ہم نے14اگست کو تہتّر واں یوم آزادی منایا۔13 اور14اگست کی درمیانی شب رات کے بارہ بجتے ہی آتش بازیاں کی گئیں پٹاخے پھاڑے گئے کھلونا بگل بجائے گئے خوب ہلا گلا کیا گیا۔ٹھیک ہے ہر ایک کی خوشی منانے کا اپنا اندازہے اور اس رات بھی باوجود سخت گرمی کے ہر ایک نے اپنا اندازاپنایااوروطن سے محبت کا اظہار کیا گیا لیکن ایک بات سوچنے کی ہے کہ کیا ضروری ہے کہ خوشی مناتے ہوئے تہذیب و شائستگی کی ہر حدکو پار کیا جائے لیکن اس رات ایسا کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو جتنی زیادہ ہلڑ بازی کرے اتنا زیادہ محب وطن ہے۔ جشن آزادی کی تیاریاں 14اگست سے بہت پہلے شروع ہو جاتی ہیں گلی کوچوں میں لگے پرچم اورپرچموں کے مختلف انداز کے سٹال ایک خوش کن احساس دیتے ہیں گھر، بازار اورگاڑیاں موٹر سا ئیکلیں سج جاتی ہیں۔وطن سے محبت کا ہر ہر انداز دل کو بھا رہا ہوتا ہے بچوں اور نوجوانوں کی خریداری ایک تازہ احساسات کا ذریعہ بنتا ہے لیکن14اگست کی رات اور دن کو کچھ ایسی حرکات کی جاتی ہیں جو ہر گز ہماری نیک نامی کا باعث نہیں بنتی مثلا موٹر سا ئیکلوں پر نوجوانوں کی ون ویلنگ جس سے اموات بھی ہو جاتی ہیں اور اس بار بھی ایسا ہوا۔مجھے حیرت ہے کہ والدین کیسے بچوں کو اس موقعہ پر موٹر سائیکل لے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔دوسری طرف یہ رات اور دن گزرتے ہیں اور لگائی گئی جھنڈیوں کی حفاظت چھوڑدی جاتی ہے اور یہی جھنڈیاں دھوپ کے ساتھ چٹخ کر اور ہوا کے ساتھ اڑاڑکر رُلتی پھرتی ہیں اور اس وقت انسان سوچتا ہے کہ کاش جتنے پاکستانی ہم چودہ اگست اور اس سے چند دن پہلے تھے اتنے ہی یا اس سے کچھ کم ہی ہم پاکستانی بعد میں بھی رہتے تو شایدہمارا ضمیر کچھ جاگتا ہی رہتا اور ہم اس ملک کو خالصتا اپنا ملک سمجھ ہی لیتے اور وہ سارے کام کرتے جس کی نصیحت ہم دوسروں کو کرتے رہتے ہیں۔14اگست کو گلی کوچوں اور محلوں بازاروں کو جس طرح لڑیوں سے سجایا جاتا ہے اگر اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے کہ گندگی کے ڈھیر اٹھائے جائیں بلکہ اس14اگست کو اگر حکومت اور عوام مل کر شہروں کی صفائی ستھرائی کرتے اور دنیا کے گندے ترین شہروں کی فہرست سے اپنے شہروں کا اخراج کیا جاتا تو کتنا اچھا ہوتا لیکن ہم نے کیا تو یہ کیا کہ اگلے دن سڑکیں گند کا ڈھیر بن چکیں تھیں۔ اس دن خوشی منانا بہت اچھا ہے قوم اپنے جذبہ حبّ الوطنی کو زندہ کرتی ہے دنیا دیکھتی ہے کہ ایک قوم کس طرح اپنے آزادی کے دن کو مناتی ہے کس جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن دراصل ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی بہت ضروری ہے اور ان تمام قربانیوں کو یاد کرنا بھی جو اس وقت دی گئیں تھیں۔ہم منہ زبانی ایسا کر بھی لیتے ہیں کبھی کبھی ان لٹے پٹے قافلوں کی یاد منا بھی لیتے ہیں لیکن ان قربانیوں کا ہم سے جو تقاضا ہے اس پر کبھی غور نہیں کرتے کہ ان لوگوں نے یہ قربانیاں اس لیے نہیں دی تھیں کہ اس آزاد ملک میں بھی وہ سہولیات کو ترسیں۔ مجھے جشن آزادی منانے سے اختلاف نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو یہ جوش و خروش میرے اندر ایک ایسا جذبہ ابھارتا ہے کہ جس کی حد صرف پاکستان ہوتی ہے لیکن مجھے اس ہلڑ بازی سے ضرور اختلاف ہے جو اس دن کی جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک 14اگست کو جب میں نے پولیس والوں سے درخواست کی کہ ون ویلنگ کرتے ان لڑکوں کو روکیں تو انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیاکہ آج کے دن یہ نہیں سنتے سچ یہ ہے کہ اس نسل نے وہ کچھ جو ہوا تھا دیکھا تو نہیں ہی ہے سنا بھی نہیں ہے اور پڑھنے کی تو نوبت ہی نہیں آتی۔ دراصل ضرورت عوام میں شعور بیدار کرنے کی ہے اور یہ کچھ صرف عوام نے نہیں کرنا بلکہ حکومتی اور سیاسی سطح پر بھی شدید تربیت کی ضرورت ہے۔کاش ہماری حکومتیں اور صاحبان اقتداروہ کچھ کرتے جس کا انہوں نے قوم اور عوام سے وعدہ کیا ہوتا ہے۔ اس یوم آزادی پرصدر مملکت نے اچھا کیا کہ ساری اچھی باتیں قوم کے سامنے گنوائیں کہ اس دن کو خوشگوار بنایا جائے لیکن کو تاہیوں پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے بلکہ ان کی اصلاح کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اس پروگرام پر عمل شروع کر نے کی ابتداء اسی دن سے کرنی چاہیے۔14اگست وہ تاریخ ہے جس دن دنیا کی تاریخ تبدیل ہوئی تھی تو اس دن کو منانے کے تقاضے بھی اتنے ہی بلند ہونے چاہئیں کہ وہ ملک کے حال میں ایک مثبت تبدیلی لائے۔ہاں یہ بھی یاد دلاؤں کہ دعوے اور وعدے کرنے میں ہم خود کفیل بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہیں یعنی ہم دوسروں کو بھی وعدے کرنے کی تربیت دے سکتے ہیں۔ ضرورت عمل کی ہے اور عمل کرنے کے لیے جو ارادہ اور عزم چاہیے ضرورت اس کی ہے۔اگر ہم ہر14 اگست کو اپنے لیے ایک بنیادی تبدیلی اور بہتری کا ایک ٹارگٹ رکھتے تو آج ملک میں بہّتر مثبت تبدیلیاں آچکی ہوتی اور ہم اقوام عالم میں کسی بہت اچھے مقام پر ہوتے اور ہم نہ صرف اپنی داخلی پالیسیاں خود بناتے کسی آئی ایم ایف کے محتاج نہ ہوتے بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی آزاد ہوتے اور اپنے ملک کی قسمت کے فیصلے خود کرتے کسی اور کے اشاروں کے محتاج نہ ہوتے اور اب ہمیں ایسا کرنا ہوگا۔ |