کود کر وقت کے اٹھتے ہوئے طوفانوں میں
زلزلے ڈالدے تخریب کے ایوانوں میں
( اطہر عباس)
مولانا سید سلمان حسینی ندوی نہ صرف دارلعلوم ندوۃ العلماء کے سینئر اور
باکمال استاد تھے بلکہ دنیاکے اہل علم میں ایک وقار اور اعتبار آج بھی
انہیں حاصل ہے ،ان کی علمی عبقریت اور جمال و کمال کے اس اعتراف کے بعد
تمام اہل ہند اور خاص طور سے ارباب ندوہ اور حاملین ندوہ کو جو اعتراف اور
قدرشناسی کرنی چاہئے تھی ، جو عزت اور محبوبیت ان کو ملنی چاہئے تھی جس
تمغہ اعزازی کے آپ مستحق تھے ، جس خندہ لبی سے آپ کا استقبال ہونا چاہئے
تھا بلکہ آپ اس قابل تھے اور ہیں کہ آپ کو پلکوں پر بٹھا یا جاتا آپ کی
عظمتوں اور رفعتوں کے اعزاز اور اعتراف میں دل کھول کر خراج پیش کیا جاتا ۔
کیوں کہ آپ علمی مقام کے لحاظ سے علامہ شبلیؒ اور علامہ سید سلیمان ؒندوی
کے جانشین تھے، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن حسنی ندوی ؒکے فکر و خیال
کے حقیقی وارث اور امین تھے اور عہد ر واں کی عظیم شخصیت حضرت مولانا سید
محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کے فکر و نظر کے مبلغ ہیں، اس سے بڑھ کر
وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ترجمان اور اس کی فکری وراثت کے نمائندہ
تھے۔آپ کی بہت سی ممتاز حیثیتیں تھیں لیکن افسوس ان کے ساتھ سوتیلے پن
کاسلوک کیاگیا ان کی کسی علمی حیثیت کو خاطرمیں نہیں لا یا گیا ۔ ان کے
حوالے سے ایک پیڑ ی بھی ندوہ انتظامیہ نیچے اترنے کو تیار نہیں ہوئی ،
اختلاف کے حل کی بات تو درکنار ، جبکہ ان کے مسئلے کے حل کی بہت سی صورتیں
ہوسکتی تھیں جن کا استعمال کرکے اس تاریخ ساز غلطی سے بچا جا سکتا تھا جو
ان کے ساتھ دہرائی گئی ۔تاہم اس مسئلے کی حساسیت میں کچھ کوتاہی دوسری جانب
سے بھی خوب ہوئی ،مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب نے ادارے اور اہل
انتظامیہ سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھا جبکہ ادارے افراد سے کہیں بہت زیادہ
بڑے ہوتے ہیں ۔ اگر آپ بھی ادارے اور انتظامیہ کی اس حیثیت کو تسلیم کرلیتے
اور ایک پیڑی آپ بھی نیچے اترنے کا قصد کرلیتے تو اس اختلاف اور حالات کی
شاید نوبت ہی نہ آتی۔ خیر یہ تمام باتیں بڑے لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں
دخل دینے کا شاید حق نہیں، لیکن جب اپنے ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کرتے
ہیں تو ہر وہ مظلوم شخص جو زمانے کی ناقدری کا شکار ہوا ہے ، زمانے نے ان
کے قد کو گھٹانے کی مذموم چالیں چلی ہیں ان کو اجتماعی طور پر نیچادکھانے
کی کوششیں کی گئی ہیں تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے ان مظلوم شخصیات کو عزت
اور سربلندی کے اس مقام تک پہنچایا ہے جہاں ان کے مخالفین کی نظریں بھی
نہیں پہنچ سکیں ۔ مولانا سید سلمان حسینی صاحب کے ساتھ ظلم کی دوسری داستان
غم مسلم پر سنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے لکھی گئی، مولانا کے ساتھ پرسنل
لاء بورڈ میں جو کچھ ہوا وہ لفظوں کے لہوکی ایک ایسی داستان ہے جس کو الفاظ
کے پیکر میں ڈھا لتے ہوئے ڈرلگتا ہے۔ اور یہ ڈر مزید اس لئے بھی بھیانک شکل
اختیار کرلیتا ہے کہ ہماری آستینو ں میں آج بھی کیسے کیسے لوگ چھپے بیٹھے
ہیں ۔مولانا کا قصور آخر کتنا بڑا تھا کہ ان کو مسلم پرسنل لاء بورڈسے الگ
کردیا گیا، آپ نے ایک الگ رائے پیش کی تھی، ایسا بھی توممکن تھا کہ ان کو
مل بیٹھ کر اعتماد میں لیا جا سکتا تھا پھر مسلم پر سنل لاء بورڈ ہندوستان
کے مختلف مکاتب فکر کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے جہاں فرد کی آزادی کا بھر
پور خیال رکھا جا تا ہے۔لیکن مولانا کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ پرسنل لاء
بورڈکے بھرے اسٹیج سے مولانا کے اوپر جو آواز یں اور طعن و تشنیع کا کھیل
ایک ایسے سیاسی آدمی کی طرف سے ہوا جس کی حیثیت صرف ایک اچھے سیاست داں تک
محدود ہے ۔ وہ مولانا سلمان صاحب کی شان میں برملا گندی زبان استعمال کرتا
ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ اسے اس کی حیثیت اور اوقات بتانے کو کوئی تیار
نہیں اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ، آخر پرسنل لاء بورڈ کی اس مرعوبیت کو
آنے والا مؤ رخ کیا نام اور عنوان دے گا ۔
مولانا سید سلمان صاحب کا اصل جوہر او ر شان انفرادیت کمال خطابت میں ہے ،
خدا نے آپ کی طبیعت کے اندر جہاں بہت سے انمول گوہراور لعل درخشاں رکھیں
ہیں وہیں پوری انفرادیت اور تابانی کے ساتھ انداز خطابت کا ملکہ بھی موجود
ہے جب آپ بولتے ہیں ، بے تکان اور بے جھجک بولتے ہیں جوش بیان اور زور بیان
کے ساتھ ساتھ تسلسل اور طلاقت لسانی سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے صاف شفاف
دریا کی لہر یں اپنے بھر پور شباب اور لے میں مگن اپنے متعین سفر کی طرف
روادواں۔ فصاحت و بلاغت کے موتی آپ کی زبان سے آبشاروں کی مانند ابلتے
ہیں۔اس پر آپ کے لہجے کی سچی آہنگ اور جذبے کی صداقت اور خلوص چار چاند لگا
دیتے ہیں ۔آپ کی خطابت میں مزید آپ کی ذہنی اور فکری دیانت زبان اور لفظوں
کی حرمت اور ان کے تقد س کا خیال ہمیشہ مقدم رہتا ہے کہیں اور کسی موقع پر
بھی آپ نے اپنے لہجے اور لفظوں کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔ دنیا ادھر
سے ادھر ہوگئی ظالم کو ہمیشہ ظالم ہی کہااور مظلوم کے ساتھ جو عہد وفا پہلے
دن سے باندھا تھا اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ یہی وہ شبیری مزاج، شبیری
مشن اور اسو ہ تھا جس کے پاس و لحاظ کی خاطر آپ بھی ہمیشہ دشت کربلا میں
کھڑے رہے لیکن حضرت امام حسین کی طرح ظلم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا ۔ بلکہ
آپ نے بھی اسی اسوہ کی بقاکی خاطر اپنے تیشہ لفظ سے موجودہ وقت کے یزید اور
شمر کے فسطائی ایوانوں میں ہلچل مچادی ان کی نیندوں کو حرام اور ان کے سکون
کو غارت کردیا ۔ اپنا نقصان ہوا طعن و تشنیع سے بڑھ کرتکلیف دہ جملوں سے آپ
کے کلیجہ کو چھلنی کیا گیا لیکن کبھی آپ نے درکسریٰ پر دستک نہیں دی کبھی
جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے سے عار اور خوف محسو س نہیں کیا۔آپ نے
ظالم کو ظالم کہا اور مظلوم کو نہ صرف مظلوم بلکہ اس کی حمایت دل کھول کر
عبادت کی طرح کی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری وساری ہے ۔غر ض آپ نے ہر حال
میں سچ کے علم کو سر نگوں نہیں ہونے دیا اپنے اصولوں سے ایک قدم بھی پیچھے
نہیں ہٹے اگر چہ اس سچائی کی پاداش میں آپ کو بڑی قیمت چکا نی پڑی اپنے اور
غیروں نے آپ کے جگرکو چھلنی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیا۔
آخر اس حسینی خانوادہ کاقصور کیا تھا ،کونساجرم اس سے سرزد ہوا؟ کیا اس
دنیا میں انسانیت کی تذلیل اور بے تو قیری کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا
اور مظلوم کی حمایت کرنا اور اس کے ساتھ کھڑا ہونا ظلم ہے۔ حضرت مولانا
سلمان صاحب نے ببا نگ دہل یہی تو کیا جس سے کچھ مفاد پر ست اور استحصالی
عناصر چراغ پا ہوگئے اور ان کے خلاف پروپیگنڈ ے شروع کردئے: میں مطمئن ہوں
اگر چہ خراب ہے ماحول
خزاں کے بعد کا ماحول بہار ہوتا ہے
(ماہر القادری)
مولانا سلمان صاحب کو جس طرح اردو زبان میں خطابت پر عبور حاصل ہے ۔ اسی
طرح عربی زبان میں آپ کو پورا ملکہ اور مہارت بلکہ اہل زبان کی طرح آپ عربی
زبان میں بے جھجک تقریر کرتے ہیں ۔آپ کی عربی زبان و ادب کی اس بے پناہ
قدرت پر عرب کے بڑے بڑے زبان و ادب کے ماہر اور شناور آپ کے اس کمال اعتراف
میں سر دھنتے ہیں اور آپ کی عربی زبان دانی پر دل کھول کر خراج تحسین پیش
کرتے ہیں ۔
آپ کی خطابت کی خوبی اور کمال صرف یہی نہیں ہے کہ محض آپ ایک انقلابی مقر ر
ہیں اور وقتی طور سے دلوں میں حرارت اور گرمی پیداکردیتے ہیں اور تحرکات
حیات میں نیا جوش بھر دیتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں تو مسلم ہیں۔ لیکن آپ کی
اپنی ایک فکر ہے ایک وژن ہے ایک مشن اور منشور ہے جو آپ کے سامنے ہر وقت
رہتا ہے۔مزید آپ کے یہاں علم کے ساتھ استدلال کی قوت اور اپنی بات کی پختگی
اور ثبوت کے لئے قرآنی آیتوں اور حدیثوں کا جو استحضارآپ کی خطابت میں
سنائی دیتا ہے اس کا تصور ان کے معاصرمیں کم ہی دکھا ئی دیتا ہے۔ اسی طرح
آپ کی انفرادیت میں عالم اسلام کے تاریخی ، جغرافیائی، سیاسی ، سماجی، ثقا
فتی اور تہذیبی منظرنامے کے حوالے سے جو معلومات مولانا سلمان کو حا صل ہیں
وہ ان کی امتیازی شان میں ایک خوبصورت اضافہ ہے بلکہ میں تو آپ کو عالم عرب
کی سیاست اورتاریخ و ثقافت کا انسا ئیکلو پیڈیا مانتا ہوں ۔
یوں تو حضرت مولانا سید سلمان صاحب کی شناخت اور پہچان ایک خطیب اور بے باک
مقر ر کی حیثیت سے ہے ۔ جبکہ مولاناکا قلم سے بہت پرانا رشتہ اور تعلق ہے ۔
عربی اور اردومیں تقریبا سو سے زائد کتابیں آپ کے قلم گہر سے نکل کر اہل
فضل و کمال اورتشنہ کامان علم کی روح کو تسکین عطاکررہی ہیں۔ خاص طور سے
یہاں آپ کے نثری بیانیہ کا ذکر اور لفظیات کے استعمال پر آپ کی غیر معمولی
نظر اور قدرت کے حوالے سے گفتگو بڑی اہمیت کی حامل ہوگی ۔ آپ کے نثری
بیانیہ کے حوالے سے آپ کی تخلیقی فعالیت خوب سے خوب تر کی مصداق ہے ۔ آپ کے
لفظی ڈکشن میں جمال سے زیادہ خطابت کی طرح جلال ہے، جذبہ اور بلاکی جرأ ت
اظہار اور احتجاج آپ کے نثری اسلوب کا اہم حصہ ہے بلکہ آپ کے نثری حسن کاری
کے معیار اور اعتبار کو دوبالا کردیتا ہے ان تمام باتوں اور خصوصیات کے
ساتھ جمالیاتی رعنا ئی اور شگفتگی کا منظر بھی آپ کے یہاں خوب دیکھنے کو
ملتا ہے ۔ قلم کے دورانیہ میں جہان معلومات اور علم کا پندار بھر پور
جولانیا ں نمودار کرتاہوا بے کنار جزیروں کی طرف رواں دواں ہوجا تا ہے ۔
پورے عالم اسلام بلکہ امت مسلمہ کی اکثریت کے اندر عالم اسلام کے حساس
مسائل کے اندر خصوصاً فلسطین اور مسجد اقصی کے حوالے سے جو عام بے حسی پائی
جاتی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ تاہم اس حوالے سے مولانا سید سلمان صاحب
ندوی کا کردار اور کارنامہ غیر معمو لی داد تحسین کے قابل ہے ۔ آ پ نے عالم
اسلام کے سیاسی اور سماجی مسائل پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور
مسجد اقصی کی بازیابی اور تقدس کو زندہ رکھنے کے لئے امت مسلمہ کے ضمیر پر
ہمیشہ دستک دی ہے ان کا لہجہ اور آہنگ مظلوم انسانیت کی طرف سے عرب
حکمرانوں کی عام بے حسی پر تازیانہ عبرت رہا ہے ان کی بے خوف صدانے ان کے
ظالمانہ ایوانوں میں ہلچل مچا رکھی ہے ان کے قبیح اور مکروہ چہروں کے سامنے
آپ نے سپر اندازی نہیں کی بلکہ سینہ سپر ہوکر ان کی آمریت کو چیلنج کیا ہے
ان کے ظلم کو ظلم کہا اور مزید اس بے باک جرأت اور صداقت کی خاطر ہر طرح کے
لالچ اور مفاد کو مستانہ وار ٹھکرادیا۔ غرض کوئی چیز مظلوموں کی حمایت سے
آپ کو روک نہیں سکی ریا اور منافقت کے نقاب کو آپ نے کبھی اپنے چہرے پر
نہیں لگا یا ۔
تعلیمات تزکیہ قلب اور اصلاح نفس کے حوا لے سے مولانا سید سلمان ندوی کا
خانوادہ پہلے ہی سے روحانی وطن کی حیثیت رکھتا ہے خصوصاً آپ کے ننہیا لی
رشتے میں بڑے بڑے مصلح پیدا ہوئے ۔لوگوں کے قلوب اور نفس کی اصلاح کا فریضہ
کامیابی کے ساتھ انجام دیا ۔ ان نجیب الطرفین نسبتوں کی بنیاد پر تزکیہ قلب
اور اصلاح نفس کا یہ گوشہ مولانا سلمان صاحب کی پوری زندگی میں ایک سنگ
نشاں کی حیثیت کی مانند ہے ۔ آپ کے والد محترم حضرت مولانا سید محمد طاہر
صاحب حسینی مظاہر ی ؒ حضرت شیخ زکریا کاندھلویؒ کے صحبت یافتہ اور مجاز
تھے۔ اسی طرح آپ کی تسمیہ خانی کا آغاز شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین کے
مدنیؒ کے مبارک کلمات کی ادائیگی سے ہوا۔پھر آپ نے اپنے نانا محترم حضرت
مولانا سید ابوالحسن ندویؒ کے دست ولایت پر حضرت سید احمد شہید ؒ کے طریقے
کے مطابق باضابطہ بیعت کی اور ان کے حلقے اور اثرمیں داخل ہو کر راہ سلوک
طے کئے ۔اس طرح آپ سالک سے عارف بننے کی راہوں پر کامیابی کے ساتھ گامزن
ہوئے ، بڑے بڑے اکابر اور بزرگوں کی صحبت اور ان کا اعتماد آپ کو حاصل ہوتا
رہا ۔ حضرت شیخ زکریا ؒ کاندھلوی ،حضرت شاہ محمد احمد پر تاپ گڈھی ؒ وغیرہ
کی نورانی مجلسوں میں حصول معرفت کی خاطر آپ کا سفر جاری و ساری رہا ۔روح
اور روحانیت کے بہت سے چشموں سے سیرابی حاصل کر نے کے بعدقطب ارشاد حضرت
سید شاہ نفیس الحسینی ؒ اور ولی ٔ مرتاض مولانا سید رابع حسنی ندوی دامت
برکاتہم نے آپ کو اپنا مجاز بناکر مصلح ہونے کا جواز اور سند عطاکی ۔ لیکن
یہ بھی یاد رہے کہ مولا نا سلمان صاحب کا تصوف علامہ اقبال کے نظریے کی طرح
خانقاہی نہیں ہے بلکہ وہ خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری کی دعوت اور عمل پر
یقین رکھتے ہیں ، آپ کے یہاں تصوف نام ہے حرکت حیات اور جہد مسلسل کا،
منزلوں کی تلاش، طلب اور جستجوکا ،حرکت عمل اور پابند عمل کا ۔ بقول اقبال
:
ہر خطہ نیاطور نئی برق تجلی
اﷲ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
سچی بات یہ ہے کہ ہم نے ہندوستان میں بہت سی عظیم اور قدآور شخصیتوں کو
اپنی تنگ نظری ،تعصب اور عصبیت بلکہ انانیت کی بنیاد پر نظر انداز کیا ہے،
ہمارے ملک میں جہاں آپسی اتحاد کے تعلق سے بہت سی خوبیاں اور اچھائیاں ہیں
لیکن ساتھ ہی ایک بڑی کمزوری یہ بھی رہی ہے کہ ہم بہت جلد دفاعی پوزیشن میں
آجاتے ہیں اور یہ دفاعی پوزیشن کبھی کبھی اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ حدود کو
پھلانگ جاتی ہے ۔ ہمیں اس طرح کی دفاعی پوزیشن کے بارے میں تھوڑا سانرم
رویہ اختیار کرناہوگا اور کسی بھی صورت دوسروں کی رائے اور جذبات کا احترام
کرنا سیکھنا ہوگا ۔ کیوں کہ ہماری یہ عادت اور سوچ بن گئی کہ و و سروں کی
محقق باتیں بھی ہمارے کانوں سے یونہی اجنبی ہواؤں کی طرح گزرجاتی ہیں کچھ
موقع ملتا ہے تو منفی رخ اختیار کر کے ان ہواؤ ں کے خلاف بھی بغاوت کی حد
تک چلے جاتے ہیں گز شتہ صدیوں سے آج تک اپنی علمی بالادستی کی بنیا د پر
علم و تحقیق کے ایسے گوہر آبدار اور بے مثال شہ سوار ہم نے ضائع کردیے ہیں
جن کی عطر بیزیوں سے آج بھی ایک زمانہ منور اور کہکشاں کی مانند روشن ہے ۔
اور مزید افسوس اس پر ہے کہ ان شخصیات کا تعلق یا نسبت ندویت کی طرف یا
قاسمیت کی طرف یااسی طرح کسی دوسرے مکتب فکر کی طرف کر کے ان کی اہمیت کو
کم کیا گیا ہے ۔ سچائی کے ساتھ اگر اس حقیقت کا اعتراف کیا جائے تو کیا یہ
ہمار ے مذہبی جنون کی علامت اور ضد نہیں ہے ۔ بہرحال اسی ضمن میں ذکر
مولانا سلمان صاحب کا کرتے ہیں ان کے بارے میں ہمارا رویہ اب دوحصوں میں
تقسیم ہوگیا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ ایسی متنازع شخصیت کے روپ میں داخل
ہوگئے۔ جہاں ایک طبقہ ا ن کی ہر بات کو الہام کا درجہ دیتا ہے اور دوسرا ان
کی ہر بات کو رد کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے میرے خیال میں دونو ں ہی طبقے
حقیقت پسندی سے دور ہیں کیوں کہ ان دونوں کو جذبات اور تعلق داری اور آپسی
چپقلش سے ہٹ کر انصاف پسندی کے ساتھ ان کی باتوں اور ان کے تفردات پر غیر
جانبدار ہو کر غور کر نا چاہئے یہی انصاف اور یہی وہ حقیقت پسندی ہے جو اہل
علم کا طریقہ رہا ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا سید سلمان صاحب کی شخصیت کئی اعتبار سے ہمارے لئے
بڑی اہم اور بابرکت ہے ، آپ کی عبقریت کے اس تقدس کو دنیا بھر میں اعتبا ر
اور محبوبیت کا درجہ حاصل ہے۔اور وہ شہرت انہیں ان ہی اضافی خوبیوں اور خصو
صیات کے سبب ملی ہے جو ان کے اندر انفرادیت کے جوہر اور اعزاز کے ساتھ
موجود ہیں آپ کی سب سے بڑی خوبی اپنے معاصر میں یہ ہے کہ حق گوئی اور حرف
صداقت پر قائم رہنا اور باد مخالف کے رخ کو موڑ دینا بلکہ باد سموم کے خلاف
ڈٹ کر کھڑا ہو جانا آپ کی انفرادی شان ہے بلکہ آپ کی اس عظمت پر آپ کے بہت
سے واقعات گواہ ہیں کبھی آپ کی جرأت اظہار کو کسی مصلحت نے اپنے حصار میں
نہیں لیا۔ ان کو معلوم ہے کہ قوموں کے لئے اس بے باک صداقت میں بڑی خیر
پوشیدہ ہوتی ہے ۔ اور قومیں جب اس جوہر سے محروم ہوتی ہیں تو ان کے مستقبل
پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ آج ہمارے پاس ایسے بہت کم لوگ ہیں جو حق کو حق اور غلط کو
حرف غلط کہتے ہیں ۔رہی بات زمانے کی ناقدری اور بے تو قیری کی تو ہم نے
اپنے لعل و گوہر کی عظمت اور عبقریت کو پہچاننے میں ہمیشہ غفلت برتی ہے
لیکن اﷲ تعالیٰ نے ا ن لوگوں کو خاص اعزاز اور انعام بخشاہے جن کے ساتھ ہم
نے اپنی انانیت کی خاطر دہرا رویہ اختیار کیا ہے ۔ کیا علامہ شبلی ؒ سرسید
ؒ اور اقبال ؒ کی عظمت اور تقدس کو زمانے نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود
عظمت اور تقدس کی مہر ثبت نہیں کی کیا زمانہ ان کو بھول گیا؟وہ آج بھی
زمانے میں ستارہ سحر کی مانند آسمان شہر ت پر اپنی پوری تابانی کے ساتھ چمک
رہے ہیں ۔ لیکن ان تمام تر تاریخی سچے حقائق کے باوجود پھر بھی زمانے کی یہ
عادت ہے کہ ہر اس شخص کو جو ندرت فکر و خیال اور کسی نظریاتی مشن کا مبلغ
اورپیروکار ہوگا زمانہ اس کے ساتھ کچھ اس طرح ہی سختی سے پیش آتا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ مولانا سید سلمان حسینی ندوی کو کیا اپنی حیثیت
اور شخصیت کا مکمل ادراک نہیں ہے ۔ کیوں کہ اگر انہیں اپنی حیثیت کا واقعی
مکمل اندازہ ہوتا تو وہ انہیں باتوں سے نکلنے کو کیوں تیار ہی نہیں جو
انتشار اور ختلاف کا سبب بنتی ہیں ۔ حال ہی میں انہوں نے پھر ندوہ انتظامیہ
کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس سے بھی زیادہ غیر ذمہ دارا نہ عمل
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کو اعلانیہ مشورہ پیش
کردینا ،آپ کو ہر گز سوشل میڈ یا پر یہ مشورہ ان کو نہیں دینا چاہئے تھا
اگر کوئی بات ایسی تھی بھی تو اس کو خط لکھ کر کہی جاسکتی تھی ۔ کیو ں کہ
حضرت مولانا محمد رابع صاحب ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں دنیا بھر میں آپ کو
اعتبار نیک نامی اور محبوبیت حاصل ہے اس لئے مولانا سلمان صاحب کو انکے
احترام کے پیش نظر ایسی باتوں سے خاص طور سے سوشل میڈیا پر لامحالہ بچنا
چاہئے تھا۔ خیر ضمنا میں یہاں ایک بات کہہ رہا ہوں ہر ایک اس میں میرا
مخاطب ہے میں کسی کو نشانہ بناکر نہیں کہہ رہاہوں اور نہ مقصد کسی کی دل
شکنی ہے ’’کہ کبھی کبھی شخصیتیں ایسے بلند مقام پر ہوتی ہیں جہاں تمام دنیا
ان کی عزت اور احترام میں اپنی پلکیں بچھا دیتی ہیں لیکن کبھی اس کے برعکس
آپ کو آپ اپنی عزت اور احترام خود کرنا پڑتا ہے کیوں کہ انسان کے لئے دونوں
ہی مقام پلصراط کے مانند ہیں ۔کبھی عزت ہوتی ہے اور کبھی عزت کا خود خیال
کرنا پڑتا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا علمی سرمایہ اسی صورت میں بقا ، استحکام اور محبو بیت کا
عنوان بنے گا جب ہمارا اعتماد اور اعتبار باقی رہے گا اگر کسی انسان کا
اعتبار اور اعتماد کسی سبب کم ہوجائے تو اس کا پورا سرمایہ حیات، افتخار
اور اقبال کی منزلوں سے دور ہو جا ئیگا چاہے وہ علم کے کسی مقام پر فائز ہو
جائے۔
میں اس مضمون کو اس اعتراف کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ مولانا کی عظیم شخصیت
اور افکار و خیالات پر جو کچھ لکھا گیا ہے یہ حرف آخر نہیں ہے ۔ مولانا کی
زندگی کے بہت سے گوشہ ایسے ہیں جو میری علمی کم ما ئیگی کی وجہ تشنہ رہ گئے
اس لئے کسی صاحب فضل و کمال کو قلم اٹھانا چاہئے اور مولانا کی علمی زندگی
پر سیر حاصل گفتگو ہونی چاہئے ۔
|