اتر پردیش میں یوگی سرکار براہمنوں کو ناراض کرنے پر تلی
ہوئی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالاس کی اپنی حلیف نشاد پارٹی کے رکن اسمبلی
وجئے کمار مشرا کی مدھیہ پردیش سے گرفتاری ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جب سے
مدھیہ پردیش میں نروتم مشرا نامی برہمنوزیر داخلہ بنا ہے وکاس دوبے سے لےکر
وجئے مشرا تک ہر کوئی وہیں جائے پناہ ڈھونڈتا ہے۔ وجئے مشرا جی بھدوہی سے
رکن اسمبلی ہیں ۔ یہ برہمنکی برہمنسے لڑائی ہے ۔ مشرا کے رشتے دار کرشن
موہن تیواری نے ایم ایل اے سمیت ان کے پورے خاندان پر گھر پر غاصبانہ قبضے
کا الزام لگایا اور انہیں صوبہ چھوڑ کر فرار ہونا پڑا لیکن بات نہیں بنی تو
آگر میں انہوں نے خودسپردگی کردی اور یوپی پولس گرفتار کرکے لے آئی۔ وجئے
مشرا پر جملہ 73 مقدمات ہیں ۔ویسے وجئے مشرا کے مطابق فی الحال صرف ۱۱
مقدمات باقی ہیں ان میں سے بھی وزیر نند گوپال نند کو ریموٹ بم سےحملے کے
علاوہ کوئی سنگین معاملہ نہیں ہے۔ 4مرتبہ ایم ایل اے بننے والے دبنگ
برہمنسیاسی رہنما کی اگر یہ حال ہے تو عام براہمنوں کی حالت کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ہے۔برہمن ان کے اندر بسے خوف و دہشت کا پتہ وجئے مشرا کی
وکیل بیٹی رچا مشرا کے اس بیان سے بھی لگائی جاسکتی ہے کہ خدا کرے راستے
میں گاڑی نہ پلٹے۔
وکاس دوبے کے فرضی انکاونٹر کو ایک مہینہ گزر گیا لیکن اترپردیش میں اس کا
بھوت اب بھی منڈلا رہا ہے۔ اب یہ مسئلہ ایک فرد سے ہٹ کر برہمنسماج کا
ہوگیا ہے۔ فی الحال اتر پردیش میں بالخصوص اور ہندی بیلٹ میں بالعموم
براہمنوں کی داخلی کیفیت کو حال میں ہتھیار ڈالنے والے اوما کانت شکلا کی
خود سپردگی سے لگایاجاسکتا ہے۔ شکلا پر 50،000 روپئےکے انعام تھا ۔ سرینڈر
ہونے کے لیے وہ جس وقت بیوی اور بیٹی کے ساتھ چوبے پور تھانے پہنچا تو اس
کی گردن میں ایک تختی ٹنگی ہوئی تھی جس میں لکھا تھا "میرا نام اوماکانت
شکلا عرف گڈن ولد مولچندر شکلا ہے ۔ میں بکرو تھانہ چوبے پورکا رہنے والا
ہوں۔اس تختی کے مضمون کو پڑھ کر بے ساختہ وکاس دوبے کی ویڈیو میں اس کا چیخ
چیخ کر یہ کہنا یاد آتا ہے کہ ’’میں وکاس دوبے ہوں ، وکاس دوبے کانپور
والا‘‘۔ یہ اعلان کسی دلیری کی علامت نہیں ہے۔ اس کے اندر فرضی انکاونٹر کے
ذریعہ متوقع قتل کا خوف بول رہا ہے ۔
مہذب معاشرے میں انکاونٹر یعنی ماورائے عدالت قتل کا اس قدر عام ہوجانا کہ
ملزم از خود اپنانام ویڈیو پر بتانے لگے یا تختی لگا کر آنے لگے سرکاری
دہشت گردی کا غماز ہے۔ مجرمین کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزاد ینے
اور پولس کے ذریعہ انہیں جعلی انکاونٹر میں ہلاک کرنے میں بڑا فرق ہے۔ اس
طرح پولس راج کو قبولیت عام مل جانے سے عدلیہ بے معنیٰ ہو جاتا ہے۔ ایسے
میں سیاستدانوں کو انتظامیہ کے ذریعہ اپنے مخالفین کا کانٹا نکالنے کی کھلی
چھوٹ مل جاتی ہے۔ اوما کانت پولس تھانے میں پہنچ کر پہلے تو سجدہ ریز ہو
گیا اور اس کے بعد بتایا کہ وہ کانپور دیہات کے اطراف اپنے رشتے داروں کے
پاس چھپا ہوا تھا مگر اب با ربار کی چھاپہ ماری سے ڈرگیا ہے۔ اپنے احساسِ
جرم کا اعتراف کرنے کے بعد اس نے جانی تحفظ کی گہار لگائی ۔ پولس کے سامنے
اوما کانت نےقتل عام میں اپنے ملوث ہونے کی تصدیق کی ۔ اس کے گھر سے پولس
کے لوٹے ہوئے کارتوس برآمد ہوئے۔ وکاس دوبے کو اس نے سفاک درندہ قرار
دےدیا ۔ اوماکانت کو تو خیر گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن مذکورہ حملے میں شامل
اس کا بھائی شری کانت ہنوز فرار ہے۔
یہ حقیقت اب اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ وکاس دوبے کو قبل ازوقت پولیس
کارروائی کی جانکاری فون سے دی گئی تھی۔اس کے بعدہی اسے اپنے ساتھیوں کو
جمع کرکے پولیس ٹیم پر دھاوا بولنے کا موقع ملا۔ مخبری کا الزام چوبے پور
پولیس اسٹیشن کے انچارج ونے تیواری اور سب انسپکٹر کے کے شرما پر ہے جنھیں
معطل کرنے کے بعد ایس ٹی ایف نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس معاملے کا ایک اہم
پہلو یہ بھی ہے کہ سب انسپکٹر کے کے شرما نے گزشتہ ماہ ۱۳ جولائی کو سپریم
کورٹ سے رجوع کرکےبیوی ونیتا سروہی سمیت اپنی جان کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔
اس معاملے میں پہلی بارایک طرف پولس کے قتل میں پولس کے ملوث ہے دوسری طرف
پولس کے ذریعہ پولس کی جان کو خطرہ لاحق ہے ۔معطل انسپکٹر کے کے شرما نے
عدالت عظمیٰ سے اپنے خلاف دائر ایف آئی آر کی غیر جانبدارانہ ، آزادانہ
اور قانون کے دائرہ میں جانچ کاذمہ کسی آزاد ایجنسی کے حوالے کئے جانے یا
سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کرانے کی ہدایت دینے کی خاطر
درخواست کی ہے۔ اس معاملے کی تفتیش کرنے والے جسٹس چوہان کے خلاف بھی سپریم
کورٹ میں درخواست کی گئی ہے کہ ان بھائی بی جے پی میں ہیں اس لیے ان کا
تقرر موزوں نہیں ہے۔ ریاستی انتظامیہ پر سرکاری افسر کا عدم اعتماد
تشویشناک ہے۔
اس تناظر میں سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ کے اندر کورونا کی مانند پھیلنے
والے آڈیو کو دیکھنا چاہیے۔ اس سمعی فیتے میں ہلاک ہونے والے سی او
دیویندر مشرا اور دیہی علاقوں کے ایس پی برجیش کمار شیواستو کی گفتگو ہے۔
اس آڈیو میں دیویندر مشرا نے صاف کہا تھا کہ معطل ایس او ونے تیواری بدنام
ِ زمانہ وکاس دوبے کی قدم بوسی کرتا ہے اور وہ تھانے کے دوچار لوگوں کو
مروا دے گا۔ اس آڈیو میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ تیواری نے اپنی جان
بچانے کے لیے سابق کپتان کو پانچ لاکھ روپئے دئیے تھے۔ اس آڈیو سے لکھنو
میں ہنگامہ مچا دیا ۔ ایس پی نے تو فی الحال یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ
ان کی بات تو ہوئی تھی لیکن یہ یاد نہیں کہ کس سلسلے میں کیا بات ہوئی؟ اس
طرح گویا پولس قتل عام میں نچلے درجہ کے اہلکاروں سمیت اعلیٰ افسران کی
لاپروائی بھی شامل ہوگئی ہے ۔ آڈیو کی تفتیش کے دائرے میں سابق کپتان اننت
دیو تیواری اور آئی پی ایس افسر نکھل پاٹھک بھی آجائیں گے۔ انہوں نے اپنی
جانچ میں سی او سمیت سبھی پولس افسران کو کلین چٹ دی تھی۔
مجرم پیشہ لوگ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کے جرائم کا مذہب یا سماج
سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس پورے معاملے میں مرنے والے ، مارنے والے،
مخبری کرنے والے اور بچانے کی کوشش کرنے والے سب کے سب اتفاق سے برہمنسماج
کے لوگ ہیں لیکن اس ورادات کو سناتن دھرم سے جوڑنا یا براہمنوں کو اس کے
لیے موردِ الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ مغرب کے ذرائع ابلاغ نے اسلام دشمنی میں
یہ کیا کہ جب کوئی عیسائی کسی تشدد کی واردات میں ملوث ہوتا تو اسے اس کا
ذاتی عمل قرار دیا جاتا اور نفسیاتی مریض بتاکر اس سے ہمدردی جتائی جاتی
لیکن اگر وہ مسلمان ہوتا تو مذہبِ اسلام کے خلاف محاذ کھول کر پوری امت
مسلمہ کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا۔ ہندو ستان کے فرقہ پرستوں نے بھی مغرب
پرستی میں یہی طرزِ عمل اختیار کیا ۔ وہ لوگ کسی مسلمان کو پکڑ کر ٹیلیویژن
پر لے آتے اور اس سے پوچھتے آپ کی قوم اس کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟ آپ
ایسا کرتے ہیں یا نہیں؟ اس واویلا کااثر یہ ہوا کہ مسلم رہنما ازخود اپنی
صفائی میں مظاہرے کرنے لگے ۔ اس کے برعکس اترپردیش میں ہندووں سے تو دور
براہمنوں سے بھی کوئی اس طرح کے اوٹ پٹانگ سوالات نہیں کرتا ۔ الٹا
برہمنرہنما ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وکاس دوبے کا انکاونٹر
غلط ہے۔ اس کو فرضی انکاونٹر میں ہلاک کرنے کے بجائےگرفتار کرکے قانون کے
مطابق سزا دینی چاہیے تھی۔ مسلم رہنماوں اور تنظیموں کواس طرح کا موقف
اختیار کرنا چاہیے۔
|