ہہندوستان دو لخت ہونے سے قبل کا ایک واقعہ ہے۔ایک دکاندار رام شنکر نے محلے کے مولوی کو سودا سلف دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ آپ پہلے بھی کافی ادھار کرچکے ہیں لہذا پہلے کا قرض لوٹائیں پھر سودا ملےگا۔ مولوی صاحب نے کچھ منت سماجت کی لیکن بات نہ بنی۔ اگلے دن مولوی صاحب نے فتوی دیا رام شنکر سے خریداری نہیں کرنی، وہ وہابی ہے۔ پھر کیا رام شنکرکی دکھان ٹھپ۔ اسی طرزکا ایک واقعہ کچھ دن قبل ضلع دیر لوئر چکدرہ میں پیش آیا۔ ایک منظم منصوبے کے تحت کچھ لوگوں نے ایک افواہ پھیلائ،کہ ایک افغانی نے قومی پرچم کوآگ لگاکربےحرمتی کی ہے۔
ناصر نامی یہ افغانی شخص کوئٹہ سجی کے نام سے ایک ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ ہوٹل کیساتھ متصل کچھ گودام تھے جنکا کرایہ ناصر دیا کرتے تھے۔ان گوداموں میں برہان ٹریڈرز نامی کمپنی کے جوس پیکٹس پڑے تھے(جولوگوں کے مطابق ایکسپائرتھے)۔ناصرکئ بار انکو سامان اٹھانے کاکہہ چکے تھےلیکن وہ ٹال مٹول سے کام لےرہے تھے۔روزانہ کی خواری سے تنگ آکر ناصر خود سامان اٹھا انکے دکان پے پہنچادیا۔
برہان ٹریڈرزکےمالکان یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے اور بات ہاتھاپائ تک پہنچ گئ۔لڑائ میں دونوں اطراف سے لوگ زخمی ہوئےاورساتھ ہی یہاں سے قومی پرچم کی بے حرمتی کی ایک من گھڑت افواہ جنم لی۔
کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا کے توسط سے پیغامات پھیلائے،لوگ ایک افغانی کی اتنی جرات پر سیخ پا ہوگئے۔اور کچھ ہی لمحوں میں ایک مشتعل ہجوم امڈ آیا۔ سینکڑوں افرادناصرکے ہوٹل پر حملہ آور ہوئے اور ہوٹل کوتاحد ممکن نقصان پہنچادیا۔خوشقسمتی سے پولیس کی بروقت کارروائ کی سے ناصرکی جان محفوظ رہی۔
مختصرا معاملہ جنون کے ہاتھوں نکل کر قانوں کی آغوش میں جا پہنچا۔ بتانے کا مقصد یہ ہےکہ ہم کتنے معصوم اور بھولے بھالے ہیں، کسی کی بات پر بھی اندھا یقین کرتے ہیں، ہم مداری کے اشاروں پرناچنے والےبندروں کی مانند ہیں، جومداری کہتاہے وہئ کرنا ہے اپنی ذہنیت پر زور نہیں ڈالنا، عقل و فہم استعمال نہیں کرنا، بس جوسنا سچ مان لیا۔
ایک ذی شعور انسان یہ ماننے سے پہلے کچھ لمحوں کیلئے سوچےگا کہ افغان مہاجروں کی چند ہزار آبادی جو لاکھوں پاکستانیوں کے وسط میں آباد ہیں اتنی جرات کیسے کر سکتے ہیں اور کیونکرکرینگے۔ اس بات سےمیں واقف ہوں کہ کچھ افغانی دوست پاکستان کیلئے نہایت نا شائستہ اور سخت موقف رکھتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثریت افغانستان میں رہنے والوں کی ہے۔
اس طرز کے معاملات ہمارے معاشرے میں کوئ نئ روایت نہیں ہے۔جس بازار میں یہ وقوعہ پیش آیا اسکے دوسرے کونے میں واقع ایک مشہور کباب فروش ہیں، ایک صحافی کھانا کھانے کے بعد صحافت کا رعب جماتے ہوئے پیسے دینے سے منکر ہوگئے، کچھ تگ ودو کے بعد جب معاملہ حل ہوا، اگلے دن اخبار میں خبرلگی کہ فلاں کباب والے گدھے کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ میں ایک مردہ گدھے کی تصویرلگائ۔ لوگ ہجوم درہجوم جمع ہوئے اور بچارے کباب فروش کی صحیح درگت کی۔
کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا وہ گدھا بیماری کیوجہ سے نہایت سخت کرب میں تھا۔ کسی اللہ والے نے تکلیف سے بچانے کیلئے گلے پر چھری پھیر دی تھی جسے کچھ اور رنگ دےکر پیش کیا گیا تھا۔
یہ تو صرف ایک چھوٹے سے بازار کی حالت ہے، اگر ہم ملکی سطح پر اسطرح کے واقعات کی تحقیق کریں تو ہر معاملہ ہمیں ایک ہی نقطےپرلاکھڑاکردیتاہے۔اندھا یقین! ہماری معمولی سی تحقیق کسی کی جان بچا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کہ اس جدید دور میں لوگ اپنے مخالفین کو زچ کرنے کیلئے طرح طرح کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور ہم آنکھیں بند کرکے، بغیر کسی چوں وچراں اسے پلے باندھ کر آگے پھیلا دیتے ہیں۔ کچھ لمحوں میں حقائق ہمارے سامنے ہوتے ہیں، لیکن اتنی دیر یہ بات دنیا کے کونوں میں پہنچ جاتی ہے، اورسچائ پہنچنے سے پہلے ایک خطیر نقصان پہنچاچکی ہوتی ہے۔براہ کرم ان جھوٹے ملاوں اور سستے وطن پرستوں کے شکنجے میں مت آئیں۔ کسی بھی خبر پر یقین کرنے سے پہلے اپنے طورپر حقیقت جاننے کی تھوڑی سی کوشش ضرور کریں، کیونکہ کل کوئ خبر آپکے نام بھی نکل سکتی ہے۔
|