موت یہ ایک ایسا وحشت میں ڈال
دینے والا لفظ ہے، کہ کوئی اسے گلے لگا نا نہیںچاہتا،بلکہ اس سے نجات کی
اگر کوئی راہ نکلتی اور اس میںخواہ جتنی بھی پریشا نیاں اور رکاوٹیں
ہوتیں،تووہ اسے جھیل جاتا اور ہر طرح کی قیمت دینے کیلئے تیار رہتا۔مگر
افسوس!ایسا کچھ نہیں ہے،جس کا سہارا لیکر ،جسے حیلہ بناکراورجسے عوض
میںدیکر چھٹکارا حاصل کیا جائے۔گویادنیامیں حیات جاودانی کا تصور بے جان
جسم کے حرکت کرنے کے خیال جیسا ہے ،جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں،بلکہ مہمل اور
لایا نی باتیں ہیں۔دنیا میں کوئی ایسی جڑی بوٹی پیدا نہیں کی گئی ،جسے
کھاکر یا اسکی خوشبو سونگھ کر انسان امر ہو جائے ۔پانی اور سیال مادے کی
بہت ساری قسمیں ہیں،پانی میںمیٹھااورکھاراہے،شہدمیں لال،کالا،سفیدہے،دودھ
میں گائے ،بھینس،اونٹ اور بکڑی کے دودھ،یہ ساری قدرت کی عظیم نشانیاں
ہیں۔انسانی زندگی میںسب کے الگ -الگ فوائدہیں،سبھوں کی الگ -الگ خصوصیات
ہیں،کسی کا تاثیر ٹھنڈاہے،کوئی اپنے اندر بے پناہ گرمی رکھتا ہے ،کسی کے
اندر بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے۔مگر بھیجی موت کاکوئی حل نہیں۔ان میں سے
کسی کو آب حیات کا درجہ حا صل نہیں،جسے پی کر انسان موت اور اس جیسی بلا سے
بے نیازہوجائے ،یا بالفاظ دیگر خود کو محفوظ کر لے۔یہ حقیقت ہے کہ اس کا
گھونٹ بہت کڑوا ہے ،مگر کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ نہ
چاہ کر بھی غیر ارادی انداز میںوہ آتی ہے اورابدی اثر چھوڑ کر چلی جاتی
ہے۔پھر چلتا پھرتا ،ڈیل ڈول والا توانا انسان ہر چیز سے بے نیاز،بے حس و حر
کت اور بے سدھ ہوکر رہ جاتا ہے۔یہ موت حیات جاودانی سے قبل تا قیا مت حیات
کی ضد کے بطور استعمال کیا جائیگا۔ دنیاکی ہر ایک چیز کو بطور چیلنج لیا جا
سکتاہے،لیکن موت ایسی حقیقت ہے کہ جب وہ آجا ئے تو پھر سارے حر بے ناکام
اور شکست خور دہ ہو کر رہ جا تے ہیں۔انسان دنیا میں آتا ہے اور اپنا وقت
کاٹ کر چلا جاتا ہے ۔سادگی کی زندگی بسر کر نے والا بھی موت کے منھ میں
جاتا ہے ،اڑیل ،بدتہذیب،سرکش اور متکبر کو بھی موت آتی ہے۔راہ کے بھکا ری
بھی ٹاٹ پر پڑے آخرت کو سدھار جاتے ہیں اور وقت کے فرعو ن کوبھی انکی سلطنت
و حکومت اور جاںنثار احباب موت کے سمندر میںڈبکائیاں لگانے سے نہیں روک
پاتے۔فر عون بہت بڑا متکبر تھا،خودکورب کہلا ئے جانے کا بڑا شوق تھا ،اپنی
حیات میںبہتوں کی جانوں کا مالک ہوا کر تا تھا،اس کے ایک حکم پر سروں کے سر
تن سے جدا ہو جاتے تھے ۔مگرموت نے اسے ڈبو کر مارا۔یہی تاریخ نمرود کی بھی
ہے ۔ہلا کو اور چنگیزلاشوں پہ لاشیں اور گر دنوں کے مینارے تعمیر کرتا
تھا،جیسے یہ اس کا محبوب مشغلہ ہو ،لیکن موت کے آ ہنی پنجے سے اسے بھی نجات
نہیں ملی۔سکندر،ہٹلراور اس جیسے بہت سارے مجرمین دنیا ہیں ،جنہوں نے انسا
نی جان کی پر وا ہ نہ کی ،لیکن اپنی جان کے ضیاع سے خود کو بچا نہ سکا ۔دنیا
میںبڑے بڑے حکیم گزرے ،کسی کی حکمتیں اس راہ میں کام نہ آئیں،حکیم لقمان
جان سے گئے ،سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر خو د کو موت کے حوالے کیا۔بقراط ،سقراط
،ارسطو،بوعلی سینایہ سارے دنیا ئے عالم کے بلند پایہ حکیم گزرے،مگرموت نے
انہیںبھی نہیں بخشا ،ساری حکمتیںدھری کی دھری رہ گئیں۔معلوم یہ ہوا کہ موت
آنی ہے ،اور آکر رہے گی ،اور جب آئے گی توساری تدابیرناکام اور فلاپ ثابت
ہوں گی،اور یہ کو ئی الم غلم بات نہیں،بلکہ کائنات ابدی و فانی کے خالق کا
قول ہے ،اللہ فرماتا ہے 'ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے ' دوسری جگہ ارشاد
ہے:'خود کو انسان لوہے کے محفوظ قلعے میں بند کر لے مگرموت آئےگی"۔ایک مقام
پر فر مایا :"اور جب آئیگی تو ایک لمحہ کےلئے اس میںتقدیم ہوگی اورنہ تاخیر
'۔یہ ساری باتیںحیات وموت عطا کر نے والے اس معبودحقیقی کی ہیں،جس نے آسمان
و زمین کی تخلیق سے 50ہزار سال قبل خلائق عالم کی تقدیر لکھوادی۔یہی وہ
سچائی ہے کہ دنیامیں اب تک کوئی شخص ایساپیدا نہیںہوا ،جس نے موت کا انکار
کیا ہو ۔انسان بہت دلیر ہو سکتاہے ،بڑے بڑے حقیقی اور جھو ٹے دعوے کر سکتا
ہے،لیکن موت کے سامنے سارے فرعون اور جبا برئہ و قت گھٹنوں ٹیکے نظر آتے
ہیں،اور جب موت آتی ہے تو جہاں ہوںجس حالت میں ہوں انہیںجانا پڑتا ہے ،کسی
طرح کے عذر کی مہلت نہیںملتی۔موت کے تعلق سے ایک ہم بات کا ذکر ضرو ر ی ہے
کہ قیامت کے قیام اورجزاءوسزاکے ثبوت کیلئے یہ موت سب سے بڑی دلیل ہے ان
لوگوں کیلئے جوقیامت کے منکر ہیں،جزاءوسزا کو لایعنی اوربکواس تصورکرتے
ہیں،کیوں کہ حیات جس طرح اللہ کی رحمت ہے ،اسی طرح یہ موت اللہ کا عین
انصاف ہے۔کس باشد کوئی اسکا منکر نہیں،اورجب ہر کسی نے اس کڑوے سچ کو مانا
ہوا ہے تو اس حقیقت کے اعتراف میں بھی اسے کسی شش و پنج کا شکار نہیں ہونا
چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ مظلومین کوانصاف دلانے کیلئے میزان قائم کرےگا،عدالت
قائم ہوگی ،اور یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ کسی شخص پر مقدمہ چلانے کیلئے
عدالت قائم ہوتی ہے ،جج بیٹھتے ہیں،مجرمین کو صفائی کاموقع
دیاجاتاہے،وکلاءدفاع کرتے ہیں،ان کے کالے کرتوتوں کی فہرست عدالت کے روبرو
پیش کی جاتی ہے ۔اب دنیا کا دستور ایساہے ،جسکی حقیقت رب العالمین کے دستور
کے سامنے کچھ بھی نہیں،تو کیاوہ اللہ جو اس کائنات کاخالق حقیقی ہے
اوردستور سازہے ،وہ بندوں کے انصاف کی خاطر،مظلومین کو بدلہ دلانے کیلئے
اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے عدالت قائم کرنے پر قادر نہیں ؟
قیامت کے قیام میں ایک بڑا نکتہ یہ بھی ہے کہ بہترے مجرمین دنیا کی نگاہوں
سے بچ جاتے ہیں،اب انکی سزا کیلئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی عدالت قائم ہو ،جہاںحق
وا لوں کو ان کا حق دلایا جا سکے ۔ |