جونہی ہم نے ملتان ایئر پورٹ کے
مین گیٹ سے اندر قدم رکھا تو ایسے لگا کہ ہم بس سٹینڈ پر آگئے ہیں، ہر طرف
کاغذ گرے ہوئے اور کچرا پڑا ہوا تھا، صفائی نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی،
عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو حکم ہوا کہ باہر نوٹس بورڈ ملاحظہ
فرمائیں ، فلائیٹ دو گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوگی، وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں
، تو سامنے دفتر میں تشریف لے جائیں، تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ابھی
آپ اند ر نہیں جاسکتے ، کیونکہ کاؤنٹر ابھی نہیں کھلا۔ ان کے بتائے ہوئے
دفتر پہنچے تو انہوں نے لاعلمی اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ہمیں
مزید آگے روانہ کردیا کہ اصل حقیقت ’ٹریفک ‘ والے ہی بتا سکتے ہیں۔
ٹریفک والوں نے واقعی حق گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا کہ جہاز ابھی ابھی
لاہور روانہ ہوا ہے ، بس ایک چکر لگا کے ابھی واپس آجاتا ہے تو اسلام آباد
روانہ ہوجائے گا ، رختِ سفر باندھ رکھئے ۔ابھی اندر بیٹھنے کا اذنِ عام
نہیں ملا تھا ، ہم نے سوچا چلیں ،کاؤنٹر کھلنے تک کینٹین کو رونق بخش دیتے
ہیں، گرمی سے تپتی ہوئی کینٹین میں داخل ہوئے ، تو ہم ہی ہم تھے، (یاد رہے
کہ یہ مغرب کے فوراً بعد کا وقت تھا، مگر پسینہ خشک ہونے کا نام نہیں لیتا
تھا )،کینٹین کے اونچے کاؤنٹر کے پیچھے چھپے بیٹھے دو افراد ہمیں مسلسل
مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے ، لیکن اتنا ہوا کہ ہم نے مجبوراً وہاں ایک
گھنٹہ گزارا ، اس دوران ایک بھی گاہک بھولے سے بھی اندر داخل نہیں ہوا۔
خدا خدا کرکے کاؤنٹر کھلا، اندر داخلے کی اجاز ت مرحمت فرما دی گئی۔بعید
نہیں کہ ابھی انتظار کی گھڑیاں اور بھی طویل ہوتیں ، وہ تو بھلا ہو چند
غیرملکی مسافروں کا کہ ان کی آمد کے بعد دروازوں کے بند رہنے کے امکانات
صفر ہوگئے تھے، ہوسکتا ہے ، کہ ایئرپورٹ کے عملہ کی مہمان نوازی کی بدولت
اور اقدار کی پاسداری کے سبب ہی غیرملکی مہمانوں کے لئے دروازے کھول دیئے
گئے ، مگر گمان غالب یہی ہے کہ ہم مغربی یا امیر ممالک کے سامنے زیادہ دیر
کھڑے نہیں ہوسکتے۔ مہمانوں کی تکریم بہرحال لازم ہے۔ لاؤنج میں ہی مسافروں
کی مشروب وغیرہ سے تواضع کردی گئی ، تاکہ مسافرانتظار کی کوفت سے مایوسی
میں مبتلا نہ ہوجائیں اور دوسرے یہ کہ راستے میں زیادہ تنگ نہ کریں۔ کوئی
گھنٹے بعد خوشخبری سنائی گئی کہ فلائٹ لاہور سے روانہ ہوچکی ہے، کچھ جان
میں جان آئی ، کچھ امید بندھی،آٹھ بجے والی پرواز ساڑھے دس کے قریب روانہ
ہوہی گئی۔
چھوٹے جہاز میں سفر کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مسافر ادھر ادھر
کی بجائے اپنی توجہ درود شریف ، کلمہ طیبہ اور آیت الکرسی اور دیگر تسبیحات
پر ہی مرکوز رکھتے ہیں۔چلیں مصروف زندگی میں یہ چند لمحے تو انسان کو میسر
آ جاتے ہیں۔پی آئی اے والے اپنے معزز اور باکمال مسافروں کی صحت کا بھی بہت
خیال رکھتے ہیں، اول تو ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسافر دوران ِ سفر کھانے
پینے سے پرہیز ہی کریں تو بہتر ہے،کیونکہ اس سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں،
چنانچہ پی آئی اے والوں نے نہایت احتیاط سے کام لیتے ہوئے فروٹ کیک کا ایک
ایک ٹکڑا پیک کیا ، اسی میں چینی اور دودھ کی پڑیا بھی رکھ دی ، کیک کا یہ
ٹکڑا کسی بہت ہی اعلیٰ بیکری کی پیش کش لگتی تھی کہ دوچار دن بچا رہے تو
بھی خراب نہ ہو۔
اگلے روز لاہور سے بھی کچھ دوستوں نے ہوائی سفر کرنے کی غلطی کا ارتکاب
کرلیا تھا، ان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جہاں انہوں نے صبح آٹھ بجے پہنچنا
تھا ، وہاں وہ دوپہر تک پہنچ گئے۔ہم نے حساب لگایا کہ اگر بہاول پور سے کسی
اچھی سروس کے ذریعے اسلام آباد کا سفر کیا جاتا تو شاید دونوں میں اتنا ہی
وقت درکار ہوتا،کچھ یہی احوال لاہور والوں کا ہے ، یہ بھی گمان ہوسکتا ہے
ریلوے کے ختم ہونے کی صورت میں ریلوے لائینوں پر کچھ خرچہ کر کے انہیں رن
وے کی شکل دے دی جائے، رن وے سے مراد یہ ہر گز نہ لیا جائے کہ یہاں سے اڑان
بھر کر جہاز ہوا میں بلند ہوگا ، بلکہ رن وے سے مراد جہاز کے بھاگنے کی جگہ
۔ اگر پی آئی اے کی یہی رفتار رہی تو جہاز کی عدم دستیابی یا تاخیر کی صورت
میں یہاں بسیں بھی چلائی جاسکتی ہیں، کیونکہ دونوں ذرائع سے وقت تو برابر
ہی لگے گا۔ |