صحت مند طرزِ معاشرت کا قیام ناگزیر ہے

کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ جب حال کے بجائے ماضی میں دلکشی نظر آنے لگے, اور آپ کو اپنے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہ رہے تو جان لیں کہ آپ پر پیرانہ سالی کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں دیگر المیوں کے ساتھ یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ماضی میں سکون و عافیت تلاش کرتا ہے۔ روز مرہ گپ شپ, نجی محافل باہمی گفت و شنید میں طرح طرح کی سُر اور لے میں ہم اپنے گزرے وقت کے کارہائے نمایاں بڑے فخر اور طمطراق سے دوسروں کو سناتے ہیں۔ اور پھر اس پر محظوظ ہوتے ہیں۔ جب کہ اس دوران حال اور مستقبل کو قطعاً بھول جاتے ہیں۔ نانی اماں (مرحوم) اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت کی راحتیں نصیب فرمائے, ایک دوکان دار کا واقعہ اکثر سنایا کرتی تھیں, کہ وہ فوجی تھا, اور جب وہ برما کے محاذ پر جنگ لڑ کر آیا تو گاؤں میں ایک دوکان بنا لی, شروع شروع میں گاھک آتے اور خریداری کے ساتھ ساتھ اس سے اس کی آپ بیتی سنتے اور داد و تحسین سے نوازتے۔۔۔۔چاچا جی کو واہ واہ سننے کی ایسی لت پڑی کہ محلے کے شریر بچے انہیں باتوں میں لگا کر چپکے سے چیزیں اڑا لے جاتے اور بابا جی اپنی نیم وا آنکھوں سے ماضی کی کال کوٹھڑی میں ہی بھٹکتے رہتے۔

ایک لنگوٹیے سے اکثر اسی موضوع پر تکرار رہتی ہے, جب بھی ملے, میلی کچیلی دھوتی باندھے, بکھرے بال, اتراچہرہ, بڑھی ہوئی شیو, مونچھوں کی چنی منی بے ترتیب سی لٹیں, چال ڈھال میں سست روی, میری اس بات پر کہ بھائی اپنی حالت کو سنوار کر رکھا کرو, اس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے؛ او بھئی ہم اپنا وقت گزار چکے, اب بڑھاپا جھاتیاں مار رہا ہے۔۔۔۔ کاہے کو بننا سنورنا۔۔۔۔!! حالانکہ موصوف کی عمر کا ہندسہ ابھی تک چوتھے عشرے کی دہلیز پار نہیں کر سکا۔ البتہ اسے رات کے پہلے پہر باتوں میں لگایا جائے تو آخری پہر تک وہ ماضی کی راگنیاں چھیڑے پہلو تک بھی نہیں بدلے گا۔

اس ساری تمہید کا مقصد اس فطری حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ انسانی جذبات و احساسات کا انسانی صحت و تندرستی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اور یقیناً ہر طرح کی سست روی, کاہلی, اور مردہ دلی میں انسان کی ماضی سے وابستگی اور حال و مستقبل سے بے رغبتی اور بے زاری کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہن و دل کی کیفیتوں میں وقت سے پہلے بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہاتوں میں آباد ہے۔ شہری آبادی میں تو خیر اب کچھ نہ کچھ بدلاؤ ضرور آیا ہے۔ لیکن دیہاتوں میں آپ شرطیہ جا کر دیکھ لیجیے, ایسے کم عمر بوڑھوں کے غول کے غول پھرتے نظر آئیں گے۔ جو اپنے مستقبل سے بے خبر اپنے حال میں مست ماضی کی پٹاریاں اٹھائے زندگی کو جیسے تیسے کاٹ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 20 , 25 سالہ نوکری پیشے کے بعد وہ خود کو بوڑھا سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیے جانے لگتے ہیں۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد حقیقت میں بے وقت بڑھاپے کا شکار ہو کر ان کو راہ عدم سدھارنا یقینی ہوتا ہے۔ لہذا یہ بات طے ہے کہ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے اس معاشرے میں بسنے افراد کا ذہنی و جسمانی طور پر چست و توانا اور صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔

اسی موضوع پر کچھ عرصہ پہلے نیوزی لینڈ میں ایک سائنسی تحقیق ہوئی, جس میں ہزاروں لوگوں کو شامل کیا گیا۔ ان لوگوں کے جسمانی ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ذہنی کارگردگی کا ٹیسٹ اور دماغ کی سکیننگز بھی کی گئیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں کنگز کالج لندن اور ڈیوک یونیورسٹی امریکا سے تعلق رکھنے والے جائزہ رپورٹ کے مصنف پروفیسر ٹیری ای موفیٹ نے بتایا کہ 45 سال کے بعد سست رو اور ڈھیلے مزاج افراد جلدی بڑھاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ان کی نسبت تیز چلنے والے اور ذہنی طور پر ایکٹو لوگوں میں بڑھاپے کی طرف بڑھنے کےآثار بہت کم دیکھے گئے۔

یورپ کے بارے اکثر کہا جاتا ہے کہ وہاں خالص بڑھاپے کو انجوائے کیا جاتا ہے۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا کہ یورپ والے 50 سال کی عمر کو بڑھاپے کا بچپنا شمار کرتے ہیں۔ اور عمر کے 60 ویں سال کو وہاں بڑھاپے کی جوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور 70 ویں سال کو خالص بڑھاپا جان کر انجوائے کیا جاتا ہے۔

البتہ ہمارے ہاں باقی معاملات کی طرح یہاں بھی معاملہ الٹ ہے۔ 50 سال کی عمر میں ہی سر اور چہرے کی فصلوں پر سفیدی چھا جاتی ہے۔ سرخ و سپید گالوں کے پھول فارغ البالی کی خزاں سے مرجھانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جذبات و احساسات کے شدت اور آرزؤں و امنگوں کے طوفاں اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر فنا ہو جاتے ہیں۔ لال پیلی سنہری لٹیں سجائے بابے مساجد کے کونے کھدروں میں دبک کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں۔ اب سوائے نماز روزے یا ماضی کی قصے کہانیاں اپنے بچوں کے بچوں کو سنا سنا کر بہلانے کے, ان کا تعمیری معاشرت میں کوئی مثبت کردار نہیں رہتا۔ اور اگر کوئی غلطی سے اپنی وضع قطع اور ڈیل ڈول میں نفاست, اور چہرے مہرے کو رنگنا شروع کر دے, اور کسی تعمیری سرگرمی میں حصہ ڈالنا شروع ہو جائے تو اسے "چٹا چہاٹا" اور "بڈھی گھوڑی لال لگام" جیسے طعنے معنے ہی مار ڈالتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری دیہاتی زندگی میں 50 سال پہلے والی روحیں آج بھی بھٹکتی پھرتی ہیں۔

ماہرین عضویات کا اندازہ ہے کہ انسان کی تخلیقی فکر جو انسانی زندگی کا ایک حقیقی دھارا ہے, 40 برس کی عمر میں پختگی حاصل کرتی ہے۔ کوئی بھی آرٹسٹ اپنی بہترین تخلیق 50 برس کی عمر تک تشکیل دے پاتا ہے۔ ڈاکٹر اپنی صلاحیتوں کے عروج پر 45 برس کی عمر تک پہنچتے ہیں, جب کہ وکیل اور ماہرین قانون 55 برس کی عمر تک اپنے مہارت و فن کی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔ اب یہ کس قدر المیہ ہے ہمارے ہاں کہ ایک انسان کہ جو وقت کی آتش نمرود میں سلگ کر کندھن بن چکا ہوتا ہے, اس کے تجربات و مشاھدات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم اسے قصے کہانیوں کی ایک کتاب بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ جس سے وقت بے وقت پڑھ کر بس محظوظ ہونے کا کام لیا جاتا ہے۔ یا پھر اسے عزت و احترام کی کوٹنگ میں ڈیکوریشن پیس بنا کر گھر کے ہی کسی حجرے میں سجا دیا جاتا ہے۔ اور صبح و شام اس کی زیارت کرنا فرض عین سمجھا جاتا ہے۔

یہ ہمارا اجتماعی معاشرتی المیہ ہے۔ اور اس میں بڑا ہاتھ ہمارے اس سماجی ماحول کا ہے, جو ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ شاید ہم لوگ یہ راز ابھی تک جاننے سے قاصر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ محدود سی زندگی اس لیے نہیں دی کہ بچپن کھاؤ, جوانی اڑاؤ اور بڑھاپے میں ماضی سنا سنا کر مر جاؤ, بلکہ اس چند سالہ زندگی کا مقصد ایک انسان کا اپنے ہر موجودہ اور آنے والے وقت کو بہترین اور منظم انداز سے گزارنا ہے۔ اور اپنی ہر اک گھڑی اور ہر اک لمحے کو اپنے گزرے ہوئے اک اک پل سے بہتر اور خوب صورت بنانا ہے۔ ہمارا معاشرہ جو ایک عرصے سے زوال پذیری کا شکار ہے۔ اس کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ ہمارے سماجی نظام کا یہی قدامت پسندانہ مزاج ہے۔ جو جدّت اور نئی دنیا کے چیلنجز سے بالکل نابلد اور ناآشنا ہے۔ اور جسے ریٹائرڈ کلچر بھی کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ اپنی صحت اور عمومی زندگی کے بارے ہماری سوچ کا زاویہ بہت محدود ہے۔ جو ہمیں اپنی تہذیب, ماحول, معاشرے میں انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر مثبت اور تعمیری اقدار کو پروان چڑھانے سے روکتا ہے۔ لہذا آج ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ازحد ضروری ہے۔ اور اس کے لئے پہلے صحت مند طرز مند طرز معاشرت کا قیام عمل میں لانا ہو گا, جو ذہنی و جسمانی صحت کے ساتھ مشروط ہے۔ ورنہ اکبر الہ آبادی تو ایک ڈیڑھ صدی پہلے ہی فرما گئے تھے؎

کیا کہیں احباب کیا کارہاۓ نمایاں کر گئے
بی اے کیا, نوکر ہوئے, پینشن لی اور مر گئے
 

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 22 Articles with 17529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.