پاکستان اس وقت مختلف قسم کے
حملوں کی زد میں ہے، دہشت گردوں کے حملے اور امریکی حملے تو عملاََ ہو رہے
ہیں جبکہ الزامات اور خدشات کے اظہار میں بھی کسی کنجوسی بلکہ احتیاط تک کو
ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا ہے۔ بھارت کو بھی موقع ملا ہوا ہے کہ پاکستان
کے حالات پر اپنا من چاہا تبصرہ کرے اور نیٹو کو بھی ،اور تو اور کرزئی بھی
پاکستان کو اُس دہشت گردی کا الزام دے رہا ہے جس نے اُس کے اپنے ملک سے جنم
لیا بلکہ وہ اور امریکہ مل کر اُسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان دنوں جس سوال کو خواہ مخواہ اچھا لا جا رہا ہے بلکہ خود ہمارے میڈیا میں
بھی اس کو زیر بحث لا یا جا رہا ہے وہ ہے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت۔ ایسا ایک
لحاظ سے بہتر ہے کیونکہ یہ ہمیں مزید چوکنا کرے گا لیکن آخر اس معاملے کو
مشکوک کیوں بنایا جا رہا ہے۔ نیٹو کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ پاکستان کے
ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں لیکن ہمیں اُس کے بارے میں تشویش ہے اگر محفوظ ہیں
تو تشویش کی وجہ کیا ہے۔ بھارت کے ایک مضمون نگار سبھاش کپیلا نے لکھا کہ
پاکستان کے اثاثے چونکہ اُسکی مغربی سرحد کے قریب رکھے گئے ہیں بھارت سے
بچانے کے لیے اور یوں وہ بہت آسانی سے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔
ادھر امریکہ اسی فکر میں مبتلا ہے ۔بات دراصل یہ نہیں کہ انہیں واقعی فکر
ہے کہ خدانخواستہ ایسا ہو جائے گا بلکہ بات ساری یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک
کے پاس ایٹمی قوت ہونا ان کو گوارا نہیں یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ بھارت
نے ایٹمی دھماکے ہم سے پہلے کیے اور دھماکے کرتے ہی اُسکی زبان دھمکی آمیز
ہو گئی تھی اور پاکستان کو مجبوراََ ایسا کرنا پڑا پھر بھی پاکستان کو
دھماکوں سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور اُس پر سخت پابندیاں بھی عائد
کی گئی اب جبکہ اس واقعے کو تیرہ سال ہوگئے ہیں آج بھی غیر مسلم دنیا ہماری
اس حیثیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور خاص کر
پی این ایس مہران کے واقعے کے بعد اس معا ملے کو بلاوجہ ہو ا دی جا رہی ہے
حالانکہ ان ممالک کو معلوم ہے کہ ایٹمی اثاثے ہینگرز میں کھڑے ہوئے بڑے بڑے
جہاز نہیں بلکہ انہیں انتہائی حفاظت سے اور سخت سیکیورٹی میں رکھا جاتا ہے
اور ہمارا یہ نظام کسی بھی طرح امریکہ اور بھارت سے کم نہیں بلکہ بھارت کے
اثاثے خود کبھی بہت محفوظ متصور نہیں کیے گئے اور امریکہ کے ابتدائی ایٹمی
زمانے میں بھی کئی نا خوشگوار واقعات ہو چکے ہیں جبکہ اللہ کا شکر ہے کہ
انتہائی نا ساز گار حالات کے باوجود پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا
کیونکہ پاکستان میں ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے ایک نہایت موثر اور منظم
نظام موجود ہے ۔
کسی بھی نظام کو پہلا خطرہ اندرونی طور پر ہو سکتا ہے اس کے بعد بیرونی یا
ان دونوں کے ملاپ سے اور یا ایٹمی اسلحہ کے ذخیرہ کرنے کی مقامات سے۔
پاکستان کے اثاثوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں ان تمام باتوں کو مدنظر
رکھا گیا ہے اور ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح ایٹمی اثاثوں کی حفاظت سے متعلق
ہو اُسکے بارے میں انتہا ئی درجے کی چھان بین کی جاتی ہے اور نہ صرف اسکی
موجودہ پوزیشن بلکہ اُسکے تعلیمی ریکارڈ ،سیاسی وابستگی ،یہاں تک کہ اسکے
خاندان کے تمام افراد کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، اسکی نفسیاتی صحت چیک کی
جاتی ہے اور وقفے وقفے سے مسلسل یہ سیکیورٹی کلیرنس ہوتی ہے اور ایک ادارہ
نہیں بلکہ ایم آئی کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی بھی یہ کلیرنس کرتی ہے ۔جہاں
تک ہتھیاروں کا تعلق ہے تو یہ بھی کوئی کھلونے نہیں ہیں کہ جسے ہر شخص
استعمال کر سکے اول تو انہیں حصوں میں رکھا گیا ہے یہ ہتھیار جوڑ کر تیار
حالت میں نہیں رکھے جاتے اور پھر اس پر خفیہ کوڈ لگے ہوتے ہیں اور وہ بھی
پورا کوڈ ایک شخص نہیں جانتا بلکہ کئی کئی افراد اسے پورا کر سکتے ہیں اسکے
علاوہ بھی ان کی حفاظت کے لیے کیمرے، سکینرز اور دوسرے بے شمار جدید آلات
نصب ہیں جبکہ اس کے محافظ ہر وقت انتہائی مستعد یعنی ہائی الرٹ رہتے ہیں
اور اگر کسی محافظ یا اہلکار کے بارے میں شک بھی ہو تو اُسے فوری طور پر
چیک کیا جاتا ہے اور کسی بھی ثبوت کی بنا پر حاضر سروس یا ریٹائرڈ فرد کو،
چاہے وہ سول ہے یا فوجی پچیس سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
یہ ہیں اُن انتظامات کے صرف معلوم حصے کا سرسری سا جا ئزہ ہے جو ان اثاثوں
کی حفاظت کے لیے مستقل بنیادوں پر کیے جاتے ہیں اور وقتاََ فوقتاََ ظاہر ہے
کہ طریقہ کار میں بہتری اور تبدیلی بھی لائی جاتی ہے پھر اس شور کی تو جیہہ
کیا ہے جو ایک دم مچا دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد شور تھمتا ہے اور پھر اٹھا
دیا جاتا ہے۔ اسکی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور
ایمان کی طاقت کے ساتھ اگر ٹیکنالوجی کی طاقت بھی شامل ہوجائے تو بڑے سے
بڑے دشمن کی قوت کو بکھیرا جا سکتا ہے بس یہی خوف ہے جو کبھی امریکہ ، کبھی
بھارت اور کبھی نیٹو کی زبان سے تشویش بن کر نکلتا ہے اور اس کا دوسرا مقصد
یہ بھی ہوتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ نہ صرف اپنی صلاحیت
میں اضافہ نہ کر سکے بلکہ موجودہ صلاحیت سے بھی یا تو دست بردار ہو جائے یا
اسے زائل کر دے جیسا کہ انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی
واشنگٹن نے اپنی 16 مئی 2011 کی رپورٹ میں بھی کہا کہ پاکستان اپنے ایٹمی
اثاثوں میں ہر سال سات سے چودہ وار ہیڈز کا اضافہ کر سکتا ہے اور یہی وجہ
ہے اس شور کی جو آجکل امریکہ نے مچایا ہوا ہے اور بھارت اس میں اپنی ہمت کے
مطابق حصہ ڈال رہا ہے اور پاکستانی جو پہلے ہی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں
ان کا اپنے اداروں اور طاقت پر سے اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو
کہ اُس بڑے سازشی منصوبے کا حصہ ہے جو اسکے خلاف بنایا گیا ہے سچ تو یہ ہے
کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو سب سے بڑا خطرہ اُن طاقتوں کی طرف سے ہے جو انکے
غیر محفوظ ہونے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ دہشت گردوں سے تو ہم انہیں محفوظ
رکھ لیں گے لیکن بھارت، امریکہ اور اسرائیل سے ان کی حفاظت کے لیے ہمیں
مزید اقدامات کرنے ہونگے کیو نکہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو دراصل خطرہ ان
ملکوں سے ہے کسی اور سے نہیں لیکن ایک اور یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ
پاکستانی اپنے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں انتہائی حساس ہیں اور اسکی حفاظت
کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ لہٰذا دشمن قوتوں کو اِن کے
بارے میں کچھ بھی کہنے یا کرنے سے انتہائی محتاط رہنا چاہیے ۔ |