زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
فی الحال ہم اس بحث کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ ٓائینی طور پر تعلیم کا
شعبہ وفاق کی ذمہ داری ہے یا صوبوں کی؟ اور اس سوال کو بھی نظر انداز کر
دیتے ہیں کہ چاروں صوبائی حکومتیں، بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اس
نصاب کو بڑی خوش دلی سے اپنا لیں گے یا نہیں؟۔ اور اس بحث میں بھی نہیں
پڑتے کہ کل کلاں جب وفاق یا صوبوں کی باگ ڈور کسی اور سیاسی جماعت کے ہاتھ
میں ہو گی تو وہ اس یکساں نصاب تعلیم کے بارے میں کیا رائے قائم کرئے گی؟
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی قیادت میں قائم کمیٹی میں اگرچہ تمام صوبوں
کو نمائندگی حاصل تھی۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمام اہم سیاسی
جماعتیں اس مشق کا حصہ تھیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت کی وجہ سے کمیٹی
میں نمائندگی حاصل تھی۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے
باعث مسلم لیگ (ن) بھی کمیٹی میں شامل تھی۔ دینی مدارس کی نمائندہ تنظیم "تنظیمات
وفاق المدارس" نے بھی اس مشق میں بھرپور حصہ لیا۔ بظاہر یہ ایک اجتماعی
فیصلہ ہے۔ اس کی ذمہ داری صرف پی۔ٹی۔آئی نے نہیں، دوسری سیاسی جماعتوں نے
بھی اپنے سر لی ہے۔ ایک مشترکہ فیصلے کے حوالے سے وہ اس نصاب کو اپنانے کی
پابند ہیں۔اصولی طور پر یہ ایک اچھی مشق ہے۔ اس نصاب میں پاکستان کے اسلامی
تشخص، دینی تعلیم اور نظریاتی پہلو کو بھی بہت اچھی طرح سمویا گیا ہے۔ یہ
امر انتہائی ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے، ہماری درس گاہوں
سے نکلنے والے بچے، اسلام کی بنیادی تعلیمات، اسلام کی تہذیبی قدروں اور
اسلامی معاشرت سے بخوبی آگاہ ہوں۔ وہ زندگی کے جس بھی شعبے میں جائیں، ان
کی یہ انفرادیت قائم رہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری درس
گاہوں کے فارغ التحصیل بچوں کا ہر طرح کے تفرقے، تعصب، تنگ نظری اور انتہا
پسندی سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ یہ نہایت اچھے مقاصد ہیں جن کی بجا طور پر
تعریف کی جانی چاہیے۔
لیکن جیسا کہ میں نے کالم کی پہلی قسط میں عرض کیاتھا، ان نیک اور اچھے
مقاصد کا حصول کیا صرف یکساں نصاب تعلیم کے اعلان سے ممکن ہو گا؟ کیا ہم
ایک جیسی معلومات اور ایک جیسی مہارتوں پر مشتمل ایک کتاب، مختلف معاشرتی
طبقوں سے آنے والے بچوں کے ہاتھ میں دے کر یہ سمجھ لیں کہ ہمارا مقصد پورا
ہو گیا ؟ ایسا سوچنا خود فریبی ہو گی۔ اہم تریں بات یہ ہے کہ ہم اپنے ملک
کے معروضی حالات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کئی طبقات میں بٹے اس ملک میں،
"یکساں نصاب" کس حد تک موثر اور مفید ثابت ہو سکے گا۔ موجودہ صورتحال کا
جائزہ لے کر ہی ہم کوئی مفید اقدام کر سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی
خاص علاقے کا کسان، اپنے کھیت کی مٹی اور آب و ہوا کے مطابق ہی اس میں فصل
بونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پاکستان کے تمام خطوں میں اگر یکساں فصل بونے کی
کوشش کی جائے تو اسے مذاق ہی سمجھا جائے گا۔معاف کیجیے مگر یکساں نصاب
تعلیم کا نعرہ بھی ایک ایسی ہی کوشش محسوس ہوتا ہے۔
کیا ہمیں معلوم ہے کہ آج بھی اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ وہ بچے سکولوں سے باہر
ہیں جن کی عمر سکولوں میں جانے کی ہے۔ کم از کم میں نے ـ " یکساں نصاب
تعلیم" یا " یکساں نظا م تعلیم " کی حالیہ بحث میں ان غریب اور لاچار بچوں
کا ذکر نہیں سنا جن میں سے کچھ ہوٹلوں، ریستورانوں، ورکشاپوں، پنکچر کی
دکانوں، پٹرول پمپوں یا بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں۔کچھ اینٹوں
کے بھٹوں پر اپنے والدین کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ کچھ کچرے کے ڈھیروں سے رزق
چن رہے ہیں اور کچھ بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ بات ہماری ترجیح ہی نہیں کہ ان
کا کیا بنے گا؟ بلاشبہ کچھ غربت اور بیماریوں کے ہاتھوں زندگیاں ہار جائیں
گے لیکن کچھ بڑے بھی تو ہوں گے۔ جوانی کی عمر کو پہنچیں گے۔ اور پھر بیلچے،
کدالیں اور بالٹیاں لے کر سڑکوں کے کنارے مزدوری کی تلاش میں بیٹھ جائیں گے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ بے روزگاری سے تنگ آکر جرائم کی راہ
اپنا لیں۔ ریاست نے پرائمری تعلیم کو لازمی قرار دے رکھا ہے اور اسے اپنی
آئینی ذمہ داری بھی کہا ہے لیکن ہم کس حد تک سنجیدگی کے ساتھ اس ذمہ داری
کو نباہ رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں سیاسی نعرے بازی اور پوائنٹ اسکورنگ
سے ہی فرصت نہیں۔ ہمارا زور بازو ناخواندگی، غربت اور بے روزگاری کے بجائے
سیاسی حریفوں کو چت کرنے میں صرف ہوتا ہے۔
اس ساری بحث میں دینی مدارس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دینی مدارس ہی
ہیں جو لاکھوں بچوں کو تعلیم کیساتھ ساتھ خواراک اور رہائش فراہم کرتے
ہیں۔چند مخصوس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث مٹھی پھر مدارس سے قطع نظر،
بیشترمدارس کا کردار انتہائی قابل تعریف ہے۔ یہ مدارس ہمارے نظام تعلیم کا
اہم حصہ ہیں اور ملک کی شرح خواندگی میں حصہ دار ہیں۔ ہمارے ہاں بائیس ہزار
کے قریب دینی مدارس ہیں جن میں تیس لاکھ کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں۔ بیشتر
بچے انتہائی پسماندہ اور غریب پس منظر سے آئے ہیں۔ ان اداروں کا ایک بڑا
مضبوط نظام ہے۔" تنظیمات وفاق المدارسـ" نہایت عمدہ کام کر رہی ہے۔ میری
نگاہ سے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری صاحب کا بیان گزرا ہے جس سے اندازہ
ہوتا ہے کہ " یکساں نصاب" سے عمومی اتفاق کے با وجود وہ اپنے موجودہ نظم
اور نصاب سے انحراف نہیں کریں گے۔ ایسا ہی ایک بیان سندھ کے وزیر تعلیم کی
طرف سے بھی آیا ہے کہ ہم یکساں نصاب کو اپنی مقامی ضروریات اور تقاضوں کی
روشنی میں جانچنے کے بعد ہی اپنائیں گے۔ گمان یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ اور
دیگر صوبوں سے بھی ایسی ہی آوازیں آئیں گی۔ تو کیا یہ منصوبہ دیر پا ثابت
ہو گا اور دور رس نتائج لا سکے گا؟ ان آوازوں کیساتھ یکساں نصاب تعلیم کا
نعرہ خوش رنگ ہمیں کیا فائدہ پہنچائے گا؟ ہمارے ہاں تو عید کے چاند تک پر
تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک چاند پر اتفاق نہ کرنے والے ایک نصاب کے
نفاذ پر کیسے متفق ہو جائیں گے؟ وہ بھی شدید سیاسی نفرت اور رسہ کشی کے
زمانے میں؟ ایسے اہم اور حساس معاملات طویل مشاورت، غور و فکر ،بحث و
مباحثے اور کامل اتفاق رائے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ تمام پہلووں کو پیش نظر
رکھ کر ہی کوئی بہتر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال نیک نیتی اور اچھے عزائم کا
نہیں ، مسئلہ تو اس کے نفاذ اور عملی نتائج کا ہے۔
ہمارا بنیادی مسئلہ طبقاتی تقسیم اور معاشرتی نا ہمواری ہے۔ جب تک ہم اس
حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظام تعلیم کے مختلف دھاروں کو ایک دوسرے کے
قریب نہیں لاتے، اس وقت تک یکساں نصاب تعلیم جیسی کوششیں بار آور ثابت نہیں
ہوں گی۔ تعلیم کا شعبہ انتہا کی وسیع اور دو ر رس اصلاحات مانگتا ہے۔ یہ جز
وقتی کام نہیں۔ ہمارے ہاں خرابی یہی رہی ہے کہ ہر حکومت نے اوپر کی سطح پر
تبدیلیاں کر کے سمجھا کہ تعلیمی نظام میں انقلاب آگیا ہے۔ یہ درست نہیں۔ جس
معاشرے میں ماہانہ لاکھوں روپے فیس دینے والے لوگ موجود ہوں اور فاقہ کشی
پر مجبور مخلوق بھی بستی ہو اور یہ طبقاتی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہو۔ بے
روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہو۔ غربت کی لکیر سے نیچے لڑھکنے والوں کی تعداد
مسلسل بڑھ رہی ہو۔ سکول جانے کی سکت نہ رکھنے والے بچے کروڑوں میں
|