|
|
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جس انسان کو اللہ نے دو
بیٹیوں سے نوازہ اور اس نے ان کی بہترین تربیت کی تو قیامت کے دن وہ اور میں ایک
دوسرے کے ساتھ اس طرح ہوں گے جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ہاتھ میں ایک
دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں ۔ ایک لڑکی کی بہترین تعلیم و تربیت کی اہمیت اس لیے
بھی بہت زیادہ ہے کیوں کہ کسی بھی بچے کی تربیت کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی کوکھ
ہوتی ہے اور اگر ماں بہترین تربیت یافتہ ہوگی تو اس کے بچوں کی تربیت بھی بہترین ہو
گی اور یہ ایک نسل کی بہترین تربیت کی ضامن ہوگی- |
|
فلسطین کے ایک علاقے ام طوبیٰ کے رہائشی اس جوڑے کے چھوٹے سے گھر میں آج سے
سترہ سال پہلے چار بیٹیوں کے روپ میں اللہ کی رحمت کی جب آمد ہوئی تو ان کی
خوشی کی انتہا نہیں رہی چاروں بچیاں پریوں کی مانند تھیں اور انہوں نے ان
کے نام دینا ، دیما ، سوزن اور ورضان رکھے- |
|
|
|
جب چاروں بچیوں نے اسکول جانا شروع کیا تو ان کی ذہانت اپنی مثال تھی اس
میں بڑا کردار ان کے والدین کا بھی تھا جنہوں نے ان بچیوں کو دینی اور
دنیاوی ہر طرح کی تعلیم کے حصول میں مدد دی- تیرہ سال کی عمر کو پہنچ کر
اور ہائی اسکول تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان چاروں جڑواں بچیوں نے اللہ
تعالیٰ کے مقدس ترین پیغام قرآن کو حفظ کرنے کا ارادہ کیا- اس خیال سے ان
کے والدین نے ان کا داخلہ عبداللہ بن مسعود نامی قرآن سینٹر میں کروا دیا- |
|
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جڑواں ہونے کے باوجود بچے یکساں ذہنیت کے
حامل نہیں ہوتے ہیں مگر یہ چاروں بہنیں ذہانت میں ایک سے بڑھ کر ایک ثابت
ہوئيں اور چار سال کے قلیل عرصے میں ان چاروں بہنوں نے بیک وقت قرآن حفظ
کر کے اپنے ماں باپ کے سر کو فخر سے بلند کر دیا- |
|
|
|
اس دوران انہوں نے اپنی دنیاوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور وہاں بھی
نمایاں کارنامے انجام دیتی رہیں- اس حوالے سے ان بہنوں کا یہ بھی کہنا ہے
کہ قرآن پاک کو حفظ کرنے کے سبب ان کی ذہانت میں اضافہ ہوا اور دنیاوی علوم
ان کے لیے آسان سےآسان تر ہوتے گئے- |
|
یہ چاروں بہنیں ان تمام لوگوں کے لیۓ ایک مثال ہیں جو کہ بیٹیوں کی تعلیم
کو بے مقصد قرار دیتے ہیں اور ان کی تعلیم پر مناسب توجہ نہیں دیتے ہیں- |