جرات و شجاعت اور استقامت کے کوہ گراں شہدائے کربلا کی عظمت سلام

محرم الحرام کا بابرکت و با سعادت عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے اور پورا عالم اسلام تاجدارِ انبیاء محبوب کبریا حضرت محمد مصطفیﷺ کے محبوب اور لاڈلے نواسے حضرت حسینؓ ابن علیؓ اور اُن کے پورے خانوادے کی طرف سے اعلی و ارفع اصولوں کی بالادستی کیلئے دی گئی لازوال، تاریخ ساز اور عظیم ترین ’’قربانی ‘‘ کی یادمنا رہا ہے۔حضرت سیدنا حسینؓ جرات و شجاعت کے علمبردار، فقرو درویشی کا پیکر، حق و صداقت کے مبلغ ، طہارت و نفاست کا مجسمہ ، علم و عرفان کا سمندر، جانثاری و پامردی کے کوہ گراں تھے۔ آپؓ اور آپکے آصحابؓ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار، بے مثل قربانیوں، لازوال جذبوں اور جرات و بہادری کے روشن کارناموں سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے، آپکی حیات مقدسہ قیامت تک آنیوالے مسلمانوں کیلئے مرکز ’’ رشدو ہدایت‘‘ ہے۔ صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ عظام، اُمہات المومنینؓ ہی وہ عظیم المرتبت ، مقدس ہستیا ں ہیں جنکی عظیم الشان قربانیوں کی بدولت ہی ’’اسلام‘‘ دنیا کے کونے کونے میں پہنچا ہے اگر یہ مبارک ہستیاں ہم تک ’’ کلمہ توحید ‘‘ نہ پہنچاتیں تو آج ہم بھی اپنے گلوں میں جھوٹے خداؤں کی غلامی کا طوق پہن کر مندروں اور گرجا گھروں میں بھٹک رہے ہوتے۔

نواسہ رسول ؐ جگر گوشہ بتول ؓ حضرت سیدنا حسینؓ نے ہادی عالمؐ کی سر پرستی اور آغوش مین پرورش پائی، اور اِسی تربیت نے آپؓ کو علم و فضل، تقویٰ، سخاوت و حلم ، فضائل و کمالات کا مرکز و منبع بنا دیا تھا۔ خود امام الانبیاء ؐ نے آپکا نام حسینؓ رکھا اور آپکے کان میں آذان دی اور خود ہی شہد چٹایا اور اپنا لعب دہن مبارک منہ میں ڈالا۔ حضور ؐ کو آپ سے بہت زیادہ محبت تھی آپؐ حضرت حسینؓ کو گود میں اُٹھاتے ، سینہ پر کھلاتے، ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے،

سیدنا حسنؓ کا چہرہ مبارک اپنے والد حضر ت علی ؓ کیطرح جبکہ دھڑ آپﷺ سے مشابہ تھا۔ اسی طرح حضرت حسینؓ کا چہر ہ مبار ک آپﷺ کے مشابہ تھاجبکہ دھڑ اپنے والدِ ماجد کے۔ آپﷺ بہت پیار کیا کرتے تھے۔ اِسی لیے تو آپ ؐ نے دونوں کو جنت کے پھول کہا اور جنت کے جوانوں کے سردار ہونے کی بشارت دی۔ آخر جنت کی عورتوں کی سردار ماں کی اولاد جو تھے، کیوں نہ جنت کے سردارکہلواتے۔مورخین نے لکھا ہے کہ آپﷺ اکثر سیدنا حسین ؓ کی زبان مبارک کو ایسے چوستے تھے جیسے کھنجور کی گھٹلی کو ۔آپﷺ اکثر دونوں بھائیوں کو اپنے کندھوں پر سوار کیا کرتے تھے۔

آپﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ’’ جس نے ان دونوں سے محبت کی اُس نے جھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ’’ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘ (ترمذی)

سیدنا حسینؓ اور آپ کے اہل و عیال نے کربلا کے میدان میں قربانی کی ایک عظیم روایت قائم کی ۔خلیفہ چہارم امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے چھ بیٹے کربلا کے میدان میں شہید ہوئے، جنکا تذکرہ محرم الحرام کے ایام میں ریڈیو، ٹیلی ویژن ، اخبارات، جرائد، رسائل اور تقریر و تحریر میں کرنا اہل اسلام میں اتحاد بھائی چارہ قائم کرنے کیلئے ضروری ہے۔شہید اول سیدنا حسینؓ بن علیؓ، سیدنا ابو بکر ؓ بن علیؓ، سیدنا عبید اﷲؓ بن علیؓ، سیدنا عمر ؓ بن علی ؓ، سیدنا جعفرؓ بن علی ؓ اور سیدنا عثمانؓ بن علی ؓ جو عظیم شخصیات اسلام کیلئے شہادت پاچکی ہیں۔ اِن حضرات شہدائے کرام کے نقش قدم پر چلنا سعادت دارین ہے، شہادت سے ابدی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، شہادت کی دعا خود حضور ﷺ نے فرمائی تھی۔حضورنبی مکرمﷺ کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے منکرین ختم نبوت اور منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد کیا۔ یہودونصارا نے سیدنا عمر فاروقؓ کے خلاف سازش کی اور ان کو شہید کیا۔ حضرت عمر فاروق کا رشتہ حضورﷺ کیساتھ تھاکیونکہ اُن کی بیٹی اُم المومنین سیدہ حفصہؓ زوجہ رسول تھیں۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے نکا ح میں حضور ﷺ نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیا ں سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُم کلثومؓ دی تھیں سیدہ رقیہؓ سے حضرت عثمانؓ کا ایک بیٹا ہوا جسکا نام عبداﷲ ؓ بن عثمانؓ تھا

یہ حضورﷺ کے سب سے بڑے نواسے تھے اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کی خلافت کے زمانہ میں جنگ یرموک میں شہید ہو ئے تھے، اور سیدنا ابو العاص قاسم امویؓ جو کہ اُم المومنین سیدہ خدیجہؓ کی سگی بہن کے بیٹے تھے اُن کیساتھ حضرت رسول مقبولﷺ کی سب سے بڑی بیٹی سیدہ زینب ؓکا نکاح ہوا جن سے تین بچے پیدا ہوئے ایک بیٹے کا نام علیؓ رکھا اور دوسرا بنا نام رکھے دنیا فانی سے انتقال کر گیا جب کہ انکی بہن کا نام سیدہ امامہؓ رکھا گیا۔ اور حضورﷺ کی یہ نواسی حضرت فاطمہ الزہرہ ؓ کے انتقال کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ کے نکاح میں آئیں، امامہ ؓ اکثر نماز ادا کرتے وقت آپﷺ کے کندھوں پر سوار ہوجاتی تھی آپﷺ اسوقت سجدے میں رہتے تھے جب تک امامہؓ اترتی نہیں تھی۔ حضرت علی ؓ بن ابو العاصؓ نے 22سال عمر مبارک پائی، انہی کے بارے میں علامہ اقبال ؒ نے اپنی کتاب ’’ بانگ درا میں ایک رباعی لکھی ہے۔ یہ وہی علی ؓ ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر آقادوجہاں سیدالمرسلین محمد الرسول اﷲؐ کے کندھے پر سوار ہو کر کعبہ میں رکھے بت توڑے تھے، حضورﷺ نے خود انکا نام علی ؓ رکھا تھا، انکو آپﷺ اپنی گود میں اُٹھایا کرتے تھے، انکی شکل بلکل آپﷺ سے ملتی تھی، تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ یہ ہر وقت آپﷺ کے ساتھ رہتا تھا یہاں تک کہ اسکا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا ، سونا جاگنا آپﷺ کیساتھا تھا ،جب یہ کسی سواری پر سوار ہوتے تھے تو بلکل آپﷺ کیطرح لگتے تھے۔(تاریخ طبری)

آپﷺ کے تین بیٹے سیدنا عبداﷲؓ، سیدنا قاسمؓ (طیب، طاہر) اور سیدنا ابراہیمؓ اور چار بیٹیاں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ ،سیدہ فاطمہؓ اور سید ہ اُم کلثومؓ تھیں۔آپﷺ کے اولاد میں عبداﷲؓ، قاسمؓ اور چار بیٹیاں ام المومنین سید خدیجہ ؓ کے بطن سے جبکہ ایک بیٹا سیدنا ابراہیم ؓ اُم المومنین سیدہ ماریہ قبطیہؓ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔

آپﷺ کے پانچ نواسے حضرت علی ؓ بن ابو العاصؓ، حضرت عبداﷲؓ بن عثمانؓ، حضرت حسنؓ بن علیؓ، حضرت حسین ؓ بن علی ؓ اور حضرت محسنؓ بن علی ؓ جبکہ چار نواسیاں سیدہ امامہؓزوجہ حضرت علیؓ، حضرت زینبؓ زوجہ عبداﷲؓ بن جعفرؓ، سید ہ اُم کلثومؓ زوجہ حضرت عمرفاروقؓ اور حضرر قیہ ؓ (بچپن میں وفات ہوئی)تھیں،یہ تھے خاندان نبوتؐ کے پھول۔۔۔۔رجال کشی میں ایک جگہ ذکر ہے کہ عبداﷲ بن سباء یہودی نے یہ دعوی کیا کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ ربّ ہیں۔ اور میں انکا رسول ہوں حضرت علیؓ نے اُن کو گرفتار کیا اور اُسے توبہ کیلئے کہا تین دن تک اُس کو قید کئے رکھا تاکہ توبہ کرے اُس نے تو بہ نہ کی حضرت علی ؓ نے اُسکو خود قتل کیا اور اُسکا جسم جلا دیا، یہود و نصاری نے بدلہ لینے کیلئے سازش تیا ر کی ۔ ابن ملجم اِسی خاندان میں سے تھا جس نے سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو شہید کیا تھا عبداﷲ بن سباء کا بد لہ لینے کیلئے۔ اِس سے پہلے جب سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں یہودیوں کو عرب سے نکالا تو اس کا بدلہ لینے کیلئے اسی عبداﷲ بن سباء کے خاندان والوں نے سیدنا عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی اور پھر اُنکو شہید کر دیا۔ آگے چل کر یہودونصاریٰ اولاد علی ؓ سے اُس پرانی دشمنی کا بدلہ لیا، ایک سازش کے تحت سیدنا حسینؓ کو بمعہ اہل ِ خانہ کو فہ بلایا اور پھر راستے میں کربلا کے مقام پر شہید کر دیا۔اسی لئے تو آج تک پوری اُمت مسلمہ قاتلان ِآل ِعلیؓ پر لعنت بھیجتی ہے۔

اُم المومنین سیدہ اُم حبیبہؓ جوکہ سیدنا ابو سفیان ؓ کی صاحبزادی اور امیر المومنین سیدنا میر معاویہؓ کی بہن تھیں، یہ سب لو گ ایکدوسرے کا بہت ادب و احترام کیا کرتے تھے۔ اِسی لیے تو سیدناحسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ایکبار بکھری ہوئی اُمت کو ایک جھنڈے تلے متحد کر دیا، دراصل یہ سب لوگ قرآنی الفاظ میں ’’ رحماء بینہم ‘‘ کی سچی تصویر تھے۔

حضرت علی ؓ کی شادی میں مہر کی رقم حضرت عثمانؓ نے ادا کی تھی۔ حضرت عثمانؓ کی ایک بیٹی جسکا نام مورخین نے سیدہ عائشہؓ بتا یا ہے انکی شادی سیدناحسنؓ بن علیؓ سے ہوئی تھی ، حضرت حسن ؓ کی وفات کے بعد یہ حضرت حسینؓ کی نکاح میں آئیں۔ ایک اور واقع جو کہ ہر طبقہ کے مورخین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے

وہ یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی سب سے بڑی بیٹی سیدہ اُم کلثومؓ کی شادی خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ سے ہو ئی اور ان سے حضرت عمر ؓ کے دو بچے ہوئے زیدؓ بن عمرؓ اور رقیہ بنت عمرؓ ، حضرت فاطمہ الزہرہؓ کا جنازہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے پڑھایا تھا ۔ اِن لوگوں میں جو محبت اور بھائی چارہ تھا اُسکی مثال شائد قیامت تک نہ مل سکے ۔آلِ عبداﷲ بن سباء نے اپنی زبان اور قلم سے ان سب پر تبراء بازی کی لیکن یہ لوگ آج تک اسلام کی تاریخ میں ستاروں کیطرح اپنی چمک دمک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ان کے اوصاف جو قرآن مجید میں موجود ہیں اُنکا اس چھوٹی سی تحریر میں احاطہ ناممکن ہے۔حضرت علی ؓ نے خلفاء ثلاثہ ؓ کے ساتھ جسطرح محبت کی ہے کوئی اور ایسی محبت کی مثال نہیں دے سکتا۔ حضرت علیؓ نے اڑھائی سال تک خلیفہ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی امامت میں نمازیں ادا کی، حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے بعد آپکی زوجہ محترمہ جنکا نام رملہ ؓ تھا اُن سے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے نکاح کیا ، اسی طرح سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنی ؓ کی امامت میں بارہ بارہ سال تک نمازیں ادا کیں۔اور خلفاء ثلاثہ ؓ کے دور میں آپؓ قاضی بھی رہے اور سیا سی مشیر بھی۔جب آپؓ سے اپنی خلافت کے زمانہ میں کسی نے سوال کیا کہ خلفاء ثلاثہ ؓ کے دور میں حالات پر امن رہے پر آپؓ کے دور میں حالات بہت خراب ہوگئے ہیں تو آپؓ نے فرمایا اُنکا مشیر میں تھا۔پر میرا اُن جیسا کوئی مشیر موجود نہیں۔حضرت عمر فاروقؓ کو ابو لو لو مجوسی نے شہید کیا ، سیدنا عثمان غنیؓ کو جن منافقین نے شہید کیا اُن میں تبار بن عیاض، سوار بن سمران، عمیر بن صابی، اور حضرت علیؓ کو شہید کرنیوالے عبدالرحمن بن ملجم یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جگر گوشہ بتول سیدنا حسینؓ بن علیؓ کو جن کوفیوں نے خط لکھ کر بلایا اور پھر اُن کو شہید کر دیا اُن میں سب سے بڑا جراح بن سنان تھا جو کہ عبداﷲ بن سباء کے خاندان سے تھا۔ یہ سب ایک ہی غلیظ خون کی پیداوار تھے جنہوں نے سیدنا عمر فاروق ؓ کی شہادت سے لیکر کے چمنستان نبوتؐکے پھولوں کی خوشبو ختم کرنے کی کوشش کی۔ مگر اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو ئے اور دین اسلام کی بقاء آج بھی اور قیامت تک اس کی سر بلندی موجود رہے گی دنیا کی کوئی طاقت دینِ مصطفیٰؐ کو مٹا نہیں سکتی ۔ شہدائے اسلام کے مرتبوں کو کوئی پامال نہیں کر سکتا۔آصحابِ رسولؓ اور آلِ رسولؓ کے درمیان رشتوں اور محبت کی مثال کو ئی اور پیش نہیں کر سکتا۔میں اپنی اس تحریر کے توسط سے ایک گزارش کرنا چاہوں گا حکومت پاکستان سے کم از کم ان(حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حسینؓ بن علیؓ، ابوبکر بن علیؓ، عمر ؓ بن علیؓ، جعفر ؓ بن علیؓ عبیداﷲ ؓ بن علی ؓ ، عثمانؓ بن علیؓ)عظیم لوگوں کی شہادتوں کو ٹیلویژن،ریڈیو اور ہر ذریعہ ابلاغ کے ذریعے ہر مسلمان تک پہنچایا جائے ۔ ان کا یہ بھائی چارہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی مثال ہے۔ ہم اپنے بڑوں کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں اس لیے تو آج ہم دست و گریباں ہیں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
اگر اربابِ اقتدار واقعتا بھائی چارہ کی فضا ء قائم کرنے کے خواہشمند ہیں تو میرے خیال میں اس سے بڑا ذریعہ اور کوئی نہیں۔ایکبار حضرت فاطمہؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا امی جان میدان حشر میں آپکا مقام زیادہ ہوگا یا میرا ، جب اصرار کیا تو سیدہ عائشہ ؓبہت بڑی معلمہ تھیں تو آپؓ نے فرمایا دیکھ بیٹی روز قیامت ہر بیوی اپنے شوہر کیساتھ ہو گی۔ اسطرح آپ ؓ اپنے شوہر سیدنا علی ؓ کیساتھ ہونگی اور میں اپنے شوہر امام الانبیاءﷺ کیساتھ آپ ؓ خود بتائیں مقام کس کا زیادہ ہے تو آپؓ رونے لگ گئیں تو اس پر حضرت عائشہ ؓ نے آپکو پیار کیا اور فرمایا بیٹی میں نے تو ایسے ہی مذاق میں کہہ دیا آپؓ تو رونے ہی لگ گئیں تو اس پر آپ ہنس پڑیں ۔حضرت جعفر صادقؒ کے نانا کا نام قاسم ؓ بن ابو بکر صدیق ؓ اور والدہ کا نام رملہؒ تھا ۔ یہ قاسمؒ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے علم کے حامل تھے، حضرت جعفر صادقؒ کی وفات 108ہجری میں ہوئی۔ آپؒ نے کچھ علم حضرت عباسؓ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت علی ؓ کے گھرانے میں جو علم تھا دراصل وہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ ہی کا فیض تھا۔ حضرت جعفر ؒ کی والدہ کا نام اُم فروہ ؒتھایہ قاسم ؒ بن محمدؒ کی صاحبزادی تھی۔اسطر ح حضرت جعفر صادقؒ کا حضرت ابوبکرصدیقؓ سے بہر مضبوط رشتہ تھا۔

قرآن کریم نے آزواج مطہراتؓ، اولادِ رسولؓ اور آصحابِ رسول ؓاور اُنکے رشتہ داروں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم سب مسلمانوں کو چائیے کہ اپنے بچوں کے نام اُن بزرگ ہستیوں کے نام پر رکھیں۔ اِن عظیم لوگوں کی شہادت کے دنوں میں اپنے گھروں میں باقاعدہ پروگرام منعقد کر کے اپنی نسل کو بتائیں تاکہ وہ اپنے بڑوں کی تاریخ کو یاد رکھیں اور ہر کام میں اُنکو اپنا آئیڈیل سمجھیں اِسی میں ہماری کامیابی ہے۔ اپنی اس تحریر کے توسط سے میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ خاص کر خلفاء راشدین ؓ کے یوم وفات کو سرکاری طور پر منایا جائے۔ریڈیو اور ٹی وی پر مختلف پروگرام نشر کیے جائیں۔تاکہ ہماری آنیوالی نسل کو اپنی تاریخ کا علم رہے۔ اﷲ رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ یا اﷲ ہم سب کو ان عظیم لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے والا بنا دے۔ ہمارے ملک کو فرقہ واریت جیسے ناسور سے نجات دِلا، اور اس ملک کو امن و سکون کا گہوراہ بنا دے۔
ختم
 

Malik Pervaiz Iqbal
About the Author: Malik Pervaiz Iqbal Read More Articles by Malik Pervaiz Iqbal: 2 Articles with 1366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.