حیات بلوچ : چراغ جو گل ہو گیا

سمجھ نہیں آتی کہاں سے بات شروع کروں سمجھ نہیں آتی کہ کتنے حیات جیسوں کی کہانیوں کو بیان کروں اب تو بچہ بچہ حیات بلوچ کی کہانی کو سن چکا ہے

شاہد کسی اور بیٹے بھائی باپ کا خون بہہ جائے تو ہمارے پاس ہمدردی کے لفظ ہونے کے بجائے ایک لمبی بحث ہوتی ہے کہ کون سہی تھا کون غلط؟

مگر اس ماں سے پوچھو کہ اس کا بیٹا اس کہ آنکھوں کے سامنے مارا گیا ہو اور ایک بیٹا اپنے آنکھوں میں بہتر مستقبل کا خواب لیے اپنے والدین کے سامنے آٹھ گولیوں کا نشانہ بن کہ ابدی نیند سلا گیا ہو اور مجرم کہتا ہے یہ محض ایک حادثہ تھا
چلو مان جاتے ہیں حادثہ تھا کیا روز بیٹوں کی خون بہہ اور کہا جائے حادثہ تھا کتنے ماؤں کے بوڑھاپے کا سہارا چھین لوگے اور کتنے بہنیں سڑکوں پہ انصاف کے لیے نکل آئینگے
کیا قوم پرستی کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟ کیا انصاف کا دروازہ ہر کسی کے لیے نہیں کھل سکتی؟ کیا ہر بیٹے کا خون ایک جیسا نہیں ہوتا ؟ کیا ہر کسی کا غم ایک جیسا نہیں ہوتا؟

کشمیر پہ ظلم ہو تو وہ ظلم کہلاتا ہے مگر بلوچستان کا ظلم کیوں نظر نہیں آتا وہاں کا خون اتنا سستا کیوں ہوگیا ہے؟کب آئین سب کے لیے برابر ہوگی ؟ پاکستان تو اسلامی ریاست ہے مگر سلوک تو کافروں سے بھی بدتر ہو رہا ہے

اقبال کا خواب تو یہ نہ تھا پھر یہ کس خواب کی تعبیر ہے نہ جانے کب ختم ہوگی یہ قوم پرستی کی کہانی اب تو امن بھی ایک خواب لگنے لگا ہے اب تو وحشت ہے دلوں میں ڈر ہے کہ نہ جانے اب کتنے اور حیات حادثے کا شکار ہو اور کتنے گھر کے چراغ بجھ جائیں اور کتنے بچے یتیم ہو اب تو نہ ریاست ہے نہ آئین ہے اب تو بندوقیں ہے اور ہر طرف خون کی بہتی ندیاں ہے
بقول کسی کہ
مارنے والے کیا جانے کہ بیٹے کس طرح جواں ہوتے ہیں

 

گل صحرائی
About the Author: گل صحرائی Read More Articles by گل صحرائی: 10 Articles with 9645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.