وہ ہچکیوں کے ساتھ زارو قطار رورہا تھا اور بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ میں آج بہت پچھتا رہا ہوں۔میری ایک جذباتی غلطی نے میرا سب کچھ بر باد کر دیا ہے۔کاش میں نے غصہ کے اُس ایک لمحے میں اپنے آپ پر قابو پا لیا ہوتا تو آج نہ تو میں اِس انجام سے دو چار ہوتا اور نہ ہی میرا گھر تباہ و برباد ہوتا۔وہ کون تھا؟ وہ سنٹرل جیل میں قید Saza-e-Moutکا ایک qaide تھا۔ میں سوشل ورک کے سٹو ڈنٹ کی حیثیت سے سنٹر ل جیل فیصل آباد کے کسی قیدی کی کیس ہسٹری لینے کیلئے گیا تھا۔
اُس نے مجھے اپنا نام شوکت علی بتایا تھا۔ اُس کی عمر 33برس تھی۔ اُس کا تعلق فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں سے تھا۔ شوکت علی نے اپنی گفتگو کے اختتام پر مجھے دوسرے لو گوں خصو صاً نوجوانوں کیلئے ایک پیغام دیا تھااور مجھ سے یہ وعدہ لیاتھا کہ میں یہ پیغام ہر ممکن طریقے سے زیادہ زیادہ لو گو ں تک پہنچاؤں گا۔ شوکت علی نے مجھے کیا پیغام دیا تھا میں یہ بھی بتاؤ ں گا مگر پہلے آپ شوکت علی کی آپ بیتی خو داُسی کی زبانی سنیئے:۔
میرا نام شوکت علی ہے۔ میرے والد ایک کا شتکار تھے۔ میری ایک چھو ٹی بہن تھی۔ہمارا خاندان چھو ٹا تھا اِس لیئے ہماری گزر بسر بہت اچھی ہو رہی تھی۔ میرے والد کو ہمیں تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں نے مجھے شہر کے کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ اُنکی خواہش تھی کہ میں خوب پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنو ں۔ میرے والد لڑکیو ں کی تعلیم کے بھی بڑے حا می تھے۔ خاندان بھر کی مخالفت کے با وجو د انہوں نے میری بہن کو بھی گاؤں کے سکول میں داخل کر وادیا تھا۔ یہ تب کا واقعہ ہے جب میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا اور میری بہن نو یں جماعت کی طالبہ تھی۔
ایک دن میں کالج نہیں جا سکاتھا۔میں گھر پر ہی تھا کہ اچانک میری چھو ٹی بہن روتی ہوئی گھرمیں داخل ہوئی۔ امی کے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ سکول سے واپس آتے ہوئے گاؤں کے ایک نو جوان نے اُسے گھور کر دیکھا اور اُس پر نا زیبا جملہ کسا ہے۔ یہ سنتے ہی میرا خون کھول اُٹھا، میں غصے سے پاگل ہو گیا۔ میں نے باورچی خانے سے سبزی کا ٹنے والی چھری اُٹھائی، امی اور بہن کے روکنے کے با وجود اُس نوجوان کی تلاش میں گھر سے نکل گیا۔ گاؤں کے پہلے ہی چوک میں مجھے وہ نوجوان مل گیا۔ میں نے اُس سے کوئی با ت کیئے بغیر اُس پر Hamla کر دیا اور وہ شدید Zakhmi ہوگیا ۔ اُسے ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ اُسی رات چل بسا۔وہ نو جوان گاؤں کے ایک بڑے زمیندار کا بیٹا تھا۔ مجھ پر مقدمہ درج ہوگیا اور مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ گر فتار ہوتے ہی میں نے جرم کا اقرار کر لیا۔
مگر اِس کے باوجود تھانے میں مجھے Tashadud کا نشانہ بنا یا گیا۔ پھر عدالت میں کیس چل پڑا، میرے والد نے بھی ایک وکیل کی خدمات حا صل کیں، کئی سال تک یہ کیس سیشن کو رٹ میں چلتا رہا،تاریخو ں پہ تاریخیں پڑتی رہیں۔ہر طرح کے سردو گرم مو سموں میں والد صا حب ہر تاریخ پر عدالت آتے تھے میری اُن سے ملاقات کچہریوں کے بخشی خانے میں ہوتی تھی۔ جو کچھ وہ میرے کھانے پینے کیلئے لاتے تھے۔ اُس کا بڑا حصہ جیل سٹاف کی نظر ہو جا تا تھا۔ مجھ تک بہت کم اشیاء پہنچتی تھیں۔ میرے کیس کی وجہ سے والد صاحب کا شتکاری پر پوری توجہ نہ دے پاتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری زمین بنجر اور بے آباد ہوتی گئی۔ گاؤں میں دشمن داری کی وجہ سے میری چھو ٹی بہن کو بھی سکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔ اُس کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سپنا چکنا چور ہو چکا تھا۔ پھر ایک دن کورٹ نے مجھے مجر م قرار دیتے ہوئے سزا سُنا دی اور قلم توڑ دیااور اِس فیصلے نے میرے والد کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔
میرے والد نے اِس فیصلے کے خلاف ہائی کو رٹ میں اپیل تو دائر کردی مگر اِس کیلئے انہیں اپنی زمین بیچنی پڑی۔گذشتہ کئی سال سے یہ اپیل زیر سماعت ہے۔تاریخیں پڑ رہی ہیں، ہر تاریخ پر والد صاحب کو لا ہور جا نا پڑتا ہے اور ہر تاریخ پر اُن کا اچھا خا صا خر چ ہو جا تا ہے۔ اب میرے والد کی صحت بہت خراب ہو چکی ہے۔ ہائی کورٹ میں تاریخو ں پر جا نا اور کیس کے مالی اخراجات برداشت کر نا اب اُن کے بس سے باہر ہو چکاہے۔ میری ماں اور میری لا ڈلی چھو ٹی بہن جب مجھ سے ملنے جیل آتی ہیں تو جیل کے اہلکار اُنہیں اپنی ہوس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اوربعض اوقات تو وہ اُن پر کوئی فقرہ بھی کس دیتے ہیں اور میں بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھ کر تلملاتا رہ جاتا ہوں۔ میری ما ں بتاتی ہے کہ میری بہن کا رشتہ کہیں نہیں ہو رہا۔ اُس کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک Katalکی بہن ہے۔
میں آج سلا خوں کے پیچھے بے بس بیٹھا پچھتا تا رہتا ہوں اور یہ سو چتا ہوں کہ اگر اُس دن میں ایک لمحے کیلئے، صرف ایک لمحے کیلئے صبر اور برداشت کر لیتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ نہ تو میرے ہا تھوں ایساہوتا اور نہ ہی میں اور میرا گھرانہ تباہ و برباد ہوتا۔ اپنی آپ بیتی سنانے کے بعد اُس نے کہا میرا خیال ہے کہ ہر اِنسان کی زندگی میں کچھ ایسے لمحے ضرور آتے ہیں جب صرف ایک لمحے کیلئے صبر اور برداشت کا مظاہرہ کر لیا جائے تو بہت بڑی تباہی اور بر بادی سے بچا جا سکتا ہے۔ میرا سب کیلئے یہ پیغام ہے کہ آپ صرف ایک لمحے کیلئے صبرو تحمل اور برداشت کر لیا کریں۔صر ف ایک لمحے کیلئے۔
شوکت علی کی یہ بات بالکل در ست ہے۔میں نے اپنی زندگی میں ایسے بیشمار واقعا ت دیکھے ہیں جن میں لوگوں کو لمحو ں کی خطا کے نتیجے میں بر سوں کی سزا بھگتنا پڑی ہے۔ وہ بھی تو غصے کا ایک لمحہ ہی تو ہو تا ہے جب ایک شوہر اپنی بیوی کو طلا ق دے دیتا ہے اور پھر نہ صرف وہ خود بلکہ اُس کی بیوی اور بچے بھی زندگی بھر کیلئے رُل جاتے ہیں۔ ایسا ہی غصے کا ایک لمحہ وہ بھی ہو تا ہے جب آپ اپنے افسرِ بالا سے اُلجھ پڑتے ہیں اور آپ کو اپنی نو کری سے ہا تھ دھو نا پڑ جاتے ہیں۔
غصے کا ایک لمحہ بسا او قات برسوں کی دوستی کو پل بھر میں ختم کر دیتا ہے اور غصے کا ایک لمحہ ہی ہو تا ہے۔ جب کسی معمولی چیز کیلئے یا چند گز زمین کے ٹکرے کیلئے یا تھو ڑے سے پیسوں کیلئے لو گ آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ایک فریق ہسپتال پہنچ جاتاہے اور دوسرا سلا خوں کے پیچھے۔ غصے کا ایک لمحہ آپ سے کچھ بھی کر وا سکتا ہے، حتی کہ katal جیسا سنگین جرم بھی۔ اگر ہم اپنے غصے کے ایک لمحے پر قابو پا سکیں تو ہم کئی ایک مسائل و مشکلات اور جانی و مالی نقصان سے بچ سکتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ کوئی ایسا مشکل کا م بھی نہیں ہے۔ اِس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ آپ آج سے پختہ ارادہ کرلیں کہ میں نے غصے کی حالت میں کوئی بھی اہم فیصلہ نہیں کرنا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی بھی عملی قدم اُٹھانا ہے۔آپ کو کسی پر کتنا بھی غصہ ہو اور آپ اُس کے خلاف کوئی بھی قدم اُٹھانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو اپنے اِس عمل کو کم از کم چو بیس گھنٹو ں کیلئے ملتوی کر دیجئے۔ معاملہ زیا دہ اہم ہوں تو اُسے کم ازکم ایک ہفتے تک ملتو ی رکھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ چوبیس گھنٹوں بعد آپ کی سو چ کافی بدل چکی ہو گی۔ ایک ہفتے بعد کیا جانے والا فیصلہ یقینادرست فیصلہ ہو گا۔ اگر یقین نہیں تو آزما کر دیکھ لیجئے۔
|