|
|
تین سال کی بیروزگاری کے بعد میں نے دسمبر2018 میں سیلز مینیجر کے طور پر کام شروع
کیا۔ میری آمدن کم ہونے کے باعث مجھ پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی میں
ٹیکس ریٹرن فائل کرتا ہوں۔ میری نوکری کا تقاضہ ہے کہ میں خریداروں، ورکشاپ مالکان
اور دوسرے ملازمین سے مسلسل رابطے میں رہوں،مایوس کن بات تو یہ کہ ہر بار موبائل
کارڈ لوڈ کرنے پر بیلنس کا زیادہ حصہ ٹیکس میں کٹ جاتا ہے۔ |
|
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری آمدنی والے طبقے کے لوگوں اور محنت کشوں جیسا
کہ مزدورں اور گھریلو ملازمین پر جب انکم ٹیکس لاگو ہی نہیں ہوتا تو ہم سے
موبائل لوڈ پر ایڈوانس ٹیکس کیوں لیا جاتا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی
میں اپنے اخراجات پورا کرنا پہلے ہی ہمارے لئے نہایت مشکل ہے۔ اس قسم کے
ٹیکس عوام کے لئے غیر مساوی اور غیر منصفانہ ہیں۔ |
|
|
|
حکومت ایسا نظام ملک میں لائے جو ٹیکس دہندگان کے مفادات کا تحفظ اور
مواصلاتی رابطہ بشمول انٹرنیٹ ڈیٹا کی ضروریات کو بھی موجودہ دور کے مطابق
یقینی بنا سکے۔ ایسا کیوں ہے کہ 100 روپے کے کارڈ ری چارج پر88 روپے کا
بیلنس موصول ہوتا ہے جو کہ اصولا ٹیکس نیٹ سے مبرا صارفین پر عائد نہیں
ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیلنس کے استعمال پر مزید 14روپے کی رقم جی ایس ٹی کے
طور پر کاٹ لی جاتی ہے۔ |
|
میری حکومت بالخصوص ایف بی آر سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر غور کر یں
اور پاکستان کی بے سہارا عوام کی مدد کریں۔ |