بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قرآن مجیدمیں اﷲ تعالی نے حکم دیا ہے کہ’’ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ
لِّاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ
عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا
یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴿۳۳:۵۹﴾‘‘ترجمہ:اے نبیﷺ
اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر
اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں،یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان
لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اوراﷲ تعالی غفورالرحیم ہیــــــــــ‘‘۔اس آیت
میں لفظ ’’جلابیب‘‘استعمال ہوا ہے جو ’’جلباب‘‘کی جمع ہے،جلباب سے مراد
ایسی بڑی چادر ہے جس سے پورا جسم ڈھک جائے ۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ
عورتیں اپنی چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا ایک پلو اپنے اوپر لٹکا لیں۔حضرت
عمر فاروق کے زمانے میں قاضی شریح سے اس آیت کا مطلب پوچھاگیاتو وہ
قولاََجواب دینے کی بجائے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سے اس طرح اپنے کل جسم
کو سر تا پاڈھانپ لیاکہ صرف ایک آنکھی باہر رہ گئی۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں
کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے اپنے کپڑوں میں سے موٹے کپڑے چھانٹ کر
علیحدہ کیے اور ان سے اپنے دوپٹے بنالیے۔ایک مسلمان خاتون ام خلادرضی اﷲ
تعالی عنھاکابیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا،اتنی بڑی پریشانی کی حالت میں
خدمت اقدس ﷺمیں پیش ہوئیں اور معاملے کے بارے میں اس حالت میں
استفسارفرمایاکہ جسم مکمل طور پر چادر میں ڈھکاہواتھااور چہرے پر نقاب
تھا۔اصحاب رسولﷺ نے حیرانی کااظہارکیاکہ صدمے کی اس حالت میں بھی اس قدر
پردہ؟؟؟تو اس صحابیہ نے جواب فرمایا کہ بیٹا کھویاہے ،شرم و حیاتو نہیں
کھوئی۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اﷲ تعالی نے فرمایا کہ’’ِّ وَ اِذَا
سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ
ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ وَ مَاکَانَ لَکُمْ
اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﴿۳۳:۵۳﴾‘‘ترجمہ:’’نبیﷺ کی بیویوں سے
اگرتمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگاکرویہ تمہارے لیے اور اور
ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے ،تمہارے لیے یہ
ہرگزجائزنہیں کہ اﷲ کے رسولﷺ کو تکلیف دو‘‘۔اس آیت میں حکم حجاب کے ساتھ
ساتھ مصلحت حجاب بھی بتادی گئی۔اس آیت کے نزول سے پہلے تمام مسلمان بلاروک
ٹوک امہات المومنین کے پاس آتے جاتے تھے جبکہ کچھ مسلمانوں کو یہ بات سخت
ناگوار محسوس ہوتی تھی اور ایک بار تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کا اظہار
کر بھی دیاکہ کاش آپﷺ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیتے۔آخر کار یہ آیات
نازل ہوئیں جس کے بعد صرف محرم مرد ہی امہات المومنین کے ہاں آتے جاتے اور
باقیوں کے لیے پردے کی پابندی عائد کر دی گئی۔قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے
کہ کسی ایک فرد یا طبقے کو حکم دے کر کل امت مراد لیتاہے مثلاََنبی علیہ
السلام کومخاطب کر کے حکم دیا جاتا ہے لیکن اس سے مرادکل امت کوحکم دینا
ہوتاہے،اسی طرح یہاں بھی اگرچہ صرف امہات المومنین کو حکم دیا گیا لیکن اس
حکم کی مطابعت کل صحابیات نے کی اور مدینہ کے کل گھروں میں پردے لٹکا دیے
گئے اور عام لوگوں کاگھروں میں آناجانا بندہو گیاسوائے محرم مردوں کے۔اس
طرح سے مخلوط مجالس اور مردوزن کے آزادانہ میل جول پر کلیتاََ پابندی لگ
گئی۔
اسی سورۃ میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ’’ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ
وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرَّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی﴿۳۳:۳۳﴾‘‘:ترجمہ
(اے خواتین اسلام)اور اپنے گھروں میں رہاکرواور دورجاہلیت کی سج دھج نہ
دکھاتی پھراکرو‘‘۔اس آیت میں لفظ ’’تبرج‘‘وارد ہواہے جس کے تین معانی ہیں
۱۔اپنے چہرے اور جسم کی موزونیت اور حسن لوگوں کو دکھانا،۲۔اپنے چمکتے
زیوروں اور زرق برق لباس اور سامان آرائش کی نمائش کرنااور۳۔اپنی چال ڈھال
اور نازوانداز سے خود کو نمایاں کرنا۔پس عورت کا میدان کار اس کے گھر کی
چار دیواری ہے ،محسن نسوانیتﷺنے فرمایا کہ ’’عورت تو سراپا پردہ ہے،جب وہ
گھرسے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتاہے اور وہ اﷲ تعالی کی رحمت کے قریب تر
اسی وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہو‘‘۔ان احکامات کے نتیجے میں کسی
مجبوری یعنی تعلیم یا علاج یاصلہ رحمی کے لیے تو گھرسے نکلنا بجا لیکن محض
کھیل تماشے اور سیر سپاٹے کے لیے اس طرح گھر سے نکلنا کہ عورت کے ساتھ اس
کی تمام تر عیش سامیانیاں بھی موجود ہوں ،تو اس سے کلی طور پر منع کر دیا
گیا۔جو لوگ کسی بھی طرح سے عورت کو بلا کسی شرعی عذرکے گھر سے باہر نکالنے
کا جواز پیش کرتے ہیں وہ دراصل دانستہ یا نادانستہ اصحاب سبت کا کردار
اداکرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے اﷲ تعالی کے حرام کو حلال اورحلال کو
حرام کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے حیلے بہانے تراشے تھے پس وہ قوم
ذلیل بندر بنادی گئی اور ان کی نسل ہی ختم ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالی
اپنے احکامات اوراپنے نیک بندوں کامذاق و استہزابالکل بھی پسند نہیں ہے
۔یہودیوں کے بارے میں قرآن نے نقل کیاہے کہ ’’سمعنا وعصینا‘‘کہ ہم نے سن
لیالیکن مانا نہیں اور نافرمانی کی جبکہ مسلمانوں کے بارے میں قرآن نے
بتایا کہ ’’سمعنا واطعنا‘‘کہ ہم نے سنا اور مان بھی لیااور اطاعت و
فرمانبرداری بھی کی،سو جس جس تک یہ احکامات پہنچے اس کے ایمان کا تقاضا ہے
کہ وہ بلا چوں و چراان کو تسلیم کر لے۔
اسی طرح کاایک حکم اﷲ تعالی نے سورۃ نور میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ’’ وَ
قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ
فُرُوْجَہُنَّ وَ لَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا
وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ
زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِ
بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ
اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ
اَوْ نِسَآئِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ
غَیْرِ اُوْلِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ
لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ وَ لَا یَضْرِبْنَ
بِاَرْجُلِہِنَّ لِیَعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَ تُوْبُوْ
ٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ
تُفْلِحُوْنَ﴿۲۴:۳۱﴾‘‘ترجمہ:اے نبیﷺمومن عورتوں سے کہہ دو اپنی نظریں بچاکہ
رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا طبناؤ سنگھار نہ دکھائیں
سوائے اس کے کہ جو خود ہی ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے
آنچل ڈالے رکھیں وہ(مومن عورتیں)اپنا بناؤ سنگھار(صرف) ان لوگوں کے سامنے
ظاہر کر سکتی ہیں :شوہر،باپ،شوہروں کے باپ،،اپنے بیٹے،شوہروں کے
بیٹے،بھائی،بھائیوں کے بیٹے ،بہنوں کے بیٹے ،اپنے میل جول کی عورتیں،اپنے
لونڈی غلام،وہ زیردست مرد جوکسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے
جوعورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔وہ اپنے پاؤں زمین پر
مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو اس کا لوگوں
کو علم ہو جائے،اے مومنوتم سب مل کر اﷲ تعالی کے حضور توبہ کرو توقع ہے کہ
فلاح پاؤ گے۔‘‘اس آیت میں اسﷲتعالی نے بڑی وضاحت سے بتادیاہے کہ صرف محرم
مرد وں کے سامنے ہی اپنی زیب و زینت کااظہار کیاجا سکتا ہے اوربس۔
آواز کے پردہ سے متعلق سورۃ احزاب میں اﷲتعالی کا حکم ہے کہ’’ یٰنِسَآءَ
النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا
تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ
قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴿۳۳:۳۲﴾‘‘ ترجمہ:نبیﷺ کی بیویو؛تم عام عورتوں
کی طرح نہیں ہو،اگرتم اﷲتعالی سے ڈرنے والی ہو تو(مردوں سے)دبی دبی زبان
میں بات نہ کیاکرو کہ دل کی خرابی کاکوئی شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف
سیدھی بات کرو‘‘۔یہاں ایک بار پھر قرآن مجید نے اپنے عمومی اسلوب کے مطابق
امہات المومنین کو خطاب کر کے تو تمام خواتین اسلام کو مراد لیاہے۔اس آیت
میں عورتوں کوآواز کے پردے کی تلقین کی گئی ہے۔اسلام کے قوانین عورتوں کو
بلاضرورت مردوں سے گفت و شنید کی اجازت نہیں دیتاتاہم اگر بامرمجبوری بات
کرنی بھی پڑے تو خواتین کے لیے اﷲ تعالی کاحکم ہے کہ اپنی آواز میں نرمی
اختیار نہ کریں کہ مبادا کسی کے دل میں کوئی بری آس و امید جنم لے بلکہ
سیدھی اورصاف بات کی جائے تاکہ معاشرے کا ماحول انتہائی پاکیزہ رہے
اوراخلاقی آلودگیوں سے انسانوں کو بچایا جا سکے۔یہ تمام احکامات اگرچہ کسی
قدر دقت طلب ضرور ہیں لیکن ان کے ثمرات کو دیکھاجائے تو دنیاوآخرت کی
کامیابیوں کے نتیجے میں ان احکامات کی مشقت گویا کچھ بھی نہیں،نظروں کی
پاکیزگی براہ راست کردار پر اثر انداز ہوتی ہے اور کردار کی پاکیزگی سے ہی
نسلوں کا حسب نسب وابسطہ ہے۔
پس عورت کو چاہیے کہ اپنا ستر،جس میں منہ اور ہاتھ کے سواکل جسم داخل
ہے،چھپائے رکھے،جہاں محرم مردہوں وہاں زیب و زینت کے ساتھ آ سکتی ہے جہاں
بہت قریبی رشتہ دار ہیں وہاں بغیر زیب و زینت کے آسکتی ہے تاکہ قطع رحمی
واقع نہ ہواور جو جگہ بالکل غیر مردوں کی ہو وہاں مکمل پردے ،نقاب اور حجاب
کی پابندی کے ساتھ آئے حتی کہ اپنی آوازکو بھی شیرینی سے خالی کر کے
گفتگوکرے۔یہ تعلیمات عورت کی فطرت کے عین مطابق ہیں جس سے عورت کی نسوانیت
محفوظ رہتی ہے ،اس کی عفت و پاک دامنی کاجوہرمیلا نہیں ہوتااور عنداﷲوہ
عورت بہت بڑے اجر کی حق دار ٹہرے گی۔جوعورتیں ان احکامات کا خیال نہیں
رکھتیں تو مردوں کے ساتھ مسلسل میل جول کے نتیجے میں ان کے چہروں سے
ملائمیت و نورانیت و معصومیت رخصت ہو جاتی ہے،ان کے رویوں میں عجیب سی
غیرفطری کرختگی آجاتی ہے اورنتیجۃ وہ ایک ایسی شخصیت میں ڈھل جاتی ہیں جس
میں مامتا،زوجہ اورخواہرہ جیسے اوصاف عنقا ہو جاتے ہیں اورپھرایسی عورتوں
سے وابسطہ مردحضرات تلاش نسوانیت میں جب گھرسے باہر نظریں دوڑاتے ہیں تو
معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والا برائی کادائرہ شروع ہو جاتاہے جسے قرآن نے
کہاکہ ’’ عَلَیْہِم دَآئِرَۃُ السَّوْء‘‘کہ وہ برائی کے گھیرمیں آجاتے
ہیں۔پھروہ اپنے خلاف شریعت کاموں کا حیلوں بہانوں سے جواز ڈھونڈتے ہیں اور
ضعیف روایات،غیرمصدقہ واقعات اور کچھ غیرمستندفتاوی کاسہارالے کر وحی الہی
کی مخالفت کرتے ہیں اورگناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔جب ان کی زندگی مسلسل
انہیں گناہوں کی نذرہوجاتی ہے تو قرآن مجید کے مطابق ’’‘خَتَمَ اللّٰہُ
عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ عَلٰی سَمْعِہِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ
وَّ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴿۲:۷﴾‘ترجہ ’’اﷲ تعالی نے ان کے دلوں پر اوران
کے کانوں پرمہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں کے آگے پردہ پڑ گیاہے اوران کے
لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔ایسے لوگوں کوان کے بداعمال خوشنمابناکر دکھائے جاتے
ہیں اور ان کی ہدایت کے راستے مسدودہوجاتے ہیں؛’’ وَ زَیَّنَ لَہُمُ
الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا
یَہْتَدُوْنَ﴿۲۷:۲۴﴾ترجمہ’’شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنادیے
ہیں اورانہیں شاہراہ سے روک دیاہے پس وہ سیدھاراستہ نہیں پاتے ۔
اس طرح کے حوس نفس کے پجاری اپنی آتش حیوانیت بجھانے کے لیے خواتین کو
خوبصورت نعروں سے رجھاتے ہیں،بدکاری کی آزادی کو خواتین کی آزادی قراردیتے
ہیں،اختلاط مردوزن جیسے قبیح فعل کو خواتین کی طاقتوری قراردیتے ہیں
اورمردانہ نصاب تعلیم ہی عورتوں کو پڑھاکر اسے خواتین کی تعلیم و ترقی
قراردیتے ہیں۔یہ سیکولر تہذیب کے گماشتے ہیں جنہوں نے عورت سے اس کی
نسوانیت سلب کر لی ہے،اس کے سینے سے بہنے والے جنت کے چشموں کی جگہ اسے
ہونٹوں سے انگورکی بیٹی کا مشروب لگادیاہے،اس کے پیٹ کے مقدس اورفطری بوجھ
سے محروم کر کے اس پر معاش کابوجھ ڈال دیاہے،اس کی گود سے جنت کواس کے پاؤں
تلے لے جانے والے نفوس سے محروم کر کے اس کو اپنے پیداواری مصنوعات کی
مشہوری وبڑھوتری کا ذریعہ بنالیاہے ۔آج اکیسویں صدی میں نوبت یہاں تک پہنچی
ہے کہ کل سرمایادارانہ نظم معیشیت نسوانیت کے حسن کی بنیادپر چل رہاہے اور
اس کے نتیجے میں دنیابھرکا خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر آن کھڑاہواہے۔کل
انسانی تاریخ میں جس طرح کانسوانی استحصال آج کی سکیولرمغربی تہذیب نے
کیاہے ماضی میں اس کی مثال عنقا ہے،یہاں تک کہ عورتوں سے وابسطہ اخلاقی
معیارات ہی تبدیل کر دیے ہیں ان ظالم سیکولرمردوں نے۔’’تماشادکھاکرمداری
گیا‘‘کے مصداق آج کی عورت جان چکی ہے کہ اس کی فلاح و کامیابی اور اسکے
حقوق کا تحفظ صرف محسن نسواںﷺکی تعلیمات میں ہی پوشیدہ ہے اور اب عالمی سطح
پر ’’گھر کو واپسی‘‘(Back To Home)کے نعروں کے ساتھ خواتین کی تحریکیں
متحرک ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ ہمیں گھریلوذمہ داریوں واپس کرو اور
دنیاکاکاروبار معیشیت و معاشرت و سیاست خود سنبھالو۔
|