عدل و انصاف کی تجلی سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عدل و انصاف کی تجلی سے....
زندگی اپنی جگمگا جائے....!!

عدل و قسط کائنات کا خاصہ ہے۔خالق کائنات نے کائنات اور اس میں موجود کسی بھی شے کو میزان پر مبنی قانونِ عدل پر استوار کیا ہے جس میں کہیں کوئی خامی نہیں، نہ کوئی نقص ہی نظر آتا ہے۔مَاتَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفٰوُتٍ ” تم الرحمٰن کی تخلیق میں کوئی خامی نہیں پاﺅ گے۔“ہم اپنی آنکھوں کی پتلیوں ہی پر غور کر کے دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ اِ ن کے درمیان ایک ہلکا سا بھی فرق چہرے کی خوبصورتی کو متاثر کر دیتا ہے۔ دو پیروں کے درمیان تھوڑاسا عدم توازن ہماری چال میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ انسانی اعضاءمیں خالق نے جس طرح کا توازن رکھا ہے ، اسی طرح وہ اشرف المخلوقات سے خواہشمند ہے کہ وہ بھی اپنے متوازن بدن سے ایک معتدل و متوازن کردار اور رویہ کو معرضِ وجود میں لائے جو عدل و قسط کی علامت ہو۔ ایک ایسی علامت جو حساس بھی ہو اور سنجیدگی کا نمونہ بھی۔ایک ایسا متوازن نمونہ جو ہمارے اطراف پھیلی ہوئی متوازن کائنا ت سے ہم آہنگ ہو۔یہ ضروری ہی نہیں مجبوری بھی ہے کہ اِسے بہر حال عدل و اِنصاف کا پیکر بننا ہے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیاررہنا ہے۔ظاہر ہے اِنسان آخر یہ کیسے تصور کر سکتا ہے کہ وہ ایک معتدل و متوازن بدن کے ذریعہ ایک معتدل و متوازن کائنات میں ایک غیر معتدل و غیر متوازن رویہ اختیار کرے گا اور اپنے منصف و عادل خالق کے ہاں کسی گرفت سے بچ جائے گا۔سولھویں سورة کی نوے نمبر کی آیت آج ہمارے غور و فکرکا موضوع ہے:”بیشک اللہ تمہیں عدل، غیرمتعصب رہنے ،ایک دوسرے پر احسان کرتے رہنے اوراقربین کو دیے چلے جانے کا حکم دیتا ہے۔ وہ تمہیں فحاشی،بے حیائی،منکرات،برائی،بغاوت اور سرکشی کے کاموں سے منع کرتا ہے۔اللہ تمہیں وعظ ونصیحت کرتا ہے،تاکہ تم نصیحت حاصل کرکے سدھرجاﺅ۔“ یہ وہ آیت ہے جو ہر خطبہ جمعہ میں تواتر اور تسلسل کے ساتھ ساری دنیا میں سنی جاتی ہے اور سنی جاتی رہے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج اس کے مضمون پر ہی غور کرلیا جائے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے عدل نواز مالک نے ہمیں اِس دنیا میں آزادی عطا کی ہے،فکر و خیال کی آزادی، ارادے اور عمل کی آزادی۔لیکن کیا یہ آزادی ، آزادی مطلق کے طور پر عطا ہوئی ہے؟کیایہ آزادی کسی معتدل و متوازن اُصول کے بغیر ہے؟ ہر انسان اگر بے اُصول آزادی پر عمل پیرا ہو اور من مانی زندگی کا خوگر بن جائے تو یہ دُنیا کیا اِس لائق رہ جائے گی کہ اِسے انسانوں کی دُنیا کہا جا سکے؟ظاہر ہے کہ اِس آزادی کوبرتنے کے لیے بھی کسی نہ کسی معتدل و متوازن قانون کی تابعداری ضروری ہوگی۔ورنہ اِنسانوں کی اِس دُنیا کو بھی جنگل راج بننے سے کوئی نہیںروک سکے گا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رب نے آزادی کے دائرے بھی مقرر کر دئے ہیں۔ جب اِن دائروں کو پھلانگنے کی کوشش کی جائے گی تو اِس کا سبب اِس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ انسان نے ذاتی مفاد ،اپنی انا پرستی یا اپنے غصّہ کو بے اعتدالیوں کی نذر کر دیا ہے۔ یہی بے اعتدالیاں زمین پر بسنے والے دیگر جانداروں کے لیے عدم توازن اور عدم اعتدال کا باعث بن جائیں گی۔

پھر اِس عدم توازن کے سبب ساری انسانیت جن مسائل سے دوچار ہوگی ، وہ ایک طرح سے زمین کے مالک کی جانب سے سزا ہی ہوگی جسے وہ دنیا ہی میں بھگتے گا۔آخرت کی سزا تو بعدکی چیز ہے جو نہ جانے کس قدر سخت ہوگی۔پرسکون دُنیا کے نظام ِ امن میں خلل اندازی عادل اور انصاف پرور شاہِ کائنات کو ہر گز پسند نہیں۔ ہمارے غیر متوازن اورغیر معتدل فکر وعمل اور نظریہ و رویے کی سزا ہمیں بہر صورت بھگتنی ہوگی۔ کیوں کہ اس دنیا پر ایک عادل بادشاہ کی حکومت چلتی ہے اور وہی اِس کا خالق بھی ہے۔اسکے عدل و اِنصاف کو صرف وہی دیکھ سکتا ہے جس کے دل کی آنکھ کام کر رہی ہو، جس پر بے عقلی کی عینک چڑھی ہوئی نہ ہو،جو بیداری شعور سے مالا مال ہو، اورجس میں خیر و شر کی تمیز ہو۔یہی بات ہے جس کی طرف پچاسویں سورة کی سنئتیسویں آیت میں ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے:”بیشک اس(کائنات کے پورے نظام)میں ہر اُس شخص کے لیے ضرور یاد دہانی ہے جو دل کی حاضری کے ساتھ پورے ہوش وحواس میں بات کو غور سے سنتا ہو۔“

ہمارا تجربہ بھی اور ہمارا اپنا وجدان بھی یہی کہتاہے کہ اس کائنات پر اور ہماری اپنی دنیا پر ہر آٹھ جانب سے صرف اور صرف اللہ رب العالمین کا راج ہے۔یہ انسان کی اپنی نادانی یا اُس کی سمجھ کی کھوٹ ہے جو وہ یہ باور کرتا اور کراتا رہتا ہے کہ فلاں قوم یا فلاں ترقی یافتہ یا طاقتور حکمراں یا فلاں مضبوط ملک یا یونی پولار سپر پاور دنیا کو چلا رہا ہے۔یہ سراسر نادانی اور معاشرے میںعدم توازن پیدا کرنے کی باتیں ہےں ۔ کیا یہ ہمارا مشاہدہ نہیں کہ جب قدرتی آفتیں نازل ہوتی ہیں، تو دنیا کے عام لوگوں کو چھوڑیے، ترقی یافتہ ممالک اپنی تمام تر قوت و حشمت کے ساتھ بے بسی کا پیکر بن جاتی ہیں اور موسم کی بے اعتدالی کا کوئی مداوہ ان کے پاس نہیں ہوتا۔جاپان کی سونامی میں جاپان جیسی معاشی اور امریکہ جیسی قوت کی عطا کردہ فوجی طاقت بے بسی کا کس قدر عبرت ناک منظر پیش کر رہی تھی۔ یہ ہم نے حال ہی میں دیکھ لیا ہے۔ جاپان کی تباہ حال آبادی سے تمام تر اِنسانی ہمدردی ، اُس کی باز آبادکاری کے لیے تمام تر نیک تمناﺅں اور دلی دعاﺅں کے ساتھ ہم یہ بات پھر بھی عرض کریں گے کہ اِنسانی عظمتوں کا اِلٰہی آفتوںسے کوئی مقابلہ نہیں اور نہ ہو سکتا ہے، سوائے عبرت ناک تماشہ بینی کے۔ اسی بات کو کس خوبصورتی کے ساتھ ہمارے رب نے ایک سوال کی شکل میں ہمارے سامنے ترپنویں سورة کی چوبیس اور پچیسویں آیت میں رکھا ہے:”کیا انسان کی ساری تمنائیں،ساری آرزوئیں پوری ہوجاتی ہیں؟نہیں، بلکہ دنیا میں بھی اللہ ہی کا حکم اور اُسی کا فیصلہ چلتا ہے اور آخرت بھی اسی کی مرضی چلے گی۔“نادان ہیں وہ لوگ جو دُنیا کے کچھ افراد یا گروپوں کو، کچھ معاشروں یا ملکوں کو پر شوکت سمجھ کر اِن کے آگے سر جھکا دیتے ہیں اور پھر ایک اور عدم توازن کو راہ پانے کا موقع دے دیتے ہیں۔

صدیوں سے ہمارا یہ تجربہ رہا ہے کہ دنیا کا مالک اس دنیا کے ہر انسان کو بلا تفریقِ مذہب و ملت، قوم و نسل، علاقہ یا ملک، اس کی ضرورت کی ہر چیز مسلسل سپلائی کئے جارہا ہے۔ اسکے پاس نہ کوئی تعصب ہے نہ جانبداری۔کہیں کوئی بے اعتدالی نہیں، عدم توازن نہیں۔وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کون اُس کا فرمانبردار بندہ ہے، کون نافرمان ۔اِس کا تذکرہ الکتاب کی سترہ ویں سورةکی بیسویں آیت میں موجود ہے: ”ہر ایک کو ہم ہی دیتے ہیں ،اِنہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں(جنہوں نے اپناہدف اس دنیا کو بنارکھا ہے)اور اُنہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں(جنہوں نے اپنا ٹارگیٹ آخرت کو بنایا ہے)۔(کیا یہ عظیم بخشش نہیں جو انسانوں کو عطا ہو رہی ہے؟اوریہ بھی کہ) آپ کے رب کی بخشش وعطا کوکوئی روک بھی نہیں سکتا۔“

یہ کس قدر دل لگتا عدل ہے مالکِ کائنات کا....!! وہ انسانوں کے بیچ کبھی بھید بھاؤ نہیں کرتا۔اُس کی نوازش سب کے لیے یکساں ہے۔ سورج کی روشنی ہر ایک کے لئے یکساں فائدہ مند بنائی ۔بارش بھی اس نے تمام انسانوں کے لئے برسائی۔ آکسیجن تمام مخلوق کو یکساں طور سے سپلائی کررہا ہے وہ ،کسی قسم کا خاص Favour کسی کے لیے نہیں۔یہ سب اُس کے عادل ہونے کی نشانیاں ہیں۔اُس کے بے مثال عدل کی علامتیں ہیں۔فرض کیجئے اس دنیا میں ایک ایسا حادثہ ہوجائے،جس کے نتیجے میں تمام ہی انسان بیک وقت فنا ہوجائیں اور صرف ایک ہی انسان زندہ بچ جائے تب بھی ہم اِنشاءاللہ، دیکھیں گے کہ اس زمین کی مذکورہ تمام نعمتیں صرف اور صرف اُسی ایک انسان کی خدمت پر کمر بستہ ہوجائیں گی۔ سورج،چانداور ستارے اسی ایک آدمی کی خدمت میں ہاتھ باندھے کھڑے ہونگے،یہاں تک کہ اس انسان کے کالے یا گورے ہونے کی وجہ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، نہ ہندو یا مسلم ہونے پر، نہ انڈین یا امریکن ہونے پر۔ایسی عدل آفریں حقیقت ہماری نظروں سے کیوں اوجھل ہو جاتی ہے جب ہمارے ہاتھ میں اختیارات آجاتے ہیں؟ اور کیوں ہم اختیار ات کے حصول کے بعد غیر متعصب اور نِش پکش نہیں رہتے؟ووٹوں کی سیاست کے زمانے میں توہم یہ منظر اپنی آنکھوں سے کئی بار دیکھ چکے ہیں اور آئندہ بھی دیکھتے رہیں گے کہ با اختیار لوگ اُن ہی کو نوازتے ہیں جنہوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ انہیں اقتدار بخشا ہے اور جنہوں نے ووٹ نہیں دیا وہ محرومی اور تعصب ، دونوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

لیکن ہمارا مالک اپنی کتاب کے ذریعہ ہماری پرسنالٹی کو اس طرح تعمیر کرنا چاہتا ہے کہ ہم ہرحال میں عدل وانصاف پر قائم رہیں ،چاہے یہ عدل و انصاف دشمن ہی کے ساتھ کیوں نہ کرنا پڑے ۔الکتاب کے ذریعہ ہماری تربیت اِس طرح کی جاتی ہے کہ ہمارا کیرکٹر مضبو ط ہو، سوسائٹی میں ہم قابل اعتباربنیں،سچائی اور حق کے علمبردار بنیں ۔جھوٹ اور باطل کی ہم کبھی تائیدنہ کریں۔حق کو تسلیم کرنے میں ہماری راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے ۔ دیکھیے کس قدر زبردست حکم ہے ہمارے لیے۔چوتھی سورة کی ایک سو پینتیسویں آیت میں : ”اے لوگوں جو ایمان دار ہو! ہمیشہ اللہ کی خاطر حق اورانصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے رہا کرو، چاہے تمہاری حق گوئی اور گواہی تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے والدین یا تمہارے رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جارہی ہو ۔ اگر تمہارے رشتہ دار مالدار(خوشحال ) ہوں تب بھی اور( غریب) اور تکلیف میں ہوں تب بھی، دونوں ہی صورتوں میں اللہ ہی کو اولیت حاصل ہوگی کہ تم اس کی خاطر حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے سچی گواہی دو۔دیکھو ،تم اپنی من مانی نہ کرنا کہ عدل اور انصاف نہ کر سکو۔ اور اگر تم زبان موڑنے کی کوشش کرو گے یا حق کی گواہی دینے سے کتراﺅ گے، تو بیشک اللہ تمہاری ہر حرکت کی پوری طرح خبر رکھے ہوئے ہے۔“

عدل و اِنصاف ہر حال میں مقدم ہونا چاہئے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب اللہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ مختلف اسلوب میں تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔مثلاً ماں باپ کو اف تک نہ کہا جائے، ان کو جھڑکا نہ جائے، ان کے ساتھ انتہائی نرمی اور رحمدلی کے ساتھ پیش آیا جائے، ان کا ادب و احترام کیا جائے۔ان کی خدمت کوہمہ تن تیار رہا جائے اور اِن کے لیے اپنے بازوؤں کو پھیلائے رکھا جائے۔ کتاب اللہ میں عظمتِ والدین کے اِظہار اورخدمتِ والدین کی تاکید کے اِن عظیم اور واضح احکامات کے باوجود وہی الکتاب ہمیں حکم دیتی ہے کہ معاملہ اگر عدل و انصاف کی گواہی کا سامنے ہو اورخدا نخواستہ والدین اِس کے ہدفTargetبننے والے ہوں توشہادتِ حق سے قطعاً گریز نہ کیا جائے، بات سچ ہی کہی جائے اور آخر کارحق و انصاف ہی کا ساتھ دیا جائے۔ پھر چاہے وہ والدین یااقربا ہوں،قوم یادیش ہو،امیریاغریب ہو۔گواہی بہر حال حق کی دی جائے گی،کسی بھی جانبداری کے بغیر، کسی بھی تعصب سے اُوپر اُٹھ کر۔اسی رویے ہی میں رب نے خیر کاسامان رکھا ہے اوراِسی میں اُس کی رضا بھی ہے ،تقوی کے زیادہ قریب یہی عمل ہے۔ پانچویں سورة کی آٹھویں آیت میں یہ اعلان موجود ہے:”.... ہمیشہ انصاف اور عدل پر قائم رہا کرو،(غیر متعصب رہو،نش پکش رہو)یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے....“ ہم کو اپنے رجحانات،سوچوں، رویوں اور لین دین کے معاملات پر ازسر نو غورکرنا ہوگا۔اور ایک معتدل اور Balanced کردار بنانے کے لیے خود کو قرآن شریف کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرنی ہوگی۔

ابتداءمیں پیش کی گئی آیت کے اگلے حصے میں بھی ہمیں جو حکم دیا جارہا ہے، اِس میں احسان کی بات کہی گئی ہے۔: وَالاِحسَان ۔”احسان کرتے رہا کرو،حسن سلوک کرتے رہاکرو۔“یہ دراصل تعلقات کے مابین اعتدال و توازن کو مزید مستحکم کر نے کاایک ایسا گُر ہے کہ پھر اِ س کے بعد تعلقات میں کسی عدم توازن کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔”احسان “ کیا ہے؟ آگے بڑھ کر نیکی کرنے کو ”احسان“ کہتے ہیں۔یہ تعلیم ہمیں سورة النساءکی چھیا اسی ویں آیت میں ان الفاظ میںملتی ہے:”اورجب کوئی تمہارے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کرے،(تمہیں نیک تمنائیں پیش کرے) توجواب میں تم بھی اُسے اس سے بھی زیادہ نیک تمناؤں کا اظہارکیا کرو،(مزید اچھائی کے ساتھ اسے نیک تمناﺅں کا جواب دیا کرو)یا کم سے کم تمہاری نیک تمناﺅں کی شدت اُس قدرضرور ہوجس شدت کے ساتھ یہ تمہیں وصول ہوئی ہیں۔یہ حقیقت ہمیشہ دل و دماغ میں مستحضر رہنی چاہیے کہ مالکِ اِنسانیت ہم سے ہمارے ہرجذبہ عمل اورجذبہ ردّعمل کا حساب لینے والا ہے۔ کوئی ہمیں السلام علیکم کہے تو ہمارے رب کا فرمان ہے کہ اس سے زیادہ اسے واپس کرو، جیسے” وعلیکم السلام“ کے ساتھ” و رحمة اللہ“۔ اور اگر ہمارا سینہ اِس ظرف سے بھی خالی ہو جائے تو جواباً کم از کم وعلیکم السلام تو ضرور کہا جائے ورنہ جواب نہ دیتے کا قرض تو باقی رہ ہی جائے گا۔ظاہر ہے آخرت میں ایسے سارے چھوٹے بڑے قرضوں کی ادائیگی لازمی ہو گی،بھگتان دلانے والا کوئی اور نہیں خود مالک کائنات ہوگا۔اِس سے پہلے کہ وہاں کی کوئی ادائیگی ہم پر واجب الادا رہ جائے، جو ہمارے لیے بڑی بھاری ثابت ہونے والی ہے ،ہمیں یہیں ساری ادائیگیوں کاSettlementکردینا چاہیے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں لینے والوں کی بھیڑ جمع ہو جائے اور ہمارے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ باقی ہی نہ رہے۔ زبانی جمع خرچ کے بجائے، نقد میں نو ادا کرنا اچھا ہوگابہ نسبت اِس کے کہ ادھار میں سولہ ادا کرنے کی نوبت آ جائے ۔

یہ تماشہ بھی بارہا دیکھنے کو ملتا رہتا ہے کہ غیر معتدل اور غیر متوازن مزاج کے حامل لوگوں کے درمیان سلام اور دُعا کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے سینوں میں کینہ بھی پلتا رہتا ہے، دشمنیاں بھی پالی جاتی ہیں۔!! سوال یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ہمارا سلام و دعا کا رشتہ ہے توپھر موقع بہ موقع اس پر ہمارا ہاتھ کیوں اٹھتا رہتاہے؟ ہم اس کے نقصان کے کس لیے درپے رہتے ہیں؟ہم اوپر سے محبت اور اندر سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے کہ لوگ ہمارے تئیں خوش اخلاقی اور محبت کا مظاہرہ کریںاور ہم اپنے دلوں میں اُن کے لیے نفرت پالیں؟حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے پر احسان کرنا اوربڑھ چڑھ کر نیکی کے کام انجام دینا، ماحول میں عدل و اِنصاف کی غیر محسوس خوشگواری گھول دینے کا باعث بنتا ہے۔ایسے اعتدال پسند محسن انسان کا کیریکٹردوسروں کے لئے ایک مثالی کیریکٹر بن جاتا ہے۔کیونکہ اُس کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ خود کبھی اپنے محسنوں کے احسانات کو بھلاتا نہیں اور معاشرے میں زندگی کے ہر شعبے میں عدل و اِنصاف کی تجلی کو عام کرنے کے لیے اِنسانیت کے مختلف طبقات میں خدمت کی طرح ڈالتا ہے ۔ وہ یہ نہیں تصور کرتا کہ صرف کمزور طبقات ہی خدمت کے مستحق ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کے طاقتور طبقات بھی کسی دوسرے پہلو سے خدمت کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر اِس کا شعور آجائے تو پھر کبھی معاشرے میں کسی سطح پر بھی عدل و اِنصاف کے منافی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔یہ وہ کردار ہے جس کا اعلیٰ نمونہ جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے جن کے عمل اور ارشادات میں ہمیں ایک دوسرے پر احسان کی تلقین بدرجہ اتم ملتی ہے۔:”....وَعَن حُذَیفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ لَا تَکُونُوا اِمَّعَةً تَقُولُونَ اِن اَحسَنَ النَّاسُ اَحسَنَّا وَ اِن ظَلَمُوا ظَلَمنَا وَلٰکِن وَطِّنُوآ اَنفُسَکُم اِن اَحسَنَ النَّاسُ اَن تُحسِنُوا وَ اِن اَسَآوُوا فَلَا تَظلِمُوا ۔(تَرمَذِی شریف)”حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اِمَّعَہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو:ا گر لوگ ہمارے ساتھ اچھاسلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور اگر لوگ ہمارے ساتھ براسلوک کریں گے تو ہم بھی براسلوک کریں گے۔ بلکہ تم اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کروکہ اگر لوگ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں نہ کریں تم احسان کرتے رہوگے اورلوگ تمہارے ساتھ برا بھی سلوک کریں، تب بھی تم ان کے ساتھ برا سلوک یاظلم و زیادتی نہیں کرو گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِس اِرشاد کے عملی مظاہروں کے نمونے ہمارے لیے چھوڑے ہیں،اور اِس کے نتیجے میں دنیا کو جو امن و امان ، عدل و اِنصاف میسر آیا تھا، ایسا عدل و اِنصا ف کا ماحول چشمِ فلک نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔

کوئی ایساخوگرِ عدل و انصاف ہے، جو مثالی فساد فی الارض کے اِس دور میں اپنی ذات سے عدل و انصاف کی تجلی چار سو بکھیردے اور اِس معتدل کائنات سے ہم آہنگ ہو کر اپنی دنیا کو بھی عدل و انصاف سے ہم آہنگ کردے۔؟؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83318 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.