کہیں آپ کا بچہ ”گیمنگ ڈس آرڈر“ کا شکار تو نہیں؟ جانئے اس بیماری کی علامات!

image
 
جولائی میں پاکستان کی ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے مشہورآن لائن گیم پب جی (پلئیر ان نونزبیٹل گراؤنڈ) پر پابندی لگادی تھی اور اسے پاکستان بھر میں بند کردیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پی ٹی اے کے نوٹیفیکشن کو منسوخ کردیا تھا اور اب پاکستان بھر میں یہ گیم کھیلا جارہا ہے۔
 
آن لائن ویڈیو گیمز پر پابندی:
اس وقت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں اس طرح کے ویڈیو گیمز پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے، ان میں انڈیا، چین، عراق اور عراق شامل ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کی طر ح نیپال میں بھی 2019میں کچھ عرصے کے لئے پب جی ویڈیو گیم پر پابندی لگائی گئی تھی، تاہم بعد میں وہاں اسے دوبارہ اجازت مل گئی تھی۔
 
آن لائن گیم کے منفی اثرات:
اس گیم کی وجہ سے نوجوانوں میں ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے اور وہ دنیا سے بے خبر ہوکر دن رات یہی گیم کھیلتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ ساتھ ہی ان گیمز کی وجہ سے نوجوانوں میں تشدد پسندی بھی بڑھ رہی ہے، ان میں صبر و تحمل اور برداشت کرنے کا جذبہ کم ہورہا ہے۔ نوجوان یہ گیمز اتنا کھیلتے ہیں کہ باقی دوسرے کاموں میں ان کا دل نہیں لگتا اور ان کے ذہن پر یہ گیمز ہی سوار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے دوسرے کاموں کی کارکردگی پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی ہر وقت آن لائن گیم کھیلنے کی وجہ سے ان کی آنکھیں خراب اور نظر کمزور ہورہی ہے، اس کے علاوہ ایک ہی جگہ پر مستقل بیٹھ کر کھیلنے کی وجہ سے ان کا وزن بھی بڑھ جاتا ہے۔
 
ایسے طلبہ جن کا رجحان ویڈیو گیمز کی طرف زیاد ہ ہے، ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے، کیونکہ ان کے ذہن میں ہر وقت گیم کھیلنے اور اسے جیتنے کی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ پب جی میں ایک ساتھ کئی لوگ کھیل سکتے ہیں، ساتھ ہی اس گیم کو کھیلنے کے دوران گن وغیرہ جمع کرکے 99 لوگوں کو مارنے کا ہدف تک پورا کرنا ہوتا ہے، اس کے بعد ہی کھیلنے والا میچ جیت پاتا ہے۔ اس انداز کا گیم جہاں نوجوانوں میں تشدد پسندی کا جذبہ بڑھا رہا ہے۔ وہیں دنیا بھر سے کئی نوجوانوں کی خودکشی کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں، جو کہ خطرے کی ایک گھنٹی ہے،تاہم اس کے باوجود یہ آن لائن گیم اب بھی پاکستان میں کھیلا جارہا ہے۔
 
image
 
اس حوالے سے ایک فٹنس ٹرینر جو اس گیم کو بہت زیادہ کھیلتا تھا، اس کی ذہنی صحت اتنی خراب ہوئی کہ وہ پھر اپنے کام پر دھیان دینے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس کے علاوہ ایک یہ خبر سننے کو ملی کہ آن لائن گیم کھیلنے کیلئے جو ”گیئر“ وغیرہ یا ڈیوائسز کی ضرورت ہوتی ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایک نوجوان نے اپنے والد کے اکاؤنٹ سے16لاکھ روپے بغیر اجازت کے نکال کر گیئر وغیرہ خرید لیئے، تاکہ گیم میں اس کیلئے مزید آسانی ہو۔
 
اس کے علاوہ آن لائن گیمز کو کھیلنے کی وجہ سے نوجوان ”گیمنگ ڈس آرڈر“ کا شکار ہورہے ہیں۔ اس بیماری میں نوجوانوں پر آن لائن گیمز کھیلنے کا جنون سوار رہتا ہے اور انہیں روٹین کا کوئی کام کرنے میں دلچسپی نہیں رہتی۔
 
گیمنگ ڈس آرڈر کا شکار ہونے کی علامات:
ہر وقت گیم کے بارے میں سوچنا:
اگر کوئی بچہ ہر کھاتے پیتے، سوتے اور جاگتے وقت گیم کا ہی نام لیتا رہتا ہے، یا اسے اپنا کھانا جلدی اس لئے ختم کرنا ہوتا ہے کہ وہ جلد یسے اپنا گیم کھیل سکے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بچہ گیمنگ ڈس آرڈر کا شکار ہورہا ہے۔
 
گیم بند نہ کرنا:
اگر آپ کا بچہ گیم کو روک کر کوئی اور کام کرنے کی طرف نہیں جانا چاہتا اور گیم کھیلنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس کا دل نہیں کرتا کہ گیم کو دو منٹ روک کر کوئی اور کام کرلے تو جان لیں کہ پھر آپ کا بچہ گیمنگ ڈس آرڈر میں مبتلا ہوگیا ہے۔
 
image
 
منفی اثرات جاننے کے باوجود کھیلنا:
اگر کسی نوجوان کو پتا ہے کہ آن لائن گئیمز کے منفی اثرات کیا ہیں، وہ ان اثرات کو محسوس کرنے کے بعد بھی گیم کھیل رہا ہے تو وہ گیمنگ ڈس آرڈرکا شکار ہوچکا ہے۔
 
تفریح یا مشاغل کو چھوڑ دینا:
کوئی نوجوان جس کو پہلے پیانو بجانا پسند تھا، یا کہیں پہاڑوں کی سیر کرنا انہیں سر کرنا اچھا لگتا تھا، لیکن اب اس نے تمام تفریحی سرگرمیاں اور مشاغل ختم کردئیے ہیں اور اب بس وہ آن لائن گیم کھیل رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ و ہ گیمنگ ڈس آرڈر کا شکار ہوگیا ہے۔
 
اب یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ گیمنگ ڈس آرڈر کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے باقاعدہ ایک بیماری کو درجہ دے دیا ہے، نوجوان آن لائن گیمز کی وجہ سے اس بیماری کا تیزی سے شکار ہورہے ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر میں موجود بچوں پر نظر رکھی جائے اور ان کا ایک مخصوص اسکرین ٹائم مقرر کیا جائے۔اگر دن رات وہ گیمز کھیلنا چاہتے ہیں تو انہیں پیار سے کسی دوسری تفریحی سرگرمی کی طرف توجہ دلوائیں تاکہ وہ گیمنگ ڈس آرڈر کا شکار ہوکر اپنی جسمانی و ذہنی صحت کو خراب نہ کرسکیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: