ہمارے سماج میں جو مسائل ہیں اُن کاباریکی سے جائزہ لیا
جائے تو تعلیم کی کمی اور تربیت کا نہ ہوناہے،مسلمانوں میں تعلیم کا رحجان
یوں تو بڑھنے لگا ہے لیکن مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے
کہ لوگوںنے اب تک تعلیم کامقصد نہیں سمجھااور نہ ہی وہ تعلیم کو زندگی کا
لازمی جز قرار دیتے ہیں۔ملک میں لاک ڈائون کے نافذ ہونے کے بعد مسلسل لوگ
پریشانیوں کا شکار ہورہے ہیں،ان میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو متوسط طبقے
سے تعلق رکھتے ہیںاوران میں سے اساتذہ کا طبقہ بھی ایسا ہے جو لاک ڈائون کے
مسائل سے شدید متاثر ہواہے۔یہ بات اور ہے کہ بعض تعلیمی ادارے جن کے پاس
استطاعت ہے وہ اساتذہ اور ان کے عملے کی تنخواہوں کواپنے وسائل سے پورا
کررہے ہیں،لیکن80 فیصد تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے
اور وہ اپنے اساتذہ کوگھروں میں رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے طلباء کو بھی
گھروں میں ہی رہنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔اس بات سے اتنا تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے
کہ بچے اور اساتذہ کورونا جیسی وباء سے بچ سکتے ہیں،لیکن بھوک کی جو وباء
ہوتی ہے اُس وباء سے کوئی کسی کوبچانہیں سکتاسوائے موت کے۔یہی حال اساتذہ
برادری کا ہے یہ لوگ نہ تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں نہ کوئی انہیں
مستحق مان کر ان کی مالی امداد کرسکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو قوم اپنے
اساتذہ کی عزت نہیں کرتی اور جس قوم میں اساتذہ کو استاد نہیںبلکہ غلام
مانا جاتا ہے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرپاتی اور نہ ہی اُس قوم میں دانشور
اور صالحین پید اہونگے،اگر اساتذہ کا رتبہ بڑا نہ ہوتا تو پانچ وقت کی
نمازوںمیں اساتذہ کیلئے بھی دعا کی گنجائش نہیں ہوتی۔مسلم سماج کا جائزہ
لیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے پاس تمام خرافاتوںکیلئے گنجائش
ہے،ہم اپنے لئے ہمارے اپنوں بچوںکیلئے اور اپنی ضرورتوںکیلئے ہزاروںلاکھوں
روپئے خرچ کرسکتے ہیں،لیکن ہماری قوم کے وہ معمار جو ہماری نسلوں کوتعلیم
دے رہے ہیںاُن کی مددکیلئے ہاتھ نہیں اُٹھتے۔آج ہر کوئی اپنے بچوںکی
شادیوںکیلئے20-25 لاکھ روپئے یوں ہی خرچ کردیتا ہے،لیکن نجی اسکولوںمیں
تعلیم دینے والے اساتذہ کی تنخواہ کیلئے اس میں سے ایک دو لاکھ روپئےایک
ایک ادارے کیلئے بطور تعائون ادا کئے جائیں تو یقیناً اساتذہ بھوکے پیٹ
سونے کیلئے مجبور نہیں ہونگے۔شادی بیاہ میں جس طرح سے آرکیسٹرا،مشاعرے و
قوالیوں پر لاکھوں روپیوں کاخرچ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی
کوشش کرتے ہیںاُنہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اُن کا بڑکپن اس بات
میں نہیں ہے کہ وہ عیاشی اور تفریح کاسامان مہیا کرتے ہوئے قوم میں نام
کمائیں،لیکن دنیامیں انہیں لوگوں کی عزت ہوتی ہے جنہوںنے اپنے اساتذہ
کااحترام کیا ہو،اپنی قوم میں استاد کے درجے کو بلندکیا ہو۔یقیناً استاد
بادشاہ نہیں ہوتا البتہ وہ تعلیم دیکر جاہل کو قابل بنا کر بادشاہ بنا دیتا
ہے۔ہماری چھوٹی سی پہل بہت بڑا کام کرسکتی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے
سماج میں موجود اساتذہ کو ہم بھوکا نہ چھوڑیں بلکہ جس طرح سے ہم اپنے بچوں
کا خیال کرتے ہیں اُسی طرح سے اُن کے بچوں کا خیال کریںتاکہ اساتذہ کے دل
میں یہ خیال نہ آئے کہ ہمیں اس قوم میں پیدا ہی نہ ہونا تھا،جس قوم میں
اساتذہ کی عزت نہیں۔
|