکہ خود بڑی شدومد سے ڈرون حملے کر رہا ہے اسکی
سینٹ اور حکومتی اہلکاروں کے اشتعال انگیز بیانات بھی جاری ہیں جبکہ دوسری
طرف القائدہ اسامہ کے اُس قتل جس کا دعویدار امریکہ ہے کا بدلہ پاکستان سے
لے رہا ہے ہر طرف ایک بے چینی نظر آرہی ہے 2 مئی کے سکتے سے ابھی قوم نکلی
نہ تھی کہ 22 مئی کو پی این ایس مہران پر حملہ ہو گیا اس حملے میں جو نقصان
ہوا جو طیارے جل کر تباہ ہو گئے ان کی مالیت کیا تھی وہ ایک الگ موضوع ہے
لیکن بات یہ ہے کہ آخر دہشت گرد اِن حساس مقامات تک پہنچ کیسے گئے۔ یہ کوئی
پہلا مو قع نہیں ہے کہ مسلح افواج کو نشانہ بنایا گیا ہو ایک رپورٹ کے
مطابق ہماری افواج کے او پر تقر یباََ اڑتیس ایسے حملے ہو چکے ہیں جن میں
جی ایچ کیو پر حملہ بھی شامل ہے۔ اس با ر بھی اس حملے کے لیے القائدہ اور
طالبان کا سہارا لیا گیا ہے اور ہر واقعے کی طرح تحریک طالبان پاکستان نے
اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور ہمارے عزت ماب وزیر داخلہ رحمن ملک نے
کسی بھی بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد کر دیا ہے اس حملے میں
نقصان تو جو ہوا سو ہوا اس نے بہت سارے سوالات عام آدمی کے ذہن میں اٹھا
دیئے ہیں جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ کیا پاکستان کے خلاف کوئی سازش تیار
کی گئی ہے جس کی رو سے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی نا اہلی ثابت کردی
جائے اور ہمارے حساس اثاثہ جات کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی افواج کی
تعیناتی کا شوشا چھوڑا جائے جیسا کہ نیٹو کے سکیٹریری جنرل نے افغانستان کے
دورے کے دوران دل کی بات کہہ ہی دی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں
لیکن انہیں اس کے بارے میں تشویش ہے یعنی پہلے حالات کو اس نہج تک لایا گیا
اور اب تو پہلا جملہ بول کر پہلی قسط ادا کی گئی ہے اگر چہ درحقیقت یہ پہلا
جملہ بھی نہیں ہے ایسی باتیں اکثر سننے میں آتی رہتی ہیں لیکن اس بار موقع
تاک کر کی گئی ہے۔ پاکستانیوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے یوں
سر راہ نہیں پڑے اور اس کی حفاظت کا ایک مضبوط اور مربوط نظام ہے لیکن پھر
بھی اگر کسی سے خطرہ محسوس کیا جا سکتا ہے تو وہ سب سے پہلے امریکہ اور پھر
بھارت اور اسرائیل ہیں اور ہمیں اس شیطانی تکون سے ہر وقت خبردار رہنا ہوگا
اگر چہ ہمارے وزیرداخلہ نے تمام بیرونی دشمنوں کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے
تا ہم قوم یہ بات ماننے کو تیا ر نہیں کیونکہ جس طرح بھارت کی تمام تر جنگی
تیاری پاکستان کے خلاف ہوتی ہے اسی طرح ہماری تیاری بھارت کے خلاف ہوتی ہے
اور پی سی تھری اور ین طیارے جو کہ جدید ترین نگران
طیارے ہیں اور میزائل لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں بحیرہ عرب میں
بھارتی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے۔ اربوں روپے کے نقصان کے ساتھ ساتھ
پاکستان نیوی کو دفاعی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی بہت بڑا نقصان ہوا ہے
جس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوا ہے امریکہ کو بھی اس شک سے مبّرا
قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ مفاد اس کا بھی اس میں ہے کہ پاکستان دفاعی
طور پر اس کا محتاج رہے تاکہ وہ علاقے میں اپنی مفادات کا تحفظ کرتا رہے
یوں یہ کہہ دینا کہ غیر ملکی ہاتھ خارج از امکان ہے حقائق سے آنکھیں بند
کرنے والی بات ہے اور اب تک ہم نے اپنی آنکھیں بند ہی رکھی ہیں اسی لیے ہم
خسارے میں رہے تربیت کے بہانے جتنے امریکی ہمارے ملک میں موجود ہیں اُن سب
پر کڑی نظر رکھی جانی چاہیے بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی ضروری تربیت کے بعد
انکی موجودگی کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ اب آئیے ذرا دوسری طرف کہ دہشت
گرد ہوتے کیوں سارے پاکستانی یا ایشیائی ہیں بلکہ پاکستانی ہیں تو تاریخ
جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح اپنی فوج میں مقا می
لوگوں کو زیادہ پیسے کا لالچ دے کر بھرتی کیا۔ حالات اب بھی وہی ہیں فرق
صرف یہ ہے کہ تب سب کچھ کھلم کھلا ہوا اب امریکہ رازداری سے یہ سب کچھ کر
رہا ہے تاکہ مہذب دنیا میں الزام سے بچ سکے۔ ظاہر ہے یہ مقامی لوگ جب کوئی
معمولی روزگار بھی حاصل نہیں کر پاتے تو مجبورََا بھوکے خاندانوں کا پیٹ
بھرنے کے لیے سی آئی اے اور بلیک واٹر کے کارندے بن جاتے ہیں۔
ایک اور پہلو جس پر کسی کی توجہ نہیں جا رہی یا اسے درخور اعتنا ہی نہیں
سمجھا جا رہا بس صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں اہم تنصیبات کی
سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے کیا اسکے لیے نئی بھرتی کرلی جاتی ہے یا یہی ہوتا
ہے کہ کسی دوسری جگہ سے سیکیورٹی ہٹا کر لگا دی جاتی ہے اور یوں دہشت گردوں
کو کوئی نہ کوئی خالی ٹارگٹ مل جاتا ہے سی سی ٹی وی کیمرہ کی اہمیت اپنی
جگہ لیکن حفاظت پھر بھی انسان نے ہی کر نی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری
افواج اس وقت مختلف محاذوں پر برسر پیکار ہیں کچھ مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے
لیے ہر وقت مستعد و تیار ہیں تو کیا پھر ہمارے پاس اتنی فورس بچ جاتی ہے جو
اہم تنصیبات کی حفاظت کر سکے اس پر حقیقت پسندی سے سوچنا پڑے گا کہ کیا کم
از کم دہشت گردی کے خاتمے تک ہمیں زیادہ فوج اور پولیس کی ضرورت نہیں ہے
جبکہ ہمارا ایک پولیس سپاہی کئی سو لوگوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور دسیوں
پولیس والے کسی ایک وی وی آئی پی کی حفاظت کے لیے ذمہ دار۔
یہ کہہ دینا کہ سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے صرف ایک تسلی ہے اور سیکیو رٹی
بڑھانے سے بھی زیادہ ضروری دہشت گردی کے وجوہات کو ختم کر دینا ہے اور سب
سے بڑی وجہ پر حکومت کو ضرور سوچنا چاہئے کہ کب تک ہم امریکہ کی حفاظت کی
خاطر اپنے لوگوں اور اثاثوں کی قربانی دیتے رہیں گے، ایبٹ آباد آپریشن، پی
این ایس مہران اس سے پہلے جی ایچ کیو ، آئی ایس آئی کے دفاتر بحریہ اور
فضائیہ کے اہلکار و تنصیبات اور عام شہری املاک،ہمارا مالی نقصان تو ہے ہی
ہماری خود مختاری پربھی حملے ہیں اور ایک عام پاکستانی اس کا ذمہ دار دہشت
گردوں سے زیا دہ امریکہ کو سمجھتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ہم نے خود
کو اس جنگ سے الگ کرلیا تو ہمارے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے
جبکہ دوسری طرف ہمیں ایسی قانون سازی بھی کرنی ہوگی کہ کم از کم رنگے
ہاتھوں پکڑے گئے دہشت گردوں کو سختی کے ساتھ قرار واقعی سزائیں دے کر نمٹ
لیا جائے اور ناکافی ثبوت ہونے کی بنا پر ان کی خلاصی ممکن نہ ہو ۔ ملک اس
وقت سنجیدہ ترین حالات سے دوچار ہے اور ہمیں ہر پہلو پر انتہائی سنجیدگی
اور خلوص کے ساتھ کام کرنا ہوگا اپنی ذات اور مفاد سے بالاتر ہو کر۔ |