|
|
ویسے تو صنف مخالف کی جانب سے عورت کے ساتھ زيادتی کا عمل صدیوں سے ہوتا رہا ہے اور
ہر معاشرے میں اس کی روک تھام کے لیے ایسی سزائيں تجویز کی گئی ہیں جن کے ذریعے اس
عمل کو روکا جا سکے- اسلامی قانون کے مطابق ایسے فرد کو سنگسار کرنے کا حکم ہے جب
کہ تعزیرات پاکستان کے مطابق اس جرم کی زيادہ سے زیادہ سزا عمر قید اور بھاری
جرمانہ ہے ۔ مگر تمام تر قانون سازی اور مذمت کے باوجود بدقسمتی سے گزشتہ کچھ
دہائيوں سے اس کراہیت آمیز جرم میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کراچی کی
معصوم مروہ اور موٹر وے پر تین بچوں کی ماں کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زيادتی کے
واقعات ان بڑھتے جرائم کی دلخراش مثالیں ہیں ۔ مگر ان باتوں کی صرف مذمت ہی کافی
نہیں ہے بلکہ ہمیں ان وجوہات کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے جن کے سبب
یہ واقعات ہو رہے ہیں- |
|
1: گھر ابتدائی درس گاہ جہاں تربیت کا
فقدان موجود ہے |
ایک گھر ایک معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتی ہے معاشرے کو خراب قرار دینے والے
لوگوں کو سب سے پہلے اپنے گھر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں پر مردوں اور
عورتوں کے حقوق و فرائض کے متعلق آگاہی ان کی عزت و احترام کے بارے میں
بیان کرنا ضروری ہے- مگر بد قسمتی سے ہمارے گھروں میں بیٹوں یا لڑکوں کے ہر
ناجائز کام کو بھی ان کے مرد ہونے کے سبب یہ کہہ کر جائز قرار دے دیا جاتا
ہے کہ یہ تو لڑکا ہے خیر ہے- یہی بات آگے چل کو اس لڑکے کو مرد بننے تک
اتنا خود سر بنا دیتی ہے کہ وہ کسی عورت کی عزت لوٹنے کو بھی اپنی مردانگی
سے تعبیر کرتے ہیں- |
|
|
|
2: مردوں اور عورتوں میں مسابقتی ماحول
|
اگر اسلامی تعلیمات پر غور کیا جائے تو یہ چیز ہمارے علم میں آئے گی کہ اس
میں ہمیشہ صنف مخالف کی عزت کا درس دیا گیا ہے اور ان کے درمیان کسی بھی
قسم کی مسابقت کا ذکر موجود نہیں ہ-ے مگر ہمارے معاشرے میں بہن بھائیوں کے
مقابلے سے گھر میں شروع ہونے والی دوڑ میاں بیوی کی دوڑ میں تبدیل ہو جاتی
ہے اس وجہ سے مخالف صنف کا احترام ختم ہو کر صرف اور صرف ایک مقابل ہی رہ
جاتا ہے جس کو ہر حال میں نیچا دکھانا ہوتا ہے اور یہی سبب ہے کہ مردوں کو
جب کہیں کوئی تنہا عورت ملتی ہے وہ اپنی طاقت کے مظاہرے سے اسے زیر کرنے کی
کوشش کرتے ہیں- |
|
3: نفسیاتی امراض کے علاج کے بجائے ان کو
چھپانا |
معصوم بچیوں کی عزت لوٹنے والے یا قبر میں سے عورتوں کے ساتھ جنسی عمل کرنے
والے یا پھر راہ چلتی عورت کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے کسی نہ کسی نفسیاتی
مرض میں مبتلا ہوتے ہیں- مگر ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں پر
نفسیاتی امراض کو تسلیم نہیں کیا جاتا یہی سبب ہے کہ اس کے علاج پر بھی
توجہ نہیں دی جاتی ہے جس وجہ سے ایسے نفسیاتی مریض کھلے عام گھومتے نظر آتے
ہیں اور وہ کہیں بھی کسی کی بھی عزت لوٹ کر معاشرے میں انتشار پھیلانے کا
باعث بنتے ہیں- |
|
|
|
4: سوشل میڈیا پر عریاں مواد تک رسائی
|
ایک سروے کے مطابق پاکستانی قوم کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ فحش ویب
سائٹس کو سرچ کرنے والے لوگوں میں ہوتا ہے اور اس طرح کا فحش مواد دیکھنے
کے بعد ان افراد کے اندر کے جذبات کا منتشر ہونا ایک لازمی امر ہے- ان ویب
سائٹس تک رسائی کو روکنے کے بجائے ہر گھر کے لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ
گھر کے افراد پر نظر رکھیں کہ وہ اس طرح کی ویب سائٹس کو سرچ نہ کریں اس کے
ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت بھی کریں تاکہ رہ ان کے نقصانات سے آگاہ ہو
سکیں- |