یوم دفاع وطن اور یوم دفاع ختم نبوت

مولانا محمد حنیف جالندھر ی جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
6 ستمبراور7 ستمبر کی مناسبت سے بعض اجتماعات اور مختلف فورمز پر اظہار خیال کا موقع ملا ۔ان مواقع پر جو گفتگو کرنے کی توفیق ملی اس کے بعض نکات ایسے ہیں جو صرف ان دنوں میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنے چاہیں……6 ستمبر یوم دفاع وطن ہے اور 7 ستمبر یوم ختم نبوت ہے۔ حسنِ اتفاق سے یہ دونوں دن ایک ساتھ آتے ہیں…… یہ دونوں دن ہماری تاریخ کے یادگا ر ،تاریخ ساز ،تابناک اور ناقابل فراموش دن ہیں ۔6 ستمبر کو دشمن نے وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں پر وار کیا اور اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے پاک فوج کے قابل فخر سپوتوں نے دشمن کو شکست فاش سے دوچار کیا ……وہ دشمن جو لاہور میں ناشتہ کرنے اور اپنی فتح کا جشن منانے کا خواب دیکھ رہا تھا اسے دہلی میں اپنی شکست اور ناکام تمناؤں کے زخم چاٹنے پڑے…… 1965ء میں دفاع وطن کے لیے قوم کے بیٹوں نے جو قربانیاں دیں ……پوری قوم نے جس طرح سے متحد ہوکر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملایا وہ ہماری تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے ……یہ دن ہرسال ہمیں دفاع وطن کے جذبے کو تازہ کرنے کی یاد دلاتا ہے ……یہ دن ہمیں اپنے گھر کی رکھوالی کا پیغام دیتا ہے ……یہ دن ہمیں اپنے وطن کے تحفظ کے لیے قربانی کے جذبے سے سرشار کرتاہے …… اس کے ساتھ ساتھ 7 ستمبر کا دفاع ختم نبوت کا دن ہمیں اپنی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا درس دیتا ہے ……7 ستمبر1974 ء ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا یادگا ردن ہے جب وطن عزیز کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا ……یہ دن نظریہ پاکستان کے تحفظ کا دن ہے ……ہم نے پاکستان کلمہ طیبہ کے نعرے اور اسلام کے نظرئیے پر حاصل کیاتھا 7 ستمبر 1974 ء کو ہم نے اپنے ایمان ،عقیدے اور نظرئیے کے حوالے سے ایسی شاندار کامیابی حاصل کی کہ یہ دن ہمیشہ سے حق وباطل کے مابین امتیاز کی لکیر کے طور پر جگمگاتا رہے گا ……مجھے کچھ عرصہ قبل جنیوامیں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا ۔وہاں کچھ سیکولر عناصر نے قادیانی لابی کی پڑھائی ہوئی پٹی کے مطابق یہ کہا کہ پارلیمنٹ کاکوئی حق نہیں کہ وہ کسی کے ایمان اور کفر کا فیصلہ کرے ……میں نے اس فورم پر واضح کیا کہ یہ تصور اس پارلیمنٹ کے لیے تو درست ہوسکتاہے جہاں سیکولر ازم اور لبرل ازم کا دعوی کیاجاتاہو اور جھوٹ موٹ ہی سہی لیکن زبانی کلامی تمام ادیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہو لیکن جو ملک کلمہ طیبہ کے نعرے اور دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو اور اس کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ لکھا ہو …… اس کا آئین قران وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتا ہو اس پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کوا سلام اور کفر کے مابین فرق سمجھائے اور اپنے ایمان وعقیدے اور نظرئیے کی حدود کا تعین ہی نہیں بلکہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ بھی سرانجام دے ۔

ہمیں یومِ دفاع پاکستان اور یوم ِدفاعِ ختم نبوت کے موقع پر اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لانا چاہیے ……پوری قوم کو شکر انے کے نوافل پڑھنے چاہیں اور اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہمارے کتنے بڑے محسن ہیں جن کی وجہ سے آج ہم جہاں وطن عزیز میں امن امان سے رہ رہے ہیں وہیں ہماری نسلِ نو کے ایمان اوردین کے تحفظ کی بنیاد ڈال گئی اور ہماری متاعِ دین وایمان کو لٹنے سے بچایا گیا ۔اس موقع پر ہمیں اپنے اس احساس کو بھی تازہ کرنا چاہیے کہ وطن عزیز کی جغرفیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاک فوج جیسے ضروری ہے ……ہماری فوج جتنی مستحکم ہوگی …… پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل ہوگی ……جدید ہتھیاروں سے لیس ہوگی اتنا ہی ہمارا دفاع مضبوط ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری قوم کی فوج کو پشت پناہی حاصل ہونی چاہیے عوام اور فوج کے مابین غلط فہمیاں یا دوریاں بہت خطرناک ہیں اور ان کو ختم اورکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے…… اسی طرح ہماری نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے علماء کرام اور دینی مدارس کا وجو د بھی از حد ضروری ہے ،دینی مدارس ہماری نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی چھاونیاں ہیں……اسلامی او ر دینی تعلیم جو ریاست کی ذمہ داری ہے یہ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت ریاست کے حصے کا یہ کام سرانجام دے رہے ہیں ……انہی دینی مدارس نے قوم کو وہ علماء اور نظریہ پاکستان کے محافظ دیئے جن کی محنت کی بدولت کسی نقب زن کو ہمارے عقیدے ،ایمان اور نظرئیے پر نقب زنی کی جرات نہیں ہوتی ……اس لیے ہم فوجی چھاونیوں اورفوج کی ضرورت واہمیت کا جس قدر احساس رکھتے ہیں اسی طرح ہمیں علماء کرام کے کردار وخدمات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے اور دینی مدارس کی ضرورت واہمیت کا بھی احساس ہوناچاہیے۔

یومِ دفاع وطن اور یومِ دفاع ایمان کا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ اورملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسباں ایک پیج پر ہوں ……ان کے مابین مضبوط روابط ہوں ……ایک دوسرے پر اعتماد کی فضاہو…… ایک دوسرے کے دست وبازو بنیں…… آج ملک دشمن عناصر کی کوشش ہے کہ وطن کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کا پہرہ دینے والوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کی جائیں……انہیں ایک دوسرے سے دور کیا جائے ……ان کے مابین فاصلے بڑھائے جائیں ……آئے روز نت نئے ایشوز سامنے آتے ہیں ……طرح طرح کے حربے آزماتے جاتے ہیں ……دشمن کے پیسے پر پلنے والے عناصر خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے میں ہمیں قوم کے بچے بچے کو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ کس طرح ہم مل جل کر ملک وملت کی بہتری …… وطن عزیز کی ترقی ……وطن عزیز کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکتے ہیں ……آج ضرورت اس امر کی ہے کہ 1965 ء اور 1974ء کے جذبے کے ساتھ ہم اپنے وطن کی خدمت حفاظت اور تعمیر وترقی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کا اہتمام کریں۔
اﷲ ہمارا حامی وناصر ہو ۔

 

Abdul Quddus Muhammadi
About the Author: Abdul Quddus Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddus Muhammadi: 120 Articles with 129696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.