’’واقعہ کربلا‘‘ سے ملنے والے وہ اسباق ۔۔۔۔ جو آج کے دور میں ہم بھُلا بیٹھے ہیں!

image
 
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ، اس میں نواسہ رسول سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ 60ہجری میں باطل کے خلاف جنگے کے لیے میدان کربلا میں تشریف لائے اور حق کی راہ میں آپ نے شجاعت و بہادری کی وہ مثال قائم کی، جو آج کے لوگوں کیلئے یقیناً مشعل راہ ہے۔
 
سیدنا ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ دنیا میٹھی اور سرسبز ہے ، اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں تمہیں ایک دوسرے کے جانشین بناکر دیکھے گا کہ تم کیا عمل پیش کرتے ہو۔‘‘ (صحیح مسلم 2742)
 
اس حدیث مبارکہ کو اگر دیکھاجائے تو کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھی ان کے بہترین جانشین ثابت ہوئے ،انہوں نے نواسہ رسول سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ کا ساتھ میدان کربلا میں بھرپور انداز میں دیا۔ تعداد میں وہ ضرورکم تھے ، سامنے ان سے کئی گنا تعداد میں زیادہ فوج ہونے کے باوجود وہ ڈر کے مارے پیچھے نہ ہٹے اور انہوں نے اپنے عمل سے خود کو نواسہ رسول کے بہترین جانشین ثابت کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے حق کا ساتھ دیا، باطل کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور اپنے اس عمل سے آخرت سنوار لی۔
 
image
نواسہ رسول سیدنا حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا روضہ مبارک
 
بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں آنے والے ہر انسان کو اپنے عمل کا ذمہ دار قرار دیا ہے ، اس کے سامنے دونوں راستے موجود ہوتے ہیں ، لیکن یہ اس پر ہوتا ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرے۔اگر وہ حق کے راستے پر چلے گا تو یقینا اس کا یہ عمل نیکو کار میں لکھا جائے گا، اگر وہ باطل کے ساتھ رہے گا تو قیامت کے دن اسے اس کا حساب دینا پڑے گا اور اس کے عمل کے مطابق وہ سزا کا حقدار بھی قرار پائے گا۔
 
اب اگر آج ہم واقعہ کربلا سے سیکھنے کی کوشش کریں تو صدیاں گزرنے کے بعد بھی وہ ہمیں بہت سے اسباق دے رہا ہے۔ سب سے پہلا سبق تو یہ ہے کہ انسان حق کے راستے میں چلنے اور حق بات کہنے میں کبھی عار محسوس نہ کرے، چاہے اس کے بعد اسے اپنی جان کا ہی خطرہ کیوں نا ہو۔ آج ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ، وہاں لوگ حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں ۔ کسی غریب کی موٹر بائیک کو بیچ سڑک پر کوئی امیر زادہ اپنی گاڑی سے ٹکر مار دے، لوگ جمع بھی ہوجائیں تو اس امیر کی طاقت کا اندازہ لگاکر کوئی اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکالتا، اب بھی کئی کیسز ہم نے ایسے دیکھے ہیں جو غریب لوگ اس وجہ سے ہار جاتے ہیں کہ وہ امیر کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، وکلا کو بھی انداز ہ ہوتا ہے کہ کون ٹھیک ہے ، کون غلط ہے ، لیکن وہ بھی صرف پیسہ کمانے کیلئے زبان بند رکھتے ہیں ، تاکہ ان کی دنیا سنور جائے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کربلا میں یزیدی فوج بظاہر مضبوط تھی، اس کے باجود حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اور ان کے جانثار ساتھی کسی کے بھی رعب میں نہ آئے اور حق کی راہ میں لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرگئے۔
 
کربلا کے میدان میں نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ پر تین دن پانی بند رکھا گیا لیکن وہ پھر بھی صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہی تلقین کرتے رہے کہ صبر کا دامن کسی صورت ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ جبکہ آج اگر کسی کو کوئی بیماری ہوجائے ، کسی کے کاروبار میں کوئی نقصان ہوجائے یا کسی پر کوئی بھی طرح کی مشکل آجائے تو وہ ناشکری کے الفاظ کہہ کر ﷲ تعالیٰ کی ذات سے شکوہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ’’کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا، دنیا میں اور بھی لوگ ہیں ، ان کے ساتھ بھی تو بُرا ہوسکتا تھا، تو صرف میرے ساتھ ہی کیوں بُرا کیاگیا، کیا صرف میں ہی ملا تھا ‘‘(نعوذباﷲ) ۔
 
دوسری طرف ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو اپنے پاس موجودمال و دولت کو دیکھ کرمطمئن نہیں ہوتے اور دوسرے کے مال کو دیکھ کرحسد کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ حرام کی کمائی کمانے میں لگ جاتے ہیں ،سود کھانے کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’اس کے بغیر گھر کا گزارا نہیں ہوسکتا، مہنگائی ہے ، بچوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ کھانے پینے میں تنخواہ پوری لگ جاتی ہے ، اس لئے باقی اخراجات کیلئے رشوت لے کر گھر چلاتے ہیں۔‘‘ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انسان کو آزمائش اور امتحانات میں ڈال کر اپنے بندے کا عزم و حوصلہ دیکھتا ہے کہ وہ آیا ان آزمائشوں کے آنے کے بعد بھی حق کے راستے پر صبر کے ساتھ چل سکتا ہے یانہیں ۔ تاہم کئی ایسے لوگ ہیں ، جو آزمائش اور امتحان سامنے آنے کے بعد باطل راستہ اختیار کرکے اپنی دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد کردیتے ہیں ۔ واقعہ کربلا ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ دنیا میں انسان کو حق کی راہ میں چلنے پر آزمائش میں مبتلا کیا جاسکتاہے ، تاہم اگر وہ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرے تو دنیا میں اس کا نام باقی رہ جاتا ہے اور باطل کا نام مٹ جاتا ہے۔
 
image
 
لہٰذا روزمرہ زندگی گزارتے ہوئے بھی اچھے اور بُرے میں فرق کریں ، اچھائی کی راہ کو اختیار کریں ، حق کا ہمیشہ ساتھ دیں ۔ جھوٹ اور باطل کے خلاف ضرور بولیں ، بولنے سے ہرگزنہ ڈریں ۔زندگی میں جو چیزیں حاصل ہیں ، ان پر شکرگزاری سے کام لیں ، یہ یاد رکھیں کہ ناشکری کرکے، بُرے حالات کا رونا روتے ہوئے غلط راستے پرجاکر غلط طریقے سے پیسے کماکرآپ دنیاوی سکون، عیش و عشرت تو حاصل کرلیں گے لیکن آخرت میں آپ کو اس کاحساب ضرور دینا پڑے گا۔
YOU MAY ALSO LIKE: