مظلوم فلسطینیوں کیلئے "جب دریا امید بن جائے"
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
بھوک سے نڈھال مظلوم فلسطینیوں کیلئے مصر کے لوگوں نے بوتلوں میں خوراک، ادویات اور جو کچھ ان سے ہوسکا اس یقین کے ساتھ دریا کے حوالے کیا کہ یہ ضرور منزل پر پہنچیں گے ۔ |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) یہ منظر کوئی فلمی سین نہیں، یہ تاریخ کا ایک ایسا لمحہ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایمان، یقین اور اخلاص کی گواہی بن چکا ہے۔جب ہر طرف ظلم کی دھند چھا چکی ہو، جب زمینی دروازے بند ہوں، جب بارڈر بند ہوں، جب خوراک، دوا اور پانی کو ہتھیار بنا دیا جائے، تو دلوں کے دروازے کھلتے ہیں، آسمان کی طرف نظریں اٹھتی ہیں اور وہی صدا نکلتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں سال پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے دل میں ڈالی تھی اور پھر ایک ماں نے اپنے شیر خوار بیٹے کو دریا میں ڈالنے سے پہلے دل سے نکالی تھی: "فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ" (تو ڈال دے اسے دریا میں) آج بھوک سے نڈھال مظلوم فلسطینیوں کیلئے مصر کے لوگوں نے وہی کچھ کیا اور بوتلوں میں خوراک، ادویات اور جو کچھ ان سے ہوسکا اس یقین کے ساتھ دریا کے حوالے کیا کہ یہ ضرور منزل پر پہنچیں گے ۔ یہ الفاظ محض تاریخ کا حوالہ نہیں، بلکہ آج کے دور میں ایک عملی مظاہرہ بن چکے ہیں۔ مصر کے عوام نے ظلم کے خلاف، بے بسی کے خلاف، مسلم حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف اپنے ایمان، ہمدردی اور غیرت کا ایک خاموش مگر گونج دار احتجاج کیا ، پانی کی بوتلوں میں انسانیت، محبت، درد اور دعا بند کر کے انہیں سمندر کے سپرد کر دیا، اس یقین کے ساتھ کہ: "اللہ کی راہ میں دیا گیا کبھی ضائع نہیں جاتا۔" یہ منظر دیکھ کر دنیا خاموش رہی، لیکن آسمان نے جھک کر اس عمل کو سلام پیش کیا ہوگا۔ شاید فرشتے بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ جب حاکم سو جائیں تو عوام کیسے جاگتے ہیں۔ یہ صرف بوتلیں نہیں تھیں، یہ وہ چیخیں تھیں جو امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے سمندر پر روانہ ہوئیں۔ یہ وہ پیغام تھا جو دنیا کے ہر ایوانِ اقتدار کو پہنچانا تھا کہ "اگر تم نے راستے بند کیے، تو ہم آسمان اور دریا کے ذریعے اپنے بھائیوں تک پہنچیں گے۔" کیا یہ کسی حکومت کا منصوبہ تھا؟ نہیں! کیا یہ کسی این جی او کی کوشش تھی؟ نہیں! یہ دل سے نکلنے والا اخلاص تھا، یہ ایک بیوہ کا آخری سکہ تھا، یہ ایک بچے کے اسکول کا ٹفن تھا، یہ وہ ہاتھ تھے جو دعا کے لیے اٹھے اور پھر سمندر کی لہروں کے حوالے کر دیے گئے۔ آج فلسطین میں کوئی بچہ اگر ان بوتلوں سے پانی کا ایک قطرہ بھی پی لیتا ہے تو وہ صرف پیاس نہیں بجھائے گا وہ محبت، وفا اور امت کی ایک ٹوٹی ہوئی لڑی کو جوڑنے کی ایک کوشش کو زندہ کرے گا۔ لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے: کیا مسلم دنیا کے حکمرانوں کے دلوں میں کوئی در نہیں کھلتا؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے عوام کی غیرت ان کی بے حسی سے بہت آگے نکل چکی ہے؟ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ انہیں نہیں بلکہ ان عوام کو یاد رکھے گی جنہوں نے بوتلوں میں امید بھر کر دریا میں ڈال دی؟ اے کاش! اس وقت ہمارے حکمرانوں کو حضرت موسیٰؑ کی ماں پر ایمان جیسا یقین آ جائے، تاکہ وہ بھی کوئی قدم اٹھا سکیں۔ ورنہ تاریخ انہیں ایک بے آواز تماشائی کے طور پر لکھے گی۔ کوشش کرنے والوں کو یقین ہے کہ ان کی یہ بوتلیں اپنی منزل پر ضرور پہنچیں گی۔ کیونکہ یہ صرف پانی نہیں یہ ایک امت کا خلوص ہے۔اور خلوص کی راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں۔ |
|