|
|
چھ ستمبر 1965 کا دن پاکستانی قوم کے لیے وہ قابل فخر لمحہ ہے جو پاکستانی قوم کے
دشمنوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ شہادت مقصود و مطلوب ہے مومن اور مسلمان میدان جنگ
میں شہادت کے جذبے سے لڑتا ہے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اس کے وطن کا دفاع
ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا ہے- |
|
ایسے ہی ایک جوان مرد جری سپاہی عنایت خان شہید بھی تھے جن کا تعلق 14 بلوچ رجمنٹ
سے تھا ان کو جس وقت بھارتی فوج کے حملے کی اطلاع ملی اس وقت وہ سرحد پر ڈیوٹی کر
رہے تھے ۔ غیرت و حمیت کے نشان عنایت خان کی شادی کو صرف آٹھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا
اور ان کے گھر ایک نئے مہمان کی آمد کی خوشخبری بھی تھی مگر وہ سب کچھ بھول کر اپنی
جان ہتھیلی پر لیے وطن کے تحفظ کا فرض انجام دے رہے تھے- |
|
|
|
بھارتی فوج نے اس جنگ کو ٹنکوں کی سب سے بڑی جنگ بنا دیا تھا اور بکتر بند
ٹنکوں کی ایک فوج کے ساتھ پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے
تھے- اگر بھارتی بزدل دشمن پاکستان کے اندر داخل ہو جاتے تو پھر ان کا
مقابلہ کرنا ناممکن ہو جاتا- مگر ٹینک ان کے تحفظ کے لیے سب سے اہم قلعہ
ثابت ہو رہے تھے جن پر کسی قسم کا اسحلہ اثر انداز نہیں ہو رہا تھا اور وہ
بدمست ہاتھی کی طرح پاک وطن کی سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے- |
|
ایسے وقت میں پاک فوج کے جوانوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کو دنیاوی نظر
میں خودکشی قرار دیا جا سکتا ہے مگر مسلمان کے لیے وہ حیات ابدی کی نوید
تھے- پاکستانی فوجیوں نے دشمن کی نقل و حمل کو روکنے کے لیے اور ان کے
ٹنکوں کا راستہ روکنے کے لیے جسم کے ساتھ بم باندھ کر ان ٹنکوں کے نیچے
لیٹنے کا منصوبہ بنایا- |
|
بم کے پھٹنے کی صورت میں اس جوان کی یقینی موت ہوتی مگر وہ ٹینک بھی ناکارہ
ہو جاتے ان جوانوں میں ایک جوان عنایت خان شہید بھی تھے جنہوں نے اپنی ماں
اپنے وطن کی حفاظت کی خاطر یہ بھی فراموش کر دیا کہ ان کےگھر پر ان کی دلہن
جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی ابھی ماند نہیں پڑی ان کا انتظار کر رہی ہوگی
اور سینے پر بم باندھ کر ٹینک کے نیچے لیٹ گئے اور خود کو اڑا دیا- |
|
|
|
|
ان کی شہادت کے کچھ عرصے بعد ان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی جس کا بچپن اپنے
والد کے انتظار میں گزرا اور بڑے ہونے کے بعد انہیں اس حقیقت کے ساتھ آگاہی
ہوئی کہ ان کے والد ایک شہید ہیں- جنہوں نے حیات ابدی حاصل کر لی ہر چھ
ستمبر کے دن کو وہ تجدید عہد کے طور پر مناتی ہیں - |