جب برطانوی چور بنے...... برصغیر کی چند اہم نوادرات جن پر برطانیہ نے قبضہ کیا!

image
 
1700کی دہائی میں ہندوستان اکیلا ہی دنیا کی 22.6فیصد دولت پیدا کرتا تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی، تاہم ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب 1952میں انڈیا کی یہی دولت کی شرح گِر کر3.8فیصد ہوئی اور برصغیر( جو کہ 1952میں انڈیا بن چکا تھا)، اس نے سالوں عروج دیکھنے کے بعد زوال پذیری بھی دیکھی۔
 
1612میں شہنشاہ جہانگیر نے ایک چھوٹی سی تجارتی کمپنی ’’ایسٹ انڈیا‘‘ کو سورت بندرگاہ پر تجارت کرنے کی اجازت دی ۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا، وہ دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، پہلے پہل تو وہ ہندوستان سے چائے، پوٹاشیم نائٹریٹ اور اسی طرح کی دیگر چیزیں خریدتے اور پھر اسے انگلستان میں لے جاکر مہنگے داموں فروخت کرتے تھے، تاہم1670 میں برطانوی بادشاہ چارلس دوئم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو جنگ کرنے نوآبادیاں قائم کرنے کی اجازت دی تو گویا یہ تجارتی کمپنی برطانیہ کیلئے ایک فوجی کیمپ کا درجہ حاصل کرگئی، اس کے بعد سے انگریزوں نے ہندوستان میں آہستہ آہستہ اپنے قدم پکے کئے اور یہاں کے حکمرانوں کو ایک ایک کرکے شکست سے دوچار کرتے ہوئے ناصرف اس سرزمین پر قبضہ کیا، بلکہ یہاں کی دولت پر بھی ان کی نظریں جمی رہیں ۔ بھارت کی ایک مشہور ماہر معاشیات ’’اتسا پٹنائک(Utsa Patnaik) کی ایک تحقیق کولمبیا یونیورسٹی نے شائع کی ، جس کے مطابق 1765سے لے کر1938 تک انگریزوں نے 45ٹریلن کی خطیر رقم کے اہم نوادرات، قیمتی سامان اور دولت ہندوستان سے برطانیہ منتقل کی۔ یہ رقم آج کے برطانیہ کی مجموعی پیداوارسے 17گنا زیادہ ہے۔
 
جو چیزیں برطانوی اپنے ساتھ لے گئے ،ان میں سے کئی چیزوں کو انہوں نے مختلف میوزیم میں رکھ لیا ہے یا نیلام کردیا ہے۔ اکثر و بیشتر ان چیزوں کو واپس لوٹانے کیلئے جنوبی ایشیائی ممالک سے بیانات سامنے آتے ہیں ، لیکن اب تک انہیں واپس لوٹایا نہیں جاسکا ہے ناہی برطانوی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ لگتا ہے۔
 
 اس حوالے سے بھارت کے آرکیالوجیکل سروے کے سربراہ گوتھم سین گپتا کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت سے ان نوادرات کو کئی مرتبہ مانگا جاچکا ہے ، لیکن وہ اس حوالے سے کوئی تعاون نہیں کرنا چاہتے۔ان کا کہنا ہے کہ’’ یونیسکو ‘‘ کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، صرف برصغیر کے ہی نوادرات پر برطانیہ کی حکومت نے قبضہ نہیں کر رکھا بلکہ کئی ممالک جن میں میکسیکو، پیرو،چین، مصر بولوویا، گوئٹے مالا ودیگر سے بھی نوادرات لوٹے گئے اور انہیں برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے کر اپنے میوزیم کا حصہ بنالیا۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی مہم کا آغاز کیا جائے ، جس میں برطانیہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ لوٹے گئے قیمتی ورثے کو ان کے اصل ممالک کو واپس لوٹا دیں ، لیکن اس کیلئے ان ممالک کی جانب سے اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
 
کوہ نور پر غاصبانہ برطانوی قبضے کی کہانی کے بارے میں اکثر لوگوں کو پتا ہے ، لیکن اس مضمون میں کوہ نور ہیرے کے علاوہ برطانیہ کے پاس موجود برصغیر کی چند دوسری قیمتی اشیا کے بارے میں بتایا جارہاہے، آئیے آپ بھی ان کے بارے میں جانئے۔
 
سلطان گنج بدھ مجسمہ:
2میٹر لمبے اس سلطان گنج بدھ کے مجسمے کو بھارت کی جانب سے تیار کردہ سب سے بڑا دھاتی مجسمہ مانا جاتا ہے، اسے برٹش انجینئر نے 1862میں دریافت کیا تھا، یہ مجسمہ ایک مندر سے کھدائی کے دوران برآمد ہوا تھا اور اس وقت بہت مشہور ہوا، اس کا فائدہ ایک برطانوی کاروباری شخص نے اٹھایا، اس نے اسے معمولی رقم کے عوض خرید کر انگلستان واپس بھجوا دیا، یہ مجسمہ بھارتی ہنرمند ہاتھوں سے تیارشدہ ضرور ہے لیکن یہ اب ’’برمنگھم میوزیم‘‘ کی زینت بنا ہوا ہے۔
image
 
امراوتی سنگ مرمر:
امراوتی ماربل دراصل سنگ مرمر کے وہ نادر نمونے ہیں ، جن پر خوبصورتی سے کئی مجسموں کو تراشا گیا ہے، ایسے 120سنگ مرمر پر تراشے جانے والے نادر نمونے برطانوی قبضے میں ہے، ان نمونوں کو 1797میں دریافت کیا گیا تھا، 1840میں یہ ایک برطانوی باشندے سر والٹر ایلیٹ کے قبضے میں آئے، بعد ازاں ان نمونوں کو ’’ایلیٹ ماربل ‘‘ کے نام سے ہی جانا جانے لگا۔ 1860میں سنگ مرمر پر تراشے کئے ان مجسموں کو واپس کرنے کی بات شروع ہوئی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا، اب بھی یہ نادر نمونے ’’برٹش میوزیم ، لندن ‘‘ میں موجود ہیں ۔
image
 
ٹیپو کا شیر:
برطانوی قبضے میں موجود نوادرات کی فہرست میں سب سے انوکھا ’’ٹیپو کا شیر(Tipu's Tiger)‘‘ ہے ، اسے میسور کے بہادر حکمران ٹیپو سلطان کیلئے بنایا گیا تھا۔ٹیپو سلطان کو شیر سے خاصی دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے لکڑی کو پینٹ کر کے ایک ایسا نادر مجسمہ تیار کیا گیا ، جس میں ایک شیر یورپی خدوخال رکھنے والے ایک شخص پر حملہ کر رہا ہے اور و ہ شخص زمین پر گرا ہوا ہے۔ اس مجسمے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مکینیکل سسٹم بنایا گیا تھا، جس کی وجہ سے شیر اور اس آدمی کے ہاتھ حرکت کرسکتے ہیں اور اس میں سے آواز بھی نکلتی ہے۔ اُس دور کے اس جدید مکینیکل سسٹم رکھنے والے اس مجسمے کو ٹیپو سلطان کی پسند کے عین مطابق بنایا گیا تھا، جسے دیکھ کر ہی انسان اندازہ لگاسکتا ہے کہ ٹیپو سلطان ، انگریزوں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اب یہی مجسمہ انگریزوں کے قبضے میں ہے، آج بھی یہ لندن کے ’’وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم‘‘ کی زینت بنا ہوا ہے۔
image
 
ٹیپو سلطان کی انگوٹھی:
18ویں صدی میں میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی انگوٹھی اور قیمتی جواہرات سے جڑی تلوار پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا، 2004میں ان کی تلوار ایک بھارتی نے 1.57کروڑ کی خطیر بولی کی رقم ادا کر کے خریدلی، تاہم ان کی انگوٹھی بھی 2014میں ایک لاکھ45ہزار یورو کی خطیر رقم میں بیچ دی گئی، 41.2گرام کی اس انگوٹھی کو سنٹرل لندن میں نیلامی کے لئے پیش کیا گیا تھا اور یہ اپنی اصل قیمت سے14گنا زیادہ قیمت میں نیلام کردی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ٹیپو سلطان کی اس نادر انگوٹھی پر ہندو کے دیوتا ’’رام‘‘ کا نام کندہ تھا۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: