عورت امریکہ میں!

96 لاکھ 31 کلو میٹر پر مشتمل یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے ،جس کی مجموعی آبادی 30 کروڑ 46 لاکھ 6 سو سے زائد ہے ۔ہر سال امریکہ میں 40 لاکھ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ہر روز اوسطاً 3خواتین کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل بھی ان کے بوائے فرینڈ یا اپنے عزیز ہوتے ہیں۔ ہائی سکول میں زیر تعلیم ہر پانچویں طالبہ اپنے بوائے فرینڈ کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے جس سے تنگ آ کر دوسروں کو قتل کر کے خود کشی کرنے والوں کی رشح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔مریکہ میں خواتین کے قتل کی شرح دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ انتہائی تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان خواتین کو ان کے مرد دوست ہی جنسی ہوس یا جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس بنا پر یہ خواتین جن میں زیادہ تعداد سکول جانے والی طالبات کی ہے دیگر افراد کے خطرناک رویوں کا بھی شکار ہوتی ہیں۔ انہیں ان کی مرضی کے خلاف آزادانہ جنسی تعلقات رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا دوسری طرح ہراساں کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ طالبات شادی سے قبل 4 سے 6 مرتبہ حاملہ ہو جاتی ہیں اور 8 سے 9 مرتبہ خود کشی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ اعدادوشمار اسی امریکی ملک کے ایک ادارے کے ہین اس چشم کشا رپورٹ کے مطابق امریکی خاوندوں کی جانب سے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کا تعلق پسماندہ خاندانوں سے نہیں بلکہ یہ بھی تحریر ہے کہ 37 فیصد خواتین کو تشدد کے بعد زخمی ہونے پر مناسب علاج کی سہولیات میسر ہوتی ہیں، جب کہ 63 فیصد خواتین کو علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی تحریر ہے 10 لاکھ سالانہ واقعات ایسے ہیں جو ان خواتین کے سابق دوستوں سے تعلق رکھتے ہیں اور 30 فیصد خواتین ایسی ہیں جن کو پہلی مرتبہ دوران حمل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ مجموعی طور پر دوران حمل سالانہ 3 لاکھ 24ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان خطرناک معاشرتی حالات سے امریکی معیشت زوال کا شکار ہے۔ خواتین پر تشدد کی لہر سے متاثرہ خواتین میں فیکٹریوں اور کمپنیوں میں کام کرنے والی خواتین ورکرز بھی شامل ہیں، ان پر تشدد کرنے والے ان کے مرد کو لیگ ہوتے ہیں ۔ جس سے کمپنیوں کی مصنوعات کی پیداوار شدت سے متاثر ہو رہی ہے، اس سے امریکی کمپنیوں کو سالانہ 72.8 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ میں متعدد لوگ دوسروں کا قتل کر کے خود کشی کر لیتے ہیں، ان میں 94 فیصد مرد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کے رویوں سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں۔ مرنے والی 96 فیصد خواتین اپنے مرد دوستوں کے ہاتھوں موت کا شکار ہوتی ہیں۔ نامناسب خاندانی رویوں سے تنگ امریکی نہ صرف اپنی بیوی، گرل فرینڈز اور بچوں کو قتل کر دیتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنے آپ کو قتل کرنے سے پہلے خاندان کے دوسرے افراد کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔ دوسروں کو قتل کرنے کے بعد 75 فیصد امریکی شہری گھروں میں ہی خود کشی کر لیتے ہیں۔

اس بات کا انکشاف امریکہ کے مختلف تحقیقی اداروں کی مشترکہ طور پر مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں میں ’’اینڈنگ وائیلنس اگینسٹ وومن‘‘، ’’بیورو آف جسٹس‘‘ ، ’’سٹینکس کرائم ڈیٹا بریف‘‘ ، ’’ٹین ایج ریسرچ ان لمٹیڈ‘‘، ’’جنرل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن‘‘ اور ’’کامن ویلتھ فنڈ‘‘ سمیت دیگر تحقیقی ادارے شامل ہیں۔ جب کہ واشنگٹن ٹائمز کے مطابق امریکہ میں ناجائز بچوں کی پیدائش میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ناجائز بچوں کی پیدائش 15 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

امریکی حکومت نے سکول جانے والی طالبات سے خصوصی اپیل کی ہے کہ وہ آزادانہ جنسی تعلقات قائم کرنے سے اجتناب کریں جب کہ امریکہ تیسری دنیا کے ممالک خصوصاً اسلامی ممالک میں اپنی چھتری کے نیچے پرورش پانے والی این جی اوز کو خواتین کے حقوق، آزادی اور تحفظ کے سالانہ کروڑوں ڈالر کے فنڈز مہیا کرتا ہے لیکن اس کے اپنے ہی ملک میں خواتین کی آزادی نے انہیں کس پریشان کن حالات سے دوچار کر دیا ہے، اس کی چشم کشا تصور اعداد و شمار کے حوالے سے پیش خدمت ہے اور دلچسپ بات ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکہ کے تحقیقاتی ادارے ہیں جن کی تحقیق کو کسی سطح پر بھی چیلنج نہیں بلکہ ہمارے ہاں تو گوروں کے تھوکے کو چاٹنے کا چلن عام ہیں۔ اس تحقیقاتی رپورٹ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ترقی یافتہ اس ملک میں قانون پر عمل درآمد کے باوجود اگر عورتیں مظلوم ہیں تو مرد اس سے زیادہ بے بس ہیں خوش عورت نہیں تو راضی مرد بھی نہیں وہ بھی عورت کی پیٹنے پر ایک طرف پولیس اور عدالت کو جوابدہ ہیں اور دوسری طرف خواتین کے ہاتھوں پٹتے بھی ہیں۔

40 فیصد امریکی خواتین اپنے شوہروں پر ہاتھ اٹھاتی ہیں۔ خلیج ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیقی سروے کے مطابق امریکی خواتین میں رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی عدم تکمیل اور مرضی کے خلاف کام کرنے پر شوہروں پر تشدد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اور اس مقصد کے لیے یہاں کی خواتین لاتوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال بھی کرتی ہیں۔ تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی خواتین کا یہ تشدد رویہ دراصل خواتین میں موجود ڈپریشن اور نفسیاتی بیماریوں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ ہے۔ طبی ماہرین نے امریکی خواتین کے اس رجحان کو وبا سے تعبیر کیا ہے۔ سٹیل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیڈیز کے ڈاکٹر رابرٹ تھامسن جو تحقیقی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں امریکی عورتوں کے اس کردار پر خود بھی تعجب کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر تھامسن نے خاندانی نظام میں عورتوں کے پر تشدد ہونے کو معاشرے کے لیے مسائل کا پنڈورا بکس قرار دیا ہے۔ سروے مرتب کرنے اور اس کی تحقیقی رپورٹ مرتب کرنے میں تھامسن اور اس کے ساتھیوں نے 3400 خواتین سے مختلف انداز اور حوالوں سے معلومات حاصل کیں۔ جس کے مطابق 18 سے 64 سال تک 44 فیصد خواتین نے اپنے اور شریک حیات کے درمیان مار پیٹ کا اعتراف کیا ہے۔ ہیلتھ سینٹر اسٹیڈیز کے مطابق خواتین کا یہ عمل ان کے لیے جسمانی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ انسان چاہے جس ملک یا خطے کا ہو اور جتنا بھی ذہین ہو وہ اﷲ کے قوانین سے ہٹ کر جو قانون بنائے گا اس میں ابہام بھی ہوگا اور نقصان بھی امریکہ ہی نہیں یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی افراد ہیں وہ خاندانی رشتوں اور حقوق سے بے بہرہ ہیں ان کے معاشرے کی تباہی اور پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے وہ ٹیکنالوجی میں ترقی ضرور کر رہے ہیں مگر تعلق دار اور خاندانی تباہی میں وہ تنزل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

عورت مرد کا رشتہ اور ان کے حقوق اور ان سے پیدا ہونے والے بچے ان بچوں کے حقوق ان کی پرورش اور نان و نفقہ اسلام نے بڑے احسن طریقے سے بتائے ہیں مسلم معاشرے میں جو گھریلو سکون اور خاندان کا مضبوط سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ان اسلامی قوانین پر عملددرآمد ہے اور مغرب میں ترقی اور آزادی حاصل کرنے والی خواتین جو روز جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہو رہی ہیں وہ فطری قوانین سے رو گردانی ہے جس میں اسلام نے عورت کی حفاظت اور عزت رکھی تھی ترقی جتنی بھی ہو جنب فطرت کے قوانین پر عمل درآمد نہ کریں گے توجوں ہی ایک دوسرے کو پیٹے رہیں گے۔

 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 58890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.