گھر کا بڑا بیٹا: وارث یا قابض؟

گھر کا بڑا بیٹا: وارث یا قابض ؟

‎پاکستانی معاشرے میں "گھر کا بڑا بیٹا" ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے جسے قدرتی طور پر ذمہ داری، قیادت، اور خاندان کی رہنمائی کا کردار سونپا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے گھروں میں یہ کردار ایک ظلم، خود غرضی، اور جائیداد پر ناجائز قبضے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

‎ذمہ داری یا موقع پرستی؟

‎کہا جاتا ہے کہ بڑا بیٹا باپ کا بازو ہوتا ہے، لیکن جب یہی بازو باپ کے کندھے پر بوجھ بن جائے تو وہ نعمت سے زحمت بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی بڑے بیٹے باپ کی بڑھاپے کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں — ان کے نام پر جائیداد لکھوا لیتے ہیں، زمینوں پر قبضہ کر لیتے ہیں، اور چھوٹے بہن بھائیوں کو ان کا جائز حق دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

‎لالچ کی آنکھیں:

‎اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے بیٹے کو باپ کی کمائی پر نظر ہوتی ہے۔ خود کچھ نہیں کرتا، لیکن باقی سب کے کمائے پیسے پر اس کی نگاہ ہوتی ہے۔ وہ گھر کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے، اور بہن بھائیوں کو "مہمان" یا بوجھ۔ ماں باپ کی خدمت کے نام پر گھر میں رہتا ہے، لیکن حقیقت میں صرف جائیداد کے چکر میں۔

‎چھوٹے بہن بھائیوں کے حقوق کی پامالی:

‎یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بات وراثت کی آتی ہے، تو سب سے زیادہ ناانصافی چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ بڑا بھائی "حق" کے نام پر ان کے حصے دبا لیتا ہے۔ بہنوں کو تو اکثر کچھ بھی نہیں دیا جاتا، اور اگر کوئی حصہ مانگے تو طعنے ملتے ہیں، تعلق ختم کیے جاتے ہیں، یا دباؤ ڈال کر انکار کروایا جاتا ہے۔

‎خاندانی نظام کا زوال:

‎اس رویے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاندانوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ رشتے ناپید ہو جاتے ہیں، بھائی بھائی کے دشمن بن جاتے ہیں، اور باپ اپنی آخری عمر میں دعاؤں کی بجائے بددعاؤں کا سامنا کرتا ہے۔ جو نظام کبھی محبت، احترام، اور اشتراک پر قائم تھا، وہ اب لالچ، خودغرضی، اور ناانصافی کا نمونہ بن چکا ہے۔

‎نتیجہ:

‎گھر کا بڑا بیٹا اگر اپنی اصل حیثیت سمجھے — یعنی رہبر، محافظ، اور خدمت گزار — تو گھر جنت بن سکتا ہے۔ لیکن جب وہ صرف جائیداد کا وارث بننے کی ہوس میں اندھا ہو جائے، تو نہ صرف وہ خود تباہ ہوتا ہے، بلکہ پورا خاندان اس کی خودغرضی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

‎وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسے رویوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہر بہن بھائی کو برابر کا حق دیا جائے، اور خاندان کو ایک تجارتی کمپنی کے بجائے ایک محبت بھرا ادارہ سمجھا جائے۔

 

Muhammad Siddiqui
About the Author: Muhammad Siddiqui Read More Articles by Muhammad Siddiqui: 28 Articles with 15170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.