جھوٹے “حکمران کہ عوام“

بچپن سے ہمیں ہماری والدہ محترمہ جو کہ ان پڑھ تھیں اور ایک واقعہ بیان کیا کرتی تھیں کہ ایک دن ایک آدمی ہمارے پیارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی ایک ایسا عمل بتائیں کہ جس پر میں عمل کروں اور مجھے جنت مل جائے اور عمل صرف ایک ہو زیادہ نہیں جس پر جواب ملا کہ "جھوٹ بولنا چھوڑ دو"۔ اس نے کہا ٹھیک ہے آج کے بعد میں جھوٹ نہیں بولونگا۔ وہ چلا گیا اور جیسا کہ دور جہالت میں عربوں میں بہت سی برائیوں کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اسی طرح وہ بھی جب چوری کرنے گیا تو اسے خیال گزرا کہ اگر مجھ سےکسی نے پوچھ لیا تو کیا کہوں گا کہ چوری کی تھی اس پہ تو میرا ہاتھ کٹ جائے گا یہ سوچ کہ وہ واپس ہو گیا اور چوری کا کام چھوڑ دیا۔ اسی طرح وہ جب بھی کوئی گناہ کرنے کا ارادہ کرتا تو یہی سوچ کہ رک جاتا کہ میں یہ کیسے بتاوں گا اور وہ تمام گناہوں سے آزاد ہو گیا پھر جب نماز کے لیے اذان ہوئی تو وہ اسی سوچ پہ عمل کرتے نماز پڑھنے گیا کہ اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ جب بلایا جا رہا تھا تو نماز کے لیے گئے اور مجھے شرمندگی ہوگی تو اس نے نماز پڑھنی بھی شروع کر دی غرض اس نے صرف ایک جھوٹ نہ بولنے کی وجہ سےتمام برائیاں چھوڑ دیں اور نیک کام کرنے لگا۔اس لیے جھوٹ کبھی نہیں بولنا چاہیے۔


یہ تو ان جہالت میں ڈوبے لوگوں کا حال تھا کہ جو بولتے تھے پھر اس پہ ڈٹ جاتے تھے- مگر امتداد زمانہ ہم اتنے پڑھ لکھ گئے ہیں کہ اب ہم جو بولتے ہیں اس پہ اگر یو ٹرن نہ لیں تو اچھے لیڈر ہی نہیں بن سکتے۔ یہ تو ہمارے حکمرانوں کا حال ہے کہ جو وعدہ کیا اسے وفا نہ کر سکے ہو سکتا ہے ان کی بھی کوئی مجبوری ہو گی کوئی ایسی مجبوری جو نہ بتائی جاسکے مگر مجھے حیرت تو ان لوگوں پہ ہے جو سوشل میڈیا پہ ان حکمرانوں پہ اعتراض کرتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ جو ہمارے حکمران ہیں وہ بھی ہم میں سے ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ہم اپنے اندر دیکھیں تو ہم میں اور ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں ۔ ہم بھی تو صرف دوسروں کے لیے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور خود کو بھول جاتے ہیں جیسے کہ ہمیں اس بات پہ عمل کرنے کی کیا ضرورت کیوں کہ ہم نے ہی تو یہ بات کہی ہے تو دوسرے کریں نہ عمل ہم کیوں کریں۔ہم تو ان کے عمل دیکھ کے فیصلہ کریں گے کہ ٹھیک کیا کہ نہیں۔ معاذاللہ خود کو خدا بنا بیٹھے ہیں۔
آج میڈیا چاہے وہ الیکٹرانک ہو یا پریکٹیکل ہر جگہ آپ کو نصیحتوں کے انبار ملیں گے مگر ان پر عمل کرنے والا ایک بھی نہیں ملےگا۔حکمرانوں نے کہا گھر دیں گے مگر گھر چھیننے پہ لگ گئے، حکمرانوں نے کہا آٹا اور چینی سستی ملے گی مگر وہ مہنگی ہوگئی، حکمرانوں نے کہا ہمارا معاہدہ ہو گیا انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے اب بجلی سستی ملے گی مگر اب کہتے مہنگی ہوگی تو پچھلے حکمران ذمہ دار ہیں۔غرض جھوٹ پھر جھوٹ اور پھر جھوٹ اب تو یہی سچ لگتا ہے کہ شاید یہ ٹھیک کہ رہے ہیں کیونکہ جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے تھوڑا بہت تو سچ ملے جو کہ ناپید ہے۔ جو نہ حکمرانوں میں ملتا ہے نہ ہی عوام میں۔


یہ تو تھا حکمرانوں کا مگر کیا عوام سچ پہ عمل کرنے والی ہے تو اس طرف بھی ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا جو حکمرانوں کے ساتھ ہیں وہ انکا ہر جھوٹ ایسے ڈیفینڈ کرتے ہیں جیسےیہ ان کی ڈیوٹی ہو اور جو ان کے مخالف ہیں وہ ان پہ ایسے تنقید کرتے ہیں جیسے خود وہ دودھ کے دھلے تھے اوران پر کیچڑ کے قطرے پڑ گئے۔ اور جہاں بات آجائے اپنے کردار پہ تو دونوں ایک جیسےکہ جہاں بھی موقع ملا وہاں دنیاوی فائدہ اٹھانا کار ثواب کا کام ہے اور اگر یہی فائدہ کو ئی دوسرا اٹھائے تو کرپشن مافیا۔ غلط تو دونوں ہیں مگر ماننے کو کوئی تیار نہیں۔غرض حکمران کہتے عوام کرپشن میں مبتلا ہے اس لیے ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتے اور عوام کہتے ہیں حکمران خود کھاتے ہیں اور ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے۔اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی سچ کا ساتھ دے اور جھوٹ کو بے نقاب کرے تو دوسرا خود بہ خود ہی ختم ہو جائیگا۔ مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ جھوٹے حکمران کہ عوام یہ فیصلہ آپ کا۔

 

Muhammad Kamran Khakhi
About the Author: Muhammad Kamran Khakhi Read More Articles by Muhammad Kamran Khakhi: 2 Articles with 2581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.