شدید گرمی اور حبس کے عالم میں خواتین، نوجوان،
بوڑھے پسینے میں شرابور بینکوں کے آگے کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے
گارڈ بڑی رعونت سے ایک شخص بینک سے باہر نکلتا تو دوسرے کو اندر جانے کی
اجازت دیتا یوٹیلٹی بلز جمع کروانے والے ، کی نہ جانے کب ہمیں شعور آئے گا
بینک کے اندر اے سی میں بیٹھے ہوئے لوگ باہر کھڑے عوام کے پیسوں سے یہ مزے
اڑا رہے ہیں اور اتنی گرمی میں 8 اے سی کمپریسرز کی گرمی بھی الگ لیکن سب
چپ ہیں بھیڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک سر جھکائے چلتے جارہے ہیں کوئی آواز
نہ احتجاج لگتا ہے کہ ہم قوم نہیں بھیڑوں کا ایک جھنڈ ہیں جنہوں نے ہر چیز
کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لی ہے ہمارے اسی طرز ِ عمل نے افسر شاہی اور
بیوروکریسی کو گیڈرسے شیر بنادیا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کیا اربوں
کھربوں کا کاروبارکرنے والے ان بینکوں کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں تھا کہ
دھوپ میں کھڑے ان لوگوں کے لئے کرسی اور سائے کا بندوبست کرے یہ بات نہیں
ان لوگوں کے دل سے احساس مرگیاہے، ضمیر سوگیاہے شاید اس لئے کہ ذ ہنی طور
پر لوگوں کو ذلت برداشت کرنے کی عادت ہو چکی ہے اس ماحول کوبدلنے کے لئے
اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا سیکھو اور ان سیاسی پارٹیوں کے نعرے مارنا چھوڑ
دو جو ہمیں عزت نہ دے سکیں اور 73 سال بعد بھی پاکستانی عوام اپنے ہی وطن
میں ذلت اور رسوائی کا شکار ہے یہ انتہائی خوفناک بات ہے جب تک اپنے حق کے
لئے آپ متحد نہیں ہوجاتے کوئی طشتری میں رکھ کر آپ کو حقوق نہیں دے گا اس
کے لئے جدوجہد ناگزیرہے۔۔ باتیں اور حکائتیں اصلاح اور تربیت کے لئے ضروری
ہیں اس سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ دانشوروں کے عمر بھر کی
پونجی ہوتی ہے ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب
نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے
ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے؟ وہ بولی اس نے ترت
جواباً کہا اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی اس نے مجھ
کو شرمندہ کر ڈالا یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کا نچوڑ
ہوتاہے دانائی کی بات جس سے بھی ملے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن کوئی
بھی چیز چھپی ہوئی تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔ کسی بھی شخص کا دوسرا
چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بْرا ہے یہی کافی
ہے کہ اس نے تمہارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا بس
اسی پر اکتفا کرو۔ ہم میں سے ہر کسی کا ایک بْرا رخ ہوتا ہے جس کو ہم خود
اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہماری پردہ پوشی
فرمائے ورنہ جتنے ہم گناہ کرتے ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو
ہم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کریں جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا
زیادہ کریم رب ان پر پردے فرماتا ہے۔ کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم
بھی ہو تو دوسروں کے سامنے آشکار نہ کریں آگے کہیں آپ کی وجہ سے اسے
شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اﷲ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ
پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟ دوسروں کی ٹوہ میں رہنا اﷲ کو
سخت ناپسندہے اس لئے سدا خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں کا اصول اپنائیں تاکہ
دنیا سے نفرتوں کا خاتمہ ہو سکے خوشیاں باٹنا بھی صدقہ جاریہ ہے۔ایک صاحب
کہتے ہیں کہ میں مردان میں تھا ایک چرسی نے مجھ سے چرس کیلئے پیسے مانگے۔
میں نے کہا تجھے کھانا کھلاتا ہوں مگر چرس کے پیسے نہیں دوں گا۔ وہ بولا
کھلانے والا کوئی اور ہے تم بس چرس کے پیسے دو، نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے
اس کو چند روپے دے دیئے۔ جب وہ چلا گیا تو میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا کہ
یہ کدھر جاتا ہے اور کیا کرتا ہے؟قریب میں ایک شادی کا فنکشن تھا، لوگ
کھانے کے برتن ادھر اْدھر لے کر جا رہے تھے ایسے میں ایک شخص سے چاولوں کی
بھری ٹرے گر گئی وہ ٹرے اٹھا کر آگے بڑھ گیا۔ وہ چرسی انہی چاولوں کے پاس
بیٹھ کر کھانے لگ گیا، اسکی مجھ پر نظر پڑی تو اس نے ایک جملہ کہا جو شاید
زندگی بھر نہ بھولوں یہ جملہ میری روح میں اتر گیا مجھے اچھی طرح یاد ہے اس
نے کہا تھا! رب کے ساتھ میرے تعلقات آج کل کچھ خراب ہیں ورنہ برتن میں ہی
دیتاہے یقین جانو وہ کریم اتنا ہے کہ ناراض بھی ہو تو بھوکا نہیں دیکھ سکتا
اﷲ تعالیٰ کی ذات پر اتنا اعتقاد،اتنا یقین میں لاجواب ہوگیا۔ آخرمیں جاتے
جاتے یہ بھی پڑھئے اور سر دھنئے لاہورکاایک معروف علاقہ ہے شاہ عالمی یہ
پاکستان کا بہت بڑا کاروباری مرکزہے یہاں ہرروز ہزاروں بیوپاری مال کی
خریداری کے لئے آتے ہیں کراکری سے لے کر الیکٹرونکس اور دنیا جہاں کی ہر
چیزمل جاتی ہے یہاں روزانہ ہزاروں بیوپاری مال خریدنے آتے ہیں شاہ عالمی
میں رنگ محل، اعظم کلاتھ مارکیٹ، سوہا بازار بہت مشہور ہیں یہاں درجنوں
تاریخی مقامات ہیں مسجد وزیر خان، مقبرہ ایاز، سنہری مسجد یعنی یہاں قدم
قدم پر برصغیرکی ایک تاریخ پوشیدہ ہے جو تھوڑا سا غورکریں تو عیاں ہوجاتی
ہے تو بندہ اس کے اسرار میں گم ہوجاتاہے بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جو پھر
کبھی سہی چند ماہ قبل چوک شاہ عالمی میں ایک جگہ لوگوں کا بڑا رش تھا میاں
بیوی میں لڑائی ہورہی تھی شدیدگرمی اور حبس کے باوجود لوگ اس لڑائی کو
تماشا سمجھ کردیکھ رہے تھے عورت کاغصہ کے مارے منہ لال ہوگیا تھا وہ بار
بار کہہ رہی تھی میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی تم اتنے کنجوس ہوکہ لاکھ پتی
ہونے کے باوجود گاڑی نہیں خریدتے شوہر اسے بار بار کہہ رہاتھا میں جلد ہی
گاڑی لے دوں گا گھر چلو گھر جاکر معاملات طے کرلیتے ہیں دو چابی مجھے دو آج
موٹر سائیکل پر گھر چلو۔۔عورت نے ایک بار پھر انکار میں سر ہلایا اور کہا
میں چابی دوں گی نہ تمہارے ساتھ جاؤں گی " اچھا نا دو شوہرنے غصے میں چلایا
میں تالہ ہی توڑ دیتا ہوں
بیوی نے کہا توڑ دو لیکن چابی نہیں ملے گی "
شوہر نے کہااچھا پھر یہ لے میں تالہ توڑنے لگا ہوں جاؤ تیری مرضی میرے ساتھ
یا نہ چلو
"جاؤ جاؤ نہیں آتی تم جیسے کنجوس کے گھر" بیوی نے تنک کر جواباً کہا اور
کوئی چیز قریبی کچرے کے ڈھیرمیں اچھال دی کچھ ہمدرد افرادنے کچرے میں چابی
تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے پھرشوہر نے لوگوں کی مدد سے
موٹرسائیکل کا تالہ کھول لیا اور اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا اور بولا "تم
آتی ہو یا میں جاؤں"
تو وہاں کھڑے لوگوں نے سمجھایا بی بی جاؤ اتنی سی بات پر اپنا گھر نہ خراب
کرو پھر اس نے شوہر سے وعدہ لیا کے موٹر سائیکل بیچ کر جلد ہی گاڑی لے لے
گا
پھر دونوں کی صلح ہوگئی اور دونوں چلے گئے تو جناب ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اسی
جگہ پر پھر سے مجمع لگا ہوا تھا ایک بندہ شور کر رہا تھامیں لٹ گیا میرا
موٹرسائیکل کوئی چْرا کر لے گیا پاس کھڑا ایک شخص معنی خیز انداز میں
مسکراکر بڑبڑایا لاہور لاہور اے
کوا وہ واحد پرندہ جو عقاب کو تنگ کر سکتا ہے. یہ پرندوں کے بادشاہ عقاب کی
پست پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی چونچ سے اسکی گردن پر کاٹتاہے۔ جبکہ کوے سے
زیادہ طاقتور عقاب کوے کا مقابلہ کرنے میں اپنی طاقت اور وقت صرف نہیں کرتا۔
بلکہ وہ اپنے پر کھولتا اور آسمان کی طرف اونچی اران بھرنا شروع کر دیتا ہے۔
عقاب کی پرواز جتنی بلند ھوتی جاتی ہے کوے کی اران اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے
اور بل آخر وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گر جاتاہے۔ آج سے آپ ان لوگوں کی
وجہ سے پریشان ہونا چھوڑ دیں جو آپ کی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ھیں۔ آپ کی
پرواز کے سامنے آسمان کھلا ہواہے۔ اپنی اران کو خدا کے ساتھ اونچا کرتے
جائیں تو بہت سی رکاوٹں خود ہی دور ہوتی جائیں گی۔ اپنی طاقت عقاب کی مانند
مثبت کاموں میں صرف کریں۔ اپنی پرواز کی قوت کو جان لیجیے۔ یہی کامیابی کا
راز ہے۔
|