"مذہب" آج کے دور میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے
انسان پر چوری، زنا, ڈاکہ، حتی کہ بعض صورتوں میں قتل بھی جائز ہوتا پایا
گیا ہے۔مذہب کے علمبردار جس طرف چاہیں اسکا رخ موڑ لیں۔اگر کسی بری چیز میں
انھیں اپنی بھلائی یا ان لوگوں کی (جن کے نوٹوں پر وہ دین کو آگے پہنچا رہے
ہوتے ہیں بلکہ شاید یہ کہنا بجا ہو گا کہ دین کو بیچ رہے ہوتے ہیں) تو وہ
مذہب میں کسی نہ کسی طرح جائز بنا دی جاتی ہے۔یہاں منبر پہ کھڑا شخص اس بات
کا تو ہزار دفعہ ذکر کرے گا کہ اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے
مگر کبھی بھی اس عورت کا ذکر نہیں کرے گا جس کے خاوند کی میت کے ساتھ اس کی
روح بھی پرواز کر گئی بس اب وہ زندہ لاش بن کر اس معاشرے کے آلام سے لڑ
رہی۔اس معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مذہب میں اسلام کے نام پر صرف غریب
کی حق تلفی ہوتی خواہ وہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔ ماں باپ بیٹیوں سے محبت کے
قصیدے پڑھتے نہیں تکھتے مگر آخر میں انھیں زندہ درگور کر کے جاتے۔یہاں مسجد
میں کھڑا شخص حقوق الحباد پہ لمبا چوڑا درس تو دیتا ہے مگر گھر کے باہر
کھڑے زخمی اور لہو لہان شخص کو گھر کا دروازہ نہیں پار کرنے دیتا۔یہاں
پنچائیت میں بیٹھے لوگ دوسروں کی بیٹیوں کو حق دلوانے کی باتیں کرتے اور
خود اپنی بیٹیوں کہ نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی اور ذہنی غلام بنا دیتے۔اسی
معاشرے میں اگر بیٹا پسند کا اظہار کرے تو ماں باپ سینہ تان کہ اپنے بیٹے
کی اس بہادری کے قصے سناتے۔اسی جگہ اگر بیٹی یہ کہہ دے تو اس پہ بدکرداری
کا ٹیگ لگا دیا جاتا۔اس نے نہ صرف ماں،باپ بلکہ پورے خاندان کی ناک کٹوا
دی۔اور پھر باقی کی ساری زندگی اسی لعن و طعن میں گزر جاتی۔مذہب کا سہارا
لیتے ہوئے ہم نے لوگوں کے ذہنوں کو بیڑیاں لگا دی ہیں اور جہاں تک وہ
بیڑیاں پہنچ سکتی صرف وہی زندگی ہے۔کبھی کسی نے ماضی پہ سرسری نظر دوڑانے
کی کوشش نہیں کی کہ مذیب تھا کیا اور ہم نے اسے بنا کیا دیا۔حقیقت دراصل جہ
ہے کہ ہم مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے اندر سے کھوکھلے اور مرے ہوئے لوگ ہیں۔
|