پیمانے

عقلمند ہے وہ انسان جو خود کو وقت کے دھاڑے کے ساتھ گرا دے .اور وقت کے بہاؤ کی تیز لہروں کے ساتھ کبھی ترتیب اور کبھی ترتیب بہہ جائے۔اس جدید اکیسویں صدی میں میں نے تو نہیں سوچا تھا کہ مشینری کے ساتھ ساتھ رشتے بھی جدید ہو جائے گے اور وقت آنے پر وقت کے دھارے کے ساتھ خود بھی بہے گے اور رشتوں کو بھی بہا دیں گے۔ کچھ روز پہلے ایک خبر نظروں سے گزری کہ بیٹے نے ماں کو مارا ۔۔۔خبر میڈیا کی زینت بنی۔ بیٹی نے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر باپ کو زہر دے دیا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی خبر ہے نہ آخری ہوگی ۔۔۔۔۔۔سب رشتے اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں

اگر دوسری طرف ماں باپ کو دیکھا جائے تو وہ الٹا اولاد کے خدا بنے بیٹھے ہیں۔ اللہ نے اولاد دی اس کی اچھی تربیت کی۔ لیکن اس اولاد کا اپنا بھی ذہن ہے۔اپنے خیالات اور منصوبے ہیں۔آج کے اس دور میں اور نفسا نفسی کے عالم میں کسی کو اپنا دشمن بنانے سے بہتر ہے ایک دوستانہ ماحول کو فروغ دیا جائے بہت سے اور راستے منتظر ہیں۔۔۔۔ بہت سوچ کر موقع دینا عقلمندی ہےبجائے اسکے کہ کسی ایک بات پر بیٹھ کر رویا جائے۔ اللہ نے والدین کا بہت مقام بنایا ہے انہیں حقوق بھی زیادہ دئیے ہیں لیکن اللہ نے ان کے ذمے فرائض بھی بہت عائد کئے ہیں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت ،انکی خوشی کا احترام،اور چاہ پرواہ
.
ہمیشہ کے لئے تکلیف کو اولاد کا مقدر نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ ان کو سنو اگر تو واقعی غلطی پر ہیں تو سمجھاؤ۔ لیکن اپنے خیالات اور مرضیاں ان پر مت تھوپو ۔ اپنی زندگی گزار چکے ہو اب ان کی باری ہے۔ضروری نہیں ہر بار برے ہی جو فیصلہ کرے وہ صحیح ہو۔ یہ لیبل جو معاشرہ لگا چکا ہے اس سے مٹانے کا وقت ہے اتنی کم زندگی میں یہ طویل القدرمشکلیں چھوٹی سی زندگی کو اور بھی بھاری اورمشکل بنا دیتی ہیں. دوسری طرف اگر میاں بیوی کے رشتے کو دیکھا جائے وہ اپنی الگ قدر کھو چکے ہیں۔پاکستان کی پیدائش کا مہینہ ہے۔73واں یوم پیدائش۔ دو ٹکڑے تو ہندو مسلم علیحدہ ہوگئے لیکن ان کی رسموں کو سینے سے لگائے ہمارے بڑے آج بھی انہی سمتوں پر رواں دواں ہیں۔ ہمارے ہاں بیٹیوں کو جگر گوشہ تو کہا جاتا ہے لیکن تب تک جب تک وہ بیاہی نہیں جاتی۔ اس کی رخصتی پر رونا ایک مزہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے ۔ جسے بخوبی ادا کیا جاتا ہے اور پھر پلٹ کر اس کا حال احوال تک نہیں پوچھا جاتا چاہےوہ مار کھائیں یا کوئی ہڈی پسلی تروا لے۔ رونا تھا رخصتی پر رو کر وہ فرض پورا کر چکے ہیں

اب دوبارہ اس کے جنازے پر شریک ہو کر رونے کی رسم بخوبی ادا کی جائے گی ۔یہ نکاح سے بہتر نہیں تعلیم کی دو ڈگریوں کے حوالے کرنا اپنی بیٹی کو ,اگر تو واقعی پیار کرتے ہیں تو حق ادا کرو اس پیار کا ۔جہیز نہیں تعلیم دو۔جہیز وہ خود بنا لے گی۔جو انسان ہو وہ انسان "ڈیزرو"کرتا ہے لیکن جانور یقینا جانور ڈیزرو کرتا ۔ہر ذی شعور انسان میری بات سے متفق ہوگا ۔ہم قرآن اور سنت کو بس وہاں استعمال کرتے ہیں جہاں اپنے فائدے یا مقصد کی بات ہو۔ درج ذیل کچھ اہم باتیں ہیں قرآن کے حوالوں کے ساتھ ۔۔۔۔یہ عورت کے بارے میں وہ پانچ باتیں جو اکثر مردوں کو یاد ہوتی ہیں
تراجم قرآن
1)عورتوں کی چال بہت خطرناک ہے۔
2) دو, تین, چار عورتوں سے نکاح کرو۔
3) عورتیں عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہیں۔
4) مرد عورت پر سر براہ ہیں۔
5) وراثت میں مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔
اب کچھ ایسی باتیں جو عورتوں کے بارے میں مردوں کو یاد نہیں رہتی
1)عورتوں کے ساتھ بھلائی سے زندگی گزارو۔
2)عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا خیال کرو۔
3)عورتیں شیشے کی طرح ہے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔
4)وہ عورتوں کی عزت کرے گا جو خود عزت دار ہوگا.

دین میں ڈھونڈ کر مطلب کی بات نکالنا آج کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ دین اسلام الجھنوں کو سلجھاتا ہے۔ بندھی گرہیں کھولتا ہے ۔سیدھے، صاف، کھڑے اور جائز حقوق مقرر کیے ہیں لیکن جس کا جہاں دل کرتا ہے ایک الگ ریاست کا خدا بنا بیٹھا ہے۔ اللہ عزوجل رسی کو ڈھیلی چھوڑنے والا ہے۔ وہ رسی اور اس کی گرفت کب تنگ پر جائے اور رسی گلے کا پھندہ بن کر آنکھیں اور زبان باہر لٹکا دے کوئی نہیں جانتا۔ خود کو اس کی بنائی ہوئی حدوں میں رکھنا ہی بہتر ہے ورنہ کچلا جائے گا یہ حضرت انسان۔۔۔۔۔۔
 

Rida Bashir
About the Author: Rida Bashir Read More Articles by Rida Bashir: 19 Articles with 14281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.