سکول کی ٹیچر بطور سزا اس کے کان کھینچتی اور اسے ہم
جماعت طلباء کے سامنے کھڑا کردیتی۔ وہ شرارتی تھا،نچلا نہ بیٹھ سکتا
تھا۔ادھر ادھر دیکھنا، دوڑنا اس کا شغل تھا۔اسی وجہ سے وہ ڈانٹ کا مستحق
قرار پاتا۔جب اسکول سے گھر جاتا تو بچے سزا کا مذاق اڑاتے،وہ روتا منہ
بسورے گھر لوٹتا تھا۔
اس وقت وہ پانچ سال کا تھا ،لیکن اسے شدید احساس تھا کہ اس کے ساتھ
ناانصافی،غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ان جذبات میں شدت آتی
گئی۔یوں اسے ظلم،ناانصافی سے نفرت ہوگئی۔وہ اسی جذبے کے تحت عمر بھر جدجہد
کرتا رہا۔
اس لڑکے کو دنیا "کلیرنس ڈیرو' کے نام سے یاد کرتی ہے۔وہ امریکہ کا نامور
وکیل ہوا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس دور میں فوجداری مقدمات میں اس کے
پائے کا وکیل پورے امریکہ میں نہ تھا۔ملک کے تمام اخبارات مقدمات میں دئیے
گئے اس کے Argumentsکو شہ سرخیوں میں شائع کرتے تھے۔
اس نے جو پہلا مقدمہ لڑا ۔اشتابولا(اوہایو) کے پرانے باسیوں کو اب بھی اس
کی یاد باقی ہے۔ آپ سمجھ رہے ہونگے کہ کوئی مہنگا ترین مقدمہ ہوگا نہیں۔یہ
سن کر آپ کے دل و دماغ میں ترنگ کی آواز آئے گی کہ وہ مقدمہ گھوڑے کی ایک
پرانی زین کے بارے میں تھا۔زین کی قیمت صرف ایک ڈالر تھی،اور حیران کن بات
یہ کہ کلیرنس ڈیرو نے اس مقدمے کی فیس ایک ہی ڈالر طے کی۔
دراصل یہ مقدمہ کسی فیس یا لالچ کی بنیاد پر نہ لڑا گیا بلکہ کلیرنس ڈیرو
کے نزدیک یہ ایک اصول کی بات تھی۔اس نے اس مقدمے پر اتنی جان ماری کی جیسے
وہ بنگال کے شیر سے نبردآزما ہو۔
کلیرنس ڈیرو اپنے بارے میں کہتاہے کہ وہ سست آدمی تھا،اپنی زندگی کے
ابتدائی ایام میں وہ ایک دیہاتی سکول میں پڑھتا تھا۔اس کی زندگی کی کایا
ایک عام سے واقعہ نے پلٹ کر رکھ دی۔جس سکول میں وہ تعلیم حاصل کرتا تھا اس
کے پاس ایک لوہار کی دکان تھی،لوہار سارا دن لوہا کوٹتا۔فارغ اوقات میں
قانون کی تعلیم حاصل کیا کرتا تھا۔ڈیرو اس سے بہت متاثر ہوا۔اس نے ادھار
کتابیں مانگیں اور جو بھی فارغ وقت ملتا ،وہ کتابیں پڑھتا۔
کلیرنس ڈیرو کی زندگی کو تلپٹ کرنے کے لیے ایک اور واقعہ رونما ہوا۔کہتے
ہیں مسائل اور رکاوٹیں انسان کی ترقی کے لیے پیش آتے ہیں۔ہوا کچھ یوں کہ اس
نے اور اس کی بیوی نے اوہایو میں ایک گھر خریدنے کا ارادہ کیا۔مکان کی قیمت
سات سو ڈالر تھی۔جو ان کی پہنچ سے باہر تھی۔مالک مکان سے اقساط میں قیمت
دینے کی شرط پر سودا ہوگیا۔معاہدے کی تمام شرطیں طے ہوچکی تو مالک مکان کی
بیوی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔اور حقارت ، نفرت سے کہا کہ میرے خیال
میں یہ قسطوں میں بھی رقم نہیں چکا پائے گا۔
کلیرنس ڈیرو کو شدید دھچکا لگا۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اوہایو میں نہیں رہے
گا۔وہ شکاگو چلا گیا۔یہاں اس کی آمدنی سالانہ صرف ساٹھ ڈالر تھی ،جسسے
بمشکل مکان کا کرایہ ادا ہوپاتا تھا۔لیکن حیرت انگیز طور پر اگلے سال اس کی
آمدنی دس گناہ ہوگئی۔اب ڈیرو شہر کا ایک بہت بڑا اٹارنی بن چکا تھا۔
بہت جلد اسے شکاگو اور نارتھ ویسٹرن ریلوے کمپنی کا اٹارنی بنا دیا گیا۔اور
اس کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ پھر کمپنی میں اچانک دنگا،فساد،نفرت
خون خرابا ہوگیا۔ڈیرو نے کمپنی سے استعفیٰ دیا اور ہڑتالیوں کا وکیل بن کر
عدالت پہنچ گیا۔یہ وہ وقت تھا جب اسے دنیا کے اخبارات نے کوریج کیا اور ایک
مقبول ترین وکیل بن کر ابھرا۔
پیدائش کے وقت تو وہ بالکل نارمل تھا۔والدین کا چہیتا۔لاڈ پیار سے گندھی
ہوئی مٹی کی خوشبو سے معطر وہ جب نوعمری کو پہنچا تو اچانک پولیو
ہوگیا۔والدہ کے آنکھوں کا تارہ معذور ہوچکا تھا۔والد تو درویش آدمی تھا۔اگر
چالیس روزہ تبلیغی دورے پر جاتا تو چالیس روز پورا ہونے سے پہلے اگر رائے
ونڈ کے بزرگوں نے تقاضا کردیا کہ میانجی فلاں علاقے میں اصلاح کی اشد ضرورت
ہے تو سال کے لیے ادھر رخت سفر باندھ لیتا تھا۔کھانے پینے کا فکر نہ رہائش
کا بندوںست۔بس ایک ہی لگن تھی۔بیٹا معذور ہوچکا لیکن کیا مجال کہ پریشانی
سر لی ہو بس اللہ ہی سے سب ہوتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔
فیملی کا رجحان زیادہ تر دینی تعلیم کی طرف تھا ۔مدرسے سے حفظ کیا درس
نظامی کی ابتدائی کتابیں مقامی مدرسہ سے پڑھی اور دارلعلوم کراچی داخلہ لے
لیا خوب محنت کی پاؤں کی معذوری کو آڑے نہ آنے دیا اللہ نے دینی تعلیم کی
تکمیل فرما دی۔
تعلیم سے فراغت حاصل کر کے ہر کسی کو ذریعہ معاش کی فکر ہوتی ہے۔اور پھر ہو
بندہ معذور تو قلق ،پریشانی اور بھی زیادہ۔ہمارے معاشرے میں مولوی ہو،بے
روزگار ہو،اور ہوبھی معذور تو لوگ رشتہ دینے سے بھی انکار کر دیتے ہیں کہ
یہ ہماری بیٹی کو کما کر کیسے کھلائے گا۔
لیکن مشیت ایزدی ہوکر ہی رہتی ہے۔اللہ نے اچھا رشتہ بھی عطاء کر دیا اور
روزگار کاایسا بندوبست کیا کہ دوست احباب رشک کرتے ہیں۔ ایک ٹریول ایجنسی
میں کام شروع کیا۔بیرون ملک ویزوں کے کاروبار کی جان بوجھ ہوئی ۔دن رات
محنت کی۔اپنی ٹریول ایجنسی قائم کر لی اور اب ویزوں کا وسیع کاروبار
ہے۔ہوائی جہاز کمپنیاں رعائتی قیمت پر اسے ذاتی ٹکٹ جب چاہے پیش کرتی ہیں
۔جب چاہے وہ کراچی،ملتان،لاہور کا سفر کرتا ہے۔اللہ نے ہر سہولت سے نواز
رکھا ہے۔
ان روئیدادوں کو پیش کرنے کا میرا یہی مقصد ہے کہ ہمارا نوجوان ڈگریاں حاصل
کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے۔اگر پورے ملک کے نوجوان اعلی ڈگریاں لے کر
نوکریوں کی تلاش میں خاک چھانتے پھریں گے تو حکومت کہاں تک نوکریاں دے
گی۔پاکستان میں کل آبادی کے 60فیصد سے لے کر 70 فیصد تک نوجوان ہیں۔یہ
ہمارا ایک قومی سرمایہ ہیں۔اس خام مال کو ڈھال کر کندن بنانا ہوگا ۔پوری
دنیا کی نظریں ایسی افرادی قوت پر مرکوز ہوتی ہیں ۔اگر یہی آبادی بے روزگار
ہو نوکریوں کے لیے ماری ماری پھرے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے ۔جام
چھلک سکتا ہے۔اس لیے ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک مربوط حکمت عملی طے کرنے کی
ضرورت ہے۔۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن تربیت کا فقدان
ہے۔اسی وجہ سے نسل نو اور بزرگوں کے سوچ ،انداز فکر میں ایک خلاء پیدا ہوا
جارہا ہے۔اس generation gape کو دور کرنا ہوگا۔
ہمارا نوجوان محنت میں عار محسوس کرتا ہے شارٹ کٹ رستے سے امیر ہونے کے
خواب دیکھتا رہتا ہے جس کی وجہ سے نوسربازوں اور عیاروں کے جال میں جلد
پھنس جاتا ہے۔اور سرمایہ،وقت،بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا
ہے۔مایوسیاں پھیل رہی ہیں۔اس کا مداوا ضروری ہے۔
ہماری یوتھ کو محنت کی تربیت دینا ہوگی۔حالات کا مقابلہ کرنے کا سلیقہ
سکھانا ہوگا۔اللہ پر توکل کر کے کوئی نہ کوئی کام کرنا ہوگا،جب انسان کا
اللہ پر کامل و پختہ یقین ہوجاتا ہے،محنت کے ثمرات جلد آنا شروع ہوجاتے
ہیں۔
|