پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل — یہ عزت نہیں، ظلم ہے ‎

‎پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل — یہ عزت نہیں، ظلم ہے:

‎جب بھی کوئی لڑکی اپنے فیصلے خود کرنے کی جرات کرتی ہے — چاہے وہ پسند کی شادی ہو، تعلیم جاری رکھنا ہو، یا زبردستی کی شادی سے انکار — تو ہمارے معاشرے کے کچھ مرد فوراً "غیرت" کے نام پر اسے سزا دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

‎اور یہی کچھ حال ہی میں بلوچستان میں ہوا، جب ایک نوجوان جوڑے کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کر کے اپنے خاندانوں کی "عزت" کو چیلنج کر بیٹھے تھے۔

‎اس واقعے کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، تو ہر طرف غصہ، دکھ، اور شرمندگی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ غصہ ایک یا دو دن کے لیے ہے،
‎یا ہم واقعی کچھ بدلنے کے لیے تیار ہیں-

‎غیرت یا مردانہ انا؟

‎یہ جو "غیرت" کا تصور ہے، درحقیقت یہ مردوں کی انا کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت اُن کی ملکیت ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرے، تو گویا یہ مرد کی توہین ہے — اور وہ اس "توہین" کا بدلہ جان لے کر لیتے ہیں۔

‎ایسے مرد خود کو خاندان کا محافظ نہیں، بلکہ جج، جلاد، اور خدا سمجھنے لگتے ہیں۔

‎قانون ہے، مگر عملدرآمد کہاں؟

‎پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون تو موجود ہے، لیکن عملدرآمد اکثر کمزور، سست، اور متعصب ہوتا ہے۔ خاص طور پر دیہی اور قبائلی علاقوں میں جرگے آج بھی فیصلے سناتے ہیں، اور ریاست خاموش رہتی ہے۔

‎جس جگہ انصاف کا اختیار بندوق والے قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں ہو، وہاں قانون صرف کتابوں میں رہ جاتا ہے۔

‎خاموشی قاتل کو طاقت دیتی ہے:

‎ان قتلوں کے پیچھے صرف بندوق یا خنجر نہیں ہوتا — بلکہ خاندان، معاشرے، پولیس، اور عدالت کی خاموشی بھی ایک ہتھیار بن جاتی ہے۔

‎ماں باپ بیٹی کے فیصلے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
‎محلے والے تماشا دیکھتے ہیں۔
‎پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے کتراتی ہے۔
‎اور عدالتیں اکثر "ثبوت کی کمی" پر قاتلوں کو چھوڑ دیتی ہیں۔

‎یہ سب خاموشی اصل قاتل کو طاقت دیتی ہے — وہ ذہنیت جو عورت کی آزادی کو اپنی شکست سمجھتی ہے۔

‎ہم کب بدلیں گے؟

‎اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ کوئی اور بیٹی، بہن، یا دوست غیرت کے نام پر قتل نہ ہو، تو ہمیں بطور معاشرہ چند سخت مگر ضروری فیصلے کرنے ہوں گے:

‎1. مردوں کی تربیت — انہیں سکھایا جائے کہ عورت عزت ہے، بوجھ نہیں۔

‎2. جرگہ کلچر کا خاتمہ — جو قانون سے بالا تر ہو، وہ غیرقانونی ہے۔

‎3. تحفظ مراکز (shelters) اور قانونی مدد — جو لڑکیاں خطرے میں ہوں، ان کے لیے محفوظ راستے ہوں۔

‎4. تعلیم میں صنفی مساوات کا فروغ — اسکولوں سے ہی سکھانا ہوگا کہ عورت کی مرضی ایک حق ہے، جرم نہیں۔

‎5. مردوں کا مردوں سے سوال — اگر واقعی غیرت ہے، تو ظالم مردوں کے سامنے کھڑے ہو جاؤ، نہ کہ ان کے ساتھ۔

‎نتیجہ:

‎غیرت کے نام پر قتل ہماری ثقافت، مذہب یا روایات کا حصہ نہیں — یہ ظلم ہے، جاہلیت ہے، اور مردانہ انا کی انتہا ہے۔

‎ہمیں ایک بات سمجھنی ہوگی:

‎ جو معاشرہ عورت کو چپ کرا کے اپنی عزت بچاتا ہے، وہ دراصل اپنی بےغیرتی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔

‎وقت آ گیا ہے کہ ہم خاموشی توڑیں، قاتلوں کو نہیں، اس ذہنیت کو دفن کریں جو محبت کو جرم، اور عورت کی مرضی کو موت کی سزا دیتی ہے۔

‎ اگر آپ واقعی غیرت مند ہیں، تو ظلم کے خلاف بولیے — خاموشی قاتل کی زبان ہے۔

 

Muhammad Siddiqui
About the Author: Muhammad Siddiqui Read More Articles by Muhammad Siddiqui: 28 Articles with 15168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.