اسلام سر بلند تھا، ہے ،اور رہے گا، اس کی فطرت میں اﷲ
تعالیٰ نے سربلندی اور مکمل سرفرازی رکھی ہے اور مزید اس کی حفاظت اور
سربلندی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذ مے لے رکھا ہے اﷲ تعا لیٰ قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے ۔ وانا لہ لحافظون ۔دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ اسلام کے تحفظ اور
بقا کے بارے میں فرماتاہے ’’ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نور کو اپنی پھو
نکوں سے بجھادیں ، حالانکہ اﷲ کو اپنے نور کی تکمیل کے سوا ہربات نا منظور
ہے چاہے کافروں کو یہ بات کتنی ہی بری لگے۔ تو ضیح القرآن مفتی تقی عثمانی/
سورہ توبہ:۳۲/ مشہور مفسر ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں ۔ اﷲ
تبارک و تعالیٰ کو غلبہ اسلام منظور ہے ۔ فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا
ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ نور الہٰی بجھادیں ہدایت ربانی اور دین حق کو
مٹادیں تو خیال کرلو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب
کی روشنی بجھانی چاہے تو یہ ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح یہ لوگ بھی نور رب کے
بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوششیں کریں آخر عاجز ہوکر رہ جائیں گے۔
ضروری بات ہے اور اﷲ کا فیصلہ ہے کہ دین حق ، تعلیم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
کا بول بالا ہوگا تم مٹانا چاہتے ہو اﷲ اس کو بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے
اﷲ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی تم گو ناخوش رہو لیکن آفتاب ہدایت
بیچ آسمان پہنچ ہی رہے گا۔ابن کثیر جلد دوم ۳۴۱/
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد کا مقصد بھی دین کی سربلندی ،سرفرازی
اور قیامت تک دین کا غلبہ تھا ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکمل طور سے اس فرض
منصبی کی تکمیل کر کے دنیا سے تشریف لے گئے۔قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے آپ
کی آمد کا مقصدبیان کیا ہے۔ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہر ہ
علی الدین کلہ۔ وہ (اﷲ ) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچادین
دے کر بھیجاتاکہ اس کو تما م دینوں پر غالب کردے اور اﷲ کافی گواہ ہے ۔
تفسیر ماجدی سورہ الفتح ۲۸ / اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد
عثمانیؒ لکھتے ہیں۔ ’’اس دین کو اﷲ نے ظاہر میں بھی سینکڑوں برس تک سب
مذاہب پر غالب کیااور مسلمانوں نے تمام مذاہب والوں پر صدیوں تک بڑی شان و
شوکت سے حکومت کی اور آئندہ بھی دنیا کے خاتمے کے قریب ایک وقت آنے والا ہے
جب ہر چہار طرف دین حق کی حکومت ہوگی باقی حجت ودلیل کے اعتبار سے تو دین
اسلام ہمیشہ ہی غالب رہا کیا اور رہے گا‘‘۔
اب آپ اس پس منظر میں سوچئے کہ دین کا غلبہ کیسے ہوگا اور کیسے نور توحید
اور غلبہ توحید کی تکمیل ہوگی اس کی اب تک ہم نے کوئی پلاننگ بنائی ہے کوئی
خاکہ ہمارے ذہن میں ایساموجود ہے جس سے روح اسلام اور غلبہ اسلام کے عملی
طور پر نفاذکی کوئی شکل زمینی سطح پر وجود پذیر ہویا اس کی امکانی کوشش اور
پلاننگ بھی ہمارے ذہن میں بطور نیت ہی موجود ہو کیو نکہ ہو سکتا کل یہی نیت
حقیقت میں تبدیل ہوجائے ۔
واقعہ یہ ہے جو کچھ کیا ہے اور جو نہیں کیا،کہاں غلطیاں اور چوک ہوئی،کن کن
میدانوں میں کام کرنا تھا اور کہاں کام نہیں کیا،مسلمانوں کی حالت پہلے کیا
تھی اور اب کیا ہے،معاشی استحکام کتنا ہوا ہے،تعلیمی گراف اس وقت کیا تھا
اور اب کیا ہے،ملی، سماجی سیاسی اور دینی شعور کتنا بیدار ہوا ہے،ان سب
باتوں پر احتساب کی شدت سے ضرورت ہے؛ لیکن احتساب سے پہلے ہمیں یہ بھی سو
چنا ہو گا کہ ہم ان چیزوں سے اتفاق بھی رکھتے ہیں یا نہیں اگر اتفاق ہے تو
پھر احتساب ممکن بھی ہوگا اور آسان بھی لیکن اگر اتفاق ہی نہیں تو پھر
احتساب کا یہ امر مشکل اور ناممکن ہوگا،اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا
بلکہ احتساب کا عمل بے سود ہوگا۔
اسلام کی سربلندی کے لئے پہلا احتساب ایمان و یقین اور عقل و شعور کی پختگی
پر کرنا ہے،کیوں کہ ایمان و یقین کے بغیر ہر نقش نا تمام ہے اگر ایمان اور
یقین مضبوط نہیں تو پھر زندگی کے تمام مرحلے پیچیدہ ہی پیچیدہ ہیں اگلی
تمام راہیں اور راستے مسدود ہیں ،کیوں کہ بغیر ایمان کی پختگی کے ہر
انقلابی قدم مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو ہواکے ہلکے سے جھو نکے سے ٹوٹ کر
بکھر جاتاہے،اس لیے اول مرحلے میں ایمان و یقین کی کیفیت پر احتساب کی
ضرورت ہے۔
اسی طرح جہاں ہمیں بہت سے میدانوں میں کام کی اشد ضرورت ہے وہیں اپنی سماجی
حیثیت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی طرف پیش قدمی شروع کردینی چاہئے کیوں
کہ جب تک ہم سماجی طور پر اپنی حیثیت کا لوہانہیں منوالیتے ہیں اس وقت تک
کسی دوسرے انقلاب کی بابت سوچنا یا غور و فکر کرنا بے فا ئدہ ہوگابلکہ جگ
ہنسائی ہوگی کیوں کہ دنیاکے تمام انقلاب سماج ہی سے ہوکر گزرتے ہیں ۔ اور
سماجی اعتبار سے ہم اس وقت جاں بلب ہیں یعنی ہماری سماج میں جو حیثیت ہونی
چاہئے تھی اس پر ہر اعتبار سے سوالیہ نشانا ت لگے ہوئے ہیں مثلا ایمانیات
اور عقائد سے لیکر معاشیات ، سماجیات، اخلاقیات ،سیاسیات اور اپنی تہذیب و
ثقافت میں ہماری حیثیت کمزوری کے نچلے سطح تک پہنچی ہوئی ہے بلکہ کچھ
میدانوں میں معاصر قوموں کے مقابلے میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہے ۔ جبکہ
سماجی انقلاب کے بغیر کسی دوسرے میدان میں کامیاب اور بامراد نہیں ہوسکتے
ہیں سربلندی اور سرفرازی کی بات اور خیال تو کجا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
مکی زندگی اور سماج میں سب سے پہلے اپنی حیثیت اور شخصیت کا اپنے اخلاق
،معاملات اور کردار کے اعتبار سے مکمل تعارف کرایالوگ آپ کو صادق اور امین
کہتے تھے آپ کا بے حد احترام اور اعزاز کیا کرتے تھے ۔آپ کو اپنے فیصلوں
میں حکم بناتے تھے، انہیں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی ذات پر پورا یقین تھاوہ آپ
کے اخلاق اور کردار کا دل سے اعتراف کرتے تھے۔ ’’جب آپ کے پاس فرشتہ پہلی
وحی لیکر آیا توآپ پر ایک کپکپی طاری تھی اور حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا مجھے
جلد اڑھا دو مجھے جلد اڑھادو مجھے کچھ خطرہ محسوس ہورہا ہے ۔ حضرت خدیجہ ؓ
نے پورا واقعہ سننے کے بعد آپ کو تسلی دی اور یہ فرمایا ’’ ہرگز نہیں ۔
خداکی قسم اﷲ تعالیٰ آپ کو کبھی ذلیل و رسوا نہیں کریگا، آپ صلہ رحمی اور
رشتہ داری کا پا س و لحاظ کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں محتاجوں
کے کام آتے ہیں مہمان کی ضیافت وخاطر مدارات کرتے ہیں راہ حق کی تکلیفوں
اور مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں‘‘۔/بنی رحمت/ ۱۵۲ /
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کی تعریف بیان کرتا ہے جو انسانیت کی نفع
رسانی اور خدمت کو اپنا مشن بنالیتے ہیں۔واما ما ینفع الناس فیمکث فی
الارض۔اور وہ جو کام آتا ہے لوگوں کے سو باقی رہتا ہے زمین میں /ترجمہ شیخ
الہندسورہ رعد آیت ۱۷/اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے یہی بیان کیا ہے کہ جو چیز
نفع بخش ہوگی وہی باقی رہے گی اور اسی کو استحکام نصیب ہوگا۔ حضرت ابو مو
سیٰ اشعری بیان کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے
مجھے جو ہدایت اور علم دیکر مبعوث فرمایا س کی مثال اس بارش کی سی ہے جو
زمین پر بر سی اس زمین کے اچھے حصے نے اس بارش کا اثر قبول کیا فصل اچھی
ہوئی چارہ اور گھاس خوب اگا ۔ زمین کی ایک قسم ایسی تھی جو پانی روک لیتی
ہے جس سے اﷲ تعالیٰ لوگوں کوفائدہ پہنچاتا ہے لوگ خود یہ پانی پیتے ہیں
اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں اور اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہیں ۔زمین کی ایک
تیسری قسم ہوتی ہے چٹیل شور اور ویران نہ پانی کو روک سکتی ہے نہ فصل اور
گھاس اگا سکتی ہے ۔ پس اسی مثال کے مطابق ایک شخص ایسا ہو تا ہے جو دین کو
سمجھ کر حاصل کرتاہے اس سے فائدہ اٹھاتاہے اور جو کچھ اﷲ نے مجھے دے کر
بھیجا ہے اسے خود بھی سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھا تا ہے اور چٹیل
زمین کی مثال اس شخص کی ہے جس نے اس ہدایت کو نہ سر اٹھاکر دیکھا اور نہ اس
پر توجہ دی اور اﷲ تعالیٰ نے جو ہدایت دیکر مجھے بھیجا ہے اسے قبول نہ کیا۔
/مسلم کتاب الفضائل /
سماجی ضرور توں اور سماجی اہمیت کے پیش نظر ہمارا رشتہ سماج کے تمام طبقات
کے ساتھ مضبوط ہوناچاہئے اس میں پسماندہ غریب اورامیر سب کے سب ہمارے
کرادار ،اخلاق اور معاملات کے ایسے معترف اور مداح ہوں کہ دیگر معاصر قومیں
آپ کے اوپر رشک کرنے لگیں ۔ مزید اس کام کے بغیر سماجی قیادت و سیاست اور
دعوتی مشن کوایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا یا جا سکتا ہے اور نہ کسی خوش گوار
انقلاب کی راہ متعین کی سکتی ہے۔
دیکھنے میں ہمیشہ یہ آتا ہے کہ ہندوستان میں ہم نے تمام میدانوں میں کچھ نہ
کچھ اپنی شمولیت کا احساس اور اعتراف کرایا ہے ۔اور ابھی کرارہے ہیں تاہم
اچھے سماجی آئیڈیل اور سماجی خدمت گار کے طور ہم پیچھے رہے ہیں جبکہ
ہندوستان میں ہمیں سماجی خدمت کے بہت سے مواقع فراہم ہوئے ہیں لیکن ہم بہ
حیثیت مسلمان کے اسلام کی خوبیوں کا دیگر معاصر قوموں میں خاطر خواہ اعتراف
اور تعارف نہیں کراپائے۔ جاری
|