میں تنہا ہوں، میرے رشتوں کے پاس میرے لئے وقت نہیں..... بزرگوں کے دل کی آواز جو آج کل ہم سن نہیں پاتے!

image
 
خالد صاحب جب تک اپنی نوکری کرتے تھے، ان کا وقت آسانی سے گزرجاتاتھا، گزشتہ 5سال سے وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں، اس ریٹائرمنٹ سے قبل وہ دوستوں کے سامنے فخریہ انداز میں کہتے تھے، کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی، ساتھ ہی انہوں نے اپنے بچوں کو ملازمت کے ساتھ ساتھ مکمل وقت دیا تاکہ ان کی تربیت اور شخصیت میں کوئی کمی نہ رہے، اچھی تعلیم کی بدولت ان کے بچے اچھے اداروں میں نوکریوں پر لگ گئے تو جیسے انہیں دلی اطمینان نصیب ہوگیا۔ تاہم بدلتے ہوئے وقت نے ان کے کچھ رشتوں کو بھی ان سے چھین لیا، بڑے بہن بھائی تو6سال قبل ہی دنیاسے کوچ کرہی گئے تھے کہ دو سال قبل ان کی شریک حیات بھی انہیں اس بھری دنیا میں بچوں کے حوالے کر کے چل بسیں۔
 
شریک حیات کے جانے کے بعد ابتدا میں بچوں نے انہیں وقت دیا، ان کے پوتا، پوتی بھی ان کے ساتھ بیٹھتے اور باتیں کرتے۔ لیکن جیسے جیسے یہ غم کم ہوا، یہ لوگ بھی تیز رفتار زندگی میں اپنے کاموں میں ہی مصروف ہوگئے ہیں۔ اب بس بچوں کے پاس ان کیلئے اتنا وقت ہے کہ جب وہ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سلام کرکے یہ پوچھتے ہیں، ”ابو! کچھ چاہئے تو نہیں؟ کسی چیز کی ضرورت ہوتو بتادیجئے گا۔“ اور چلے جاتے ہیں۔ یہ سوال مجھ سے وہ روز کرتے ہیں، لیکن میں ان سے کیسے کہوں کہ مجھے اب کسی دنیاوی چیز کی نہیں، ان کی ضرورت ہے، ان کے وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات زبان پر نہیں آتی، بس دل میں ہی رہ جاتی ہے۔ واقعی بڑھاپے میں انسان بے بس ہوکر اپنی باقی کی زندگی گزارنے اور وقتِ اجل کے آنے کے دن گننے لگتاہے۔ میں بھی بس اب بس دنیا سے چلے جانے کے دن ہی گِن رہاہوں۔
 
یہ کہانی کسی ایک گھر میں موجود خالد صاحب کی نہیں ہے، بلکہ ہمارے اکثر گھروں کی ہیں۔ ہم اردگرد نظرڈالیں تو ہر گھر میں کوئی ناکوئی بزرگ ضرور موجود ہوگا۔ ہم بس یہ سوچ کر دل کو خوش کررہے ہیں کہ ہم نے مغربی معاشرے کی طرح بزرگوں کو ”اولڈ ہوم“ میں نہیں داخل کیا، بلکہ انہیں اپنے ساتھ اپنے ہی گھروں میں رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ انہیں گھر میں رکھ لیناہی کافی نہیں ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ان بزرگوں کی خواہشات یا اپنے بچوں سے کئی گئی توقعات جب ایک خاص عمر میں جاکر پوری نہیں ہوتیں تو ان میں دکھ اور مایوسی جنم لیتی ہے۔ بڑھاپے کی دہلیز ہر پہنچنے کے بعد اکثر گھرانوں میں لوگ بزرگوں کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور وقت ناہونے کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے اپنا مستقبل بنانے کیلئے بیرون ملک رہائش پذیر ہوجاتے ہیں اور ان کے بوڑھے ماں باپ محل جیسے گھروں میں ملازموں کے سہارے زندگی کے آخری دن گزارتے دکھائی دیتے ہیں، وہ باہر سے انہیں ماہانہ رقم بھیج کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا، جبکہ ان کے بوڑھے والدین زندگی کے آخری دنوں میں اپنے بچوں،پوتے پوتیوں، نواسہ، نواسیوں کو اپنے اردگرد موجود ناپاکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ انہیں ہر وقت یاد کرتے اور ان کی کمی کو زندگی میں محسوس کرکے آنسو بہاتے ہیں۔
 
image
 
یاد رکھیں کہ باہر رہ کر مستبقل سنوارنے کے دوران صرف بوڑھے والدین کو ویڈیو کال کرکے دیکھ لینا ہی ان کیلئے کافی نہیں ہے۔بڑھاپے میں گھر کے بزرگوں کا دل کرتاہے کہ ان کے بچے ان کے پاس بیٹھیں، ان سے باتیں کریں، انہیں پارک یا دوسرے رشتہ داروں کے گھرلے کر جائیں،وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی تیمارداری کریں، انہیں پیار اور شفقت دیں،تاکہ ان کی تنہائی دورہو، اسی طرح ان کے پوتاپوتی، نواسہ نواسی ان کے ساتھ گیمز کھیلیں، ان سے کہانیاں سنیں اور ہنسیں کھیلیں۔
 
نئی نسل سمجھتی ہے کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کو کال کرکے خیر خیریت پوچھ لی یا گھر میں داخل ہونے کے بعد سلام کرلیا تو بس کافی ہے، یہ ان کیلئے ہرگز کافی نہیں ہے۔ گھر میں موجود بزرگوں کو وقت دیں،انہیں تنہائی کا شکار نہ ہونے دیں، ورنہ آنے والے وقت میں کہیں آپ کے بچے بھی آپ کو اسی طرح وقت نہ دے پائے تو آپ بھی ان ہی کی طرح خاموش آنسو بہائیں گے، کیونکہ بچے جو دیکھتے ہیں، اسی سے سیکھتے ہیں، آج اپنے بزرگوں کو وقت دینا بچوں کوسکھائیں گے تو کل آپ کے بچے ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو وقت دے کر تنہائی کا شکار نہیں دینے ہونے دیں گے۔ اس لئے بزرگوں کے دل کی آواز سنیں اور انہیں اپنا بھرپور وقت دیں۔!
YOU MAY ALSO LIKE: