پچھلے 10سالوں سے ہم مختلف عنوانات پر ہم لکھتے رہے ہیں۔
الگ الگ سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جہاں کہیں غلطی پائی گئی اسکی
اصلاح کیلئے تنقید بھی کی ہے۔ ہماری تنقید برائے اصلاح رہی ہے۔ جب بھی ملک
وملت پر پریشانی کے بادل چھائے رہے اس پر ہم نے تبصرے کئے، لوگوں کو
بیدارکرنا ضروری سمجھا لیکن ان حالات میں جس وقت بھی علماء ودانشوران کے
تعلق سے تنقید کی گئی یا ان کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگایا گیا تو اس
کے رد میں طویل اور پرتشدد تبصرے ہمارے سامنے آتے رہے۔ ایسے حالات صرف
میرے ساتھ نہیں ہوتے ہیں بلکہ دیگر لکھاریوں ، قلم کاروں اور کالم نویسوں
کے ساتھ بھی پیش آتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ علماء کے
خلاف کہتے ہیں وہ حق پر نہیں ہوتے، علماء پر سوالیہ نشان لگانے والے علماء
کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ علماء کی تنقید کرنے والے لوگ پیغمبروں کی میراث کی
توہین کرنے والوں میں سے ہیں اوروہ کبھی بھی فلاح نہیں پائیں گے۔ یقیناً
علمائے حق کی تعظیم کرنی چاہئے انکی رہنمائی میں ہمیں زندگیاں گذارنا فرض
ہے۔ انکی اطاعت کرنا ضروری ہےاور ہم انکی اطاعت سے فلاح پا سکتے ہیں۔ لیکن
ہمارے معاشرے میں اس وقت دو طرح کے علماء ہیں جو علمائے حق اور علمائے سو
کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ہمیں علمائے حق کی اطاعت کرنے کی ضرورت ہے جو
ہماری رہنمائی قرآن اورحدیث کی روشنی میں کرتے ہیں لیکن وہ علماء جو اپنے
مفادات کی تکمیل کیلئے داڑی، جھبہ ، پائے جامہ پہن کر اپنے مفادات کیلئے
کام کرتے ہیں ، سیاست کرتے ہیں،امت کو گمراہ کرتے ہیں ، اُمت کے مسائل کو
اپنی روٹیاں سینکنے کیلئے لکڑیوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے
صحیح کو غلط اورغلط کو صحیح کہہ دیتے ہیں کبھی رام کو پیغمبر اور کبھی سیتا
کو ماتا کہتے ہیں تو کبھی رام دیو کے گئو موتر کی اشیاء کو حلال ہونے کا
سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ ایسے علما پر سوال اٹھانا انکی تنقید کرنا اورانکی
سچائی دنیا کے سامنے لانا کسی بھی زاوئے سے غلط نہیں ہے۔ جب پیغمبر، صحابہ
،تابعین بھی حق وباطل کے سوالات کے دائرے میں رہے تو آج کل 70 فیصد دنیا
اور 30 فیصد دین کی بات جو لوگ کرتے ہیں تو وہ سوالات کے گھیرے میں کیوں
نہیں آتے۔ یقیناً صحافی، لکھاری، قلم کار، بھی فرشتے نہیں ہیں اورنہ ہی وہ
فتوے جاری کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی نظروں سے جو دیکھتے ہیں اسے لکھتے ہیں، یا
جو سنتے ہیں اسے بتاتے ہیں۔ پیغام پہنچانا لوگوں کے سامنے حق بیان کرنا جو
دیکھا ہے اسے ظاہر کرنا صحافی کی ذمہ داری ہے ۔ لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں
کی رہنمائی کرنا اور حق وباطل کے درمیان فرق معلوم کروانا اس پر عمل کروانا
اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ علماء کے خلاف لکھ کر
اکثر صحافی علماء کو عوام کے درمیان بدظن کرتے ہیں اور انکی توہین کو اپنی
شان سمجھتے ہیں لیکن جائزہ لیں کہ جب بھی صحافیوں نے علماء کےتعلق سے قلم
اٹھایاہے اس وقت یہ بات طئے ہوئی ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر
علماء کی غلطیاں رہی ہوں گی۔ حال ہی میںایک اہل علم نے بتایا کہ قوم کی
امامت کرنے والے اماموں کی بھی دو صفت ہیں ایک امام مسجدمیں نمازوں کی
امامت کرتا ہے خطبہ دینااور مسجد کے ماتحت رہ کر اصلاح معاشرہ کرنا،دوسری
صفت کے امام یا علماء وہ ہیں جو قوم کے مسائل پر روشنی ڈالیں، ملی ،سیاسی و
سماجی امور پر نظررکھیں اوراسے قاعدانہ صلاحیتوںکے ذریعہ سے حل کریں ۔ اگر
ایسا ہوتا ہے تو یقینا ًملت اسلامیہ میں ہر طرح کی کمی دورکی جاسکتی ہے
لیکن اکثر ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے علماء جو امت مسلمہ کی قیادت کا
دعویٰ کررہے ہیں وہ باطل کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کرنے لگے ہیں۔ بہت بڑے
اسکالر کا کہنا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ طاقتور کو دیکھ
کر اسکی غلامی پر آمادہ ہوجائے۔ دراصل انجام کا فرق آغاز ہی کے فرق کا
نتیجہ ہے ۔ قوت ہی حق ہے اورکسی قوم کیلئے اسکی اپنی طاقت کے سوا اسکے حق
کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ لکھاری صد فیصد صحیح ہوتے
ہیں بلکہ یہ کہنا چاہوں گا کہ جو اچھائیاں لکھاری میں ہوتی ہیں وہ تمام
اچھائیاں ایک لکھاری منجمد کرکے ایک مضمون لکھتا ہے اور اس مضمون کے ذریعہ
سے کچھ اصلاح کا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگرچہ یہ لوگوں کے سامنے اس
اصلاحی تحریرکو تنقید کا نام دیا جاتا لیکن یہی حق ہے ۔
|