ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے میں عدلیہ نے یکے بعد دیگرے
تیسری بار یوگی ادیتیہ ناتھ کو چپت لگاکر انہیں رہا کردیا ۔ انسان دوسروں
کی دشنام طرازی سے تو اپنے آپ کومحفوظ رکھ سکتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر کفیل خان
کے ساتھ ہوا لیکن یوگی جیسے لوگوں کو ان کی خودساختہ رسوائی سے کوئی نہیں
بچا سکتا ۔ ڈاکٹر کفیلیوگی ادیتیہ ناتھ کے حلقۂ انتخاب گورکھ پور کےباشندے
ہیں ۔ وہ اگر کوئی بدعنوان ابن الوقت سیاستداں ہوتے تو اب تک محسن رضا کی
مانند یوگی سرکار میں وزارت سے نوازے جاتے لیکن وہ تو بیچارے ایک ایماندار
، فرض شناس اور نڈر ڈاکٹر ہیں ۔کسی زمانے میں وہ شہر کے سرکاری اسپتال بی
آر ڈی میں بچوں کےمعالج ہوا کرتےتھے۔ ستمبر 2017 میں جب سرکار کی کوتاہی کے
سبب اسپتال کے اندرآکسیجن کی کمی ہوگئی تو ڈاکٹر کفیل نے ذاتی خرچ راتوں
رات سیلنڈر مہیا کراکر کئی بچوں کی جان بچائی۔ ان کے اس اقدام کو ذرائع
ابلاغ نے خوب سراہا مگر یوگی کی کینہ پروری اسے برداشت نہیں کرسکی۔انہوں نے
اپنی کوتاہی کا الزام الٹااسپتال کے ڈاکٹروں پر جڑ دیا اور کئی معالجوں
سمیت ڈاکٹر کفیل کو جیل کی سلاخوں کے پیچھےٹھونس دیا۔
اتر پردیش کی اندھیر نگری چوپٹ راج میں تقریباً آٹھ ماہ جیل کے اندر گزارنے
کے بعد اپریل 2018 میںڈاکٹر کفیل رہا کردیئےگئے کیونکہ یوگی کی ریاستی
حکومت تمام تر تحقیق و تفتیش کے بعد ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکی ۔
اس طرح بالآخراپنی ناک کٹا کر انہیں 'کلین چٹ' دینے پر مجبور ہوگئی ۔ اس
طویل گرفتاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر کفیل نے جیل کے اندر سے یوگی
سرکار کی خدمت میں ساورکر کی مانند کوئی معافی نامہ نہیں لکھا۔ کسی بچولیے
کے ذریعہ ظالموں کی خدمت میں رحم کی درخواست نہیں بھیجی بلکہ جیل کے اندر
سے اس شیر دل ڈاکٹر نے 10 صفحات پر مشتمل ایک طویل خط لکھا جس میں اترپردیش
کی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے بعض اعلی افسران پر سنگیں الزامات لگائے
اور بچوں کی اموات کے لیے ببانگ دہل سرکار ی لاپرواہی کو موردِ الزام
ٹھہرادیا ۔ اس خط میں یہ بھی درج تھاکہ انہیں حکومت کی ’نااہلی' کو چھپانے
کے لیے ’بلی کا بکرا' بنایا گیا ہے ۔
ذرائع ابلاغ میں اس خط نے زلزلہ برپا کردیا۔ جہاں ایک طرف ملک کے باضمیر
افراد اور جماعتوں نے ڈاکٹر کفیل کی دلیری کو سراہا وہیں حکومت کی جانب سے
ان کے خلاف گودی میڈیا نے تہمت بازی کا طوفان برپا کردیا۔ کل تک جو میڈیا
ان کو فرشتہ کہہ رہا تھا اب شیطان بناکر پیش کرنے لگا ۔ ان کے خلاف پہلا بڑ
الزام تو یہ لگا کہ 2009 میں انہوں نے ایک طبی امتحان میں کسی اور شخص کی
جگہ امتحان دیا تھا اور ان کے خلاف کاروائی بھی ہوئی تھی ۔ اس بے بنیاد
الزام کو اگر سچ مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ انہیں سرکاری
اسپتال میں ملازمت پر لیا کیوں گیا؟ اور یہ کوئی سنگین بات نہیں ہے تو اس
موقع پر اسے اچھالاکیوں جارہا ہے؟ اس سے بات نہیں بنی تو ان پر عصمت دری کے
الزام کو اچھالا گیا۔ اس کی حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹر کفیل کے خاندان کے ساتھ
کسی کی قانونی لڑائی چل رہی تھی ۔ ان لوگوں نے 2015 میں اپنی ملازمہ سے
ڈاکٹر کفیل اور ان کے بھائی کاشف پر بلاثبوت ریپ کا مقدمہ درج کروادیا لیکن
گودی میڈیا کو اس سے کیا غرض ؟ اس کا کام تو گھوس کھاکر گوبر پھیلانا ہے۔
جیل سے رہائی کے بعد اگر ڈاکٹر کفیل حکومت کے وفادار بن کر صرف چاکری تک
اپنی توجہات محدود کردیتے تو معاملہ رفع دفع ہوجاتا لیکن وہ توبہار کے
سیلاب میں مفت میڈیکل کیمپ لگا کر پھر سے میڈیا میں چھا گئے۔ اس طرح بے
غیرت سیاستدانوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے ۔ اس دوران ملک بھر میں ڈاکٹر
کفیل کو بلایا جاتا اور ان کی پذیرائی کی جاتی ۔ اس طرح یوگی جی انہیں اپنے
لیے خطرہ سمجھنے لگے ۔ یہ لوگ عوام کے جذباتی استحصال کے سوا کچھ اور تو
کرتے نہیں ہیں؟ ایسے میں اگر ڈاکٹر کفیل جیسا کوئی نڈر اور بے لوث خدمتگار
عوام کے سامنے آجائے تو عوام کا اس کی جانب متوجہ ہونا فطری عمل ہے ۔ ویسے
بھی وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یوگیاپنے حلقۂ انتخاب میں شکست کا مزی چکھ ہی
چکے ہیں۔ اس لیے اترپردیش کی بدنامِ زمانہ پولس ان کے پیچھے لگ گئی ۔
شہریت کے متنازعہ قانون سی اے اے کے خلاف مختلف مظاہروں میں انہیں بلایا
جانے لگا اور اسی سلسلے میں دسمبر 2019کے اندر انہوں نےعلی گڑھ مسلم
یونیورسٹی کے اندر بھی ایک تقریر کی ۔ اس موقع پر معروف جہد کار پروفیسر
یوگیندر یادو بھی موجود تھے اور وہ کہہ چکے تھے ڈاکٹر کفیل نے آئین کے
خلاف کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی اس کے باوجود انہیں 29 جنوری 2020 کو
ممبئی ہوائی اڈے پر پولیس نے مظاہرے کے دوران اشتعال انگیزی کا الزام لگا
کر متھرا کی جیل میں قید کردیا ۔اس معاملے میں تین دن کے اندر ڈاکٹر کفیل
کو ضمانت مل گئی لیکن ضمانتی حکم کے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے رہائی ایک
دن کے لیے ٹل گئی۔ متھرا قید خانے کے جیلر ارون پانڈے نے بتایا کہ اگلے دن
رہائی ہوجائے گی لیکن راتوں رات لکھنو میں بیٹھا ابلیسی دماغ پھر حرکت میں
آگیا اور ارون پانڈے ہاتھ ملتے رہ گئے کیونکہ اگلی صبح یوپی پولیس نے ان
پر این ایس اے (قومی سلامتی ایکٹ ) لگا دیا تھا۔
ریاستی سرکار نے اپنے اس احمقانہ فیصلے اس چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کو بھی رسوا
کردیا جنہوں نے ڈاکٹر کفیل کو ضمانت دی تھی ۔ اس بابت سپریم کورٹ کے 1985
میں ایک جاری کردہ حکم کے مطابق ’ضمانت کے فوراً بعد این ایس اے نہیں لگایا
جاسکتا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جب ڈاکٹر کفیل کے خلاف سارے مقدمات میں انہیں
ضمانت مل چکی تھی تو پھر ایک نیا کیس کیوں کیا گیا ؟ایسا سوال تو وہی پوچھ
سکتا ہے جو نہیں جانتا کہ یوگی کی اندھیر نگری میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ اس کے
بعد تین ماہ بعد بھی سرکار فردِ جرم عائد نہیں کرسکی اور معاملہ ہائی کورٹ
میں چلا گیا۔ ٹال مٹول کے دوران 10 اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ میں یوپی
حکومت نے کہا تھا، ’’فروری 2020 میں علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ نے ڈاکٹر کفیل
پر این ایس اے عائد کرنے کو منظوری دی تھی اور اس کی مدت تین تین مہینے
بڑھانے کے بعد اب اتر پردیش حکومت نے پایا ہے کہ قومی سلامتی کے نظریہ سے
ایسا کرنا ضروری ہو گیا ہے‘‘۔
اس بیان کے بعد ڈاکٹر کفیل کی والدہ نزہت پروین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو اس معاملہ کا 15 دن اندر تصفیہ کرنے
کا حکم دے دیا ۔ اس دوران اپنے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی حکومت
نے ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے ان پر عائد این ایس اے کی
میعاد میں توسیع کر کے اسے 9 مہینے کر دیا۔ کسی کی جب متھ ماری جاتی ہے تو
وہ ایسی جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ سرکار میں اگر تھوڑی بھی عقل ہوتی تو
توقف کرتی ۔ خیراب تو الہ آباد ہائی کورٹ نے رہائی کا حکم سناتے ہوئے ان پر
عائد این ایس اے کو غیر قانونی قرار دے کر ہٹا دیا ۔ اس طرح ڈاکٹر کفیل کے
ہاتھوں سرکاری رسوائی کی ہیٹ ٹرک پوری ہوگئی ۔ اس میں شک نہیں کہ یوگی کی
بددماغی کے سبب ڈاکٹر کفیل 14مہینوں تک قیدو بند کی صعوبت سہنی پڑی لیکن ان
کے ذریعہ یوگی سرکار کوجس طرح بار بار منہ کی کھانی پڑی یہ بھی تاریخ کا
ایک حصہ ہے اور ان لوگوں کے لیے مہمیز ہے جو اللہ کے بھروسے بڑے سے بڑے
ظالم و جابر کے سامنے سینہ سپر ہوکر سرخرو ہوتے ہیں ۔
|