نکاح کا دستور بنی نوع انسان پر خالق کائنات کا عظیم ترین
احسان ہے جو روئے زمین کی تمام مخلوقات میں انسان کو ممتاز کرتا ہے ۔یہ
انسان اور حیوان میں فرق کرنے والی حد فاصل ہے۔جن معاشروں نے خود کو نکاح
کی پابندی سے آزاد کرنے کی کوشش کی ان کے اخلاق و اقدار جانوروں سے بھی
ابتر ہیں، یعنی اہل مغرب اپنی نام نہاد ترقی کے زعم میں ماں بہن بیٹی اور
بیوی جیسے مطہر رشتوں کے تقد س سے ہاتھ دھو کر گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچر
کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ اپنی سرکشی اور خود سری میں بڑھتے بڑھتے واپسی
کے راستے مسدود کرتے چلے گئے ، خاندانی انتشار اور قومی افراتفری کی دلد ل
میں دھنس گئے اور بالآخر اپنے وجود کو آلودہ کرکے اس زہر کو ہماری طرف
دھکیل دیا۔
دجالی گماشتوں کی لاکھ کوشش کے باوجودمشرقی روایات سے نکاح کو یکسر تفریق
کرنا ممکن نہیں لہٰذا چور دروازہ استعمال کرتے ہوئے مسلمان عورت کو بے گھر
کرکے سڑک پر لانے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔اس سازش کی پہلی کڑی میں نوجوان
نسل کو مخلوط ماحول فراہم کرکے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے والدین سے بغاوت
اور کورٹ میرج کی تربیت دی گئی۔والدین کی چار دیواری میں پلنے بڑھنے والی
گھریلو لڑکی ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں لَو میرج کی چمک دیکھ کر یہ بھول
جاتی ہے کہ ہر غیر مرد ایماندار نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگ محبت کی آڑ میں
سودا کرتے ہیں اور اس سودے میں کسی کی پاکیزگی جاتی ہے تو کسی کی سادگی،
کسی کا جسم جاتا ہے تو کسی کی روح بھی، کسی کی جان جاتی ہے تو کسی کا
ایمان، سوداگر کا کام اپنا فائدہ نکالنا ہوتا ہے اس کو کسی کے نقصان سے غرض
نہیں البتہ لڑکی گھر کی رہتی ہے اور نہ ہی گھاٹ کی، لہٰذا دھوکے بازوں کے
جھانسے میں آکر اپنی زندگی تباہ کرنے والی لاکھوں بے بس لڑکیاں مربوط
شیطانی جال کا حصہ بن چکی ہیں۔
اسی منصوبہ سازی میں دشمن نے دوسری چال یہ چلی کہ نکاح ثانی کو گالی بنا
دیا گیا۔مغربی چندہ خور این جی اوز، یہود کے تربیت یافتہ سکالرز ، مختلف ٹی
وی چینلز کے ڈراموں فلموں اور حقوق نسواں کے نام نہاد علمبرداروں نے شبانہ
روز محنت اور کوشش سے قوم کو باور کروایا کہ مرد کی دوسری شادی عیاش طبعی
اور پہلی بیوی پر جبر و قہر کے مترادف ہے ،لہٰذااسلام مخالف قانون سازی کے
ذریعے دوسرے تیسرے اور چوتھے نکاح کا عمل مشکل تر کر دیا گیا۔ظلم کے ان
ضابطوں نے سب سے زیادہ متاثر ان مسلمان بہنوں بیٹیوں کو کیا جو طلاق یا
بیوگی کے بعد نہ تو اپنے سسرال میں جگہ بنا سکِیں اور نہ ہی میکے میں انہیں
قبول کیا گیا جبکہ قانونی پیچیدگیوں کے پیش نظر کوئی مرد ان کو دوسری بیوی
کے طور پر سہارا دینے کو تیار نہیں ۔ قرب قیامت کے فتنوں اور خونخوار
درندوں کی بھِیڑ میں ایک تنہا عورت جن مسائل سے دوچار ہوتی ہے اور جس کرب
سے گزرتی ہے کوئی دوسرا اس غم والم کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ مرنے کے
لیے صرف ایک زہر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایک بے سہارا عورت
کو زندہ رہنے کے لیے جتنے زہر پینا پڑتے ہیں ان کا کوئی شمار نہیں۔ ایسے
میں حوا کی بیٹی زندگی کی تلخیوں سے نجات کے لیے موت کو گلے لگا لیتی ہے یا
بے راہروی کے تاریک راستے اس کا نصیب بن جاتے ہیں۔ پھر مقدر کے اندھیرے صرف
اس کی ذاتی زندگی کو سیاہ نہیں کرتے بلکہ اس کی یہ مجبوریاں بیسیوں مردوں
کو بھی گناہوں کی غلاظت میں کھینچ لاتی ہیں، لعنت کی یہ زنجیر تعلق در تعلق
بڑھتی چلتی ملک و قوم کو جکڑ لیتی ہے، غیر مذاہب کے تماش بین امت محمدیہ کو
اسی مقام پر دیکھنے کے خواہش مند تھے ، یہی صورت حال ان کا نصب العین اور
مقصود تھی، ان کی یہی چال تھی کہ لَومیرج کو عام اور نکاح ثانی کو بدنام
کرکے مسلمان عورت کو چوراہوں کی زینت اور گناہوں کی داعی بنا دیا جائے اور
نوجوان نسل نکاح کی بجائے شراب و کباب اور ساز و گداز کی رسیا بن جائے۔
دجالی نیٹ ورک کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ اگر مسلم قوم کی اکثریت کو
بدکار بنادیا جائے تو جہاد و قتال کا جذبہ اور حرب وضرب کا نعرہ مفقود
ہوجائے گا اور مسلمانوں کا مضبوط سے مضبوط قلعہ بھی ان کے لیے ریت کے
گھروندے کی مانند آسان ہدف ہو گا۔
مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی نجات کا راز صرف اس حکمت عملی میں پوشیدہ ہے
کہ ہمارے ہر ہر عمل پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی اور صحابہ کرام
ؓ کی اتباع کا رنگ غالب ہو۔ عورت کو جاہلیت کی رسومات سے نجات دے کر جو عزت
دینِ حق اسلام نے عطاء فرمائی ہم اسے وہی مقام اپنی زندگی میں دیں۔ جو
احترام نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مبارک قول و فعل سے ماں ، بہن ،
بیٹی اور بیوی کو دیاہم بھی اسی سنت پر عمل کرکے حقوق نسواں کے جعلی علم
برداروں کو اخلاقی شکست سے دو چار کریں۔ صحابہ کرامؓ کے مثالی معاشرے میں
جو خانگی اصول رائج تھے انہیں اپنے نظام حیات میں نافذ کرکے اسلامی اقدار
کی پاسداری کریں یعنی ایک نکاح میں فطری تقاضوں کی تکمیل نہ ہو سکے تو یہ
تشنگی کسی مسلمان کو حرام کاری کے راستے پر نہ لے جائے بلکہ کسی بے سہارا
خاتون کا آسرا بن کر نکاح ثانی اور ثالث کی مہذب سنت کو زندہ کریں۔ خیر
القرون میں خواتین کا احترام اس قدر مقدم و مسلّم تھا کہ طلاق اور بیوگی
کسی عورت کے لیے زندگی کا روگ ثابت نہیں ہوتی تھی۔ عمر کا کوئی بھی حصہ ہو
، شکل و صورت اور مال و عیال سے قطع نظر اس کی مرضی کے مطابق عقد کا التزام
کیا جاتا تھا۔ امن و سکون کا گہوارہ ایسا معاشرہ چشم فلک نے پھر کبھی نہیں
دیکھا جس میں عورت ذات نے کبھی اپنے وجود کو زمین پر بوجھ نہیں سمجھا۔ غزوۂ
موتہ میں حضرت جعفر طیار رضی اﷲ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا تو سیدنا حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ان کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے
نکاح کیا اور پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا تو سیدنا
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے حضرت اسماء ؓ کا سہارا بن کر ان سے نکاح
کر لیا ۔ اس دور میں مرد زیادہ ازواج کی صورت میں کسی ایک سے بھی نا انصافی
نہیں کرتے تھے اور نہ ہی صحابیات ؓ اپنے شوہر کی ساری زندگی کو اپنی اجارہ
داری سمجھ کر اس کی نظرو قلب کا پہرہ دیتی تھیں۔ موجودہ زمانے کی عورتوں کی
طرح میرا گھر ، میرا شوہر، میری دولت جیسے متکبرانہ الفاظ سے وہ تہذیب پاک
صاف تھی۔آج کل بہت سے جہلاء اور بالخصوص عورتیں دوسری شادی کی مخالفت میں
اس حد تک حجت بازی کرتی ہیں کہ اندیشۂ کفر ہونے لگے۔
آج ہماری خاندانی، ازدواجی الجھنیں اور معاشرتی مسائل اس امر کے متقاضی ہیں
کہ ہم من حیث القوم صحابہؓ کے معاشرے کو ماڈل بنا کر اپنی زندگی تبدیل کریں
اور زمینی حقائق کو سمجھیں ۔ دنیا بھر کے اکثر خطوں میں عورتوں کی تعداد
مردوں کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے ، پاکستان کے حالیہ اور گزشتہ مردم شماری
نتائج کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کئی شہروں میں عورتیں تعداد
میں مردوں سے زیادہ ہیں البتہ مجموعی طور پر ہمارے ملک میں عورتوں کی آبادی
مردوں کے تقریباً برابر ہو گئی ہے لیکن اگراب ہم اپنے گردو نواح میں جائزہ
لیں تو احساس ہوگا کہ ہر طرف لڑکیوں کی پیدائش کی شرح لڑکوں کی تعداد سے
زیادہ ہے اورآئندہ مردم شماری میں اس تناسب کے نتائج حیران کن حد تک فکر
انگیز ہو سکتے ہیں۔ خواتین کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود مردوں کی دوسری
شادی کی حوصلہ شکنی ایک خطرناک رجحان ہے جس سے ہمارا خاندانی نظام تباہی کی
طرف گامزن ہے۔
مخدوش مستقبل اور خطرناک معاشرتی حالات سے بچنے کے لیے ملکی و حکومتی سطح
پر پالیسی تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ اگرچہ دوسری، تیسری یا چوتھی شادی لازمی
قرار نہیں دی جاسکتی البتہ قومی سطح پر کم از کم دوسری شادی کی حوصلہ
افزائی مہم ضروری ہے ۔ ایک مرد کے نکاح میں دو تین یا چار عورتوں کا رہنا
اس بحران سے بہتر ہے کہ ہمارے ملک میں لاکھوں کروڑوں عورتیں شادی کے بغیر
بڑی عمر تک پہنچ جائیں۔ شادی میں تاخیر ہمارے معاشرے کا بہت بڑا حل طلب
مسئلہ ہے جس کے بڑے اسباب شادی کی تقریب پر آنے والا خرچ اور جہیز کی
ڈیمانڈ بھی ہے جبکہ دوسری تیسری اور چوتھی شادی میں یہ دونوں مسائل از خود
ختم ہوجاتے ہیں یعنی دین و شریعت پر عمل درآمد میں اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے
آسانیاں رکھی ہیں لیکن ہم خود اپنے لیے مشکلات پسند کرتے ہیں۔ ہمارے اسلامی
خاندانی نظام کی روح ہے نکاح کی ترویج اور زنا کی تردید۔ اس اصول پر عمل
درآمد صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ نکاح زیادہ سے زیادہ کیے جائیں ۔ بدکاری
کے تمام چور دروازے روکنے کی واحد حکمت اور علاج محض نکاح کی کثرت ہے۔ اسی
وجہ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی نکاح زیادہ کرنے کا حکم فرمایا
ہے۔
|