"ممکن ہے یہ میرا وہم ہو ،میں ایک عام آدمی ہوں مجھے آج
کل کچھ ذیادہ ہی بے بسی کا احساس ہونے لگا ہے مجھے شدید غصہ آتا ہے مجھے
لگتا ہے جیسے یہ ملک اب کسی نارمل انسان کے رہنے کے قابل ہی نہیں رہا ،
انصاف یہاں نام کو بھی نہیں ، یہاں محفوظ صرف طاقتور اور دولت والا ہے خواہ
یہ طاقت اور دولت کسی بھی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو ، ہم کس پہ
اعتبار کریں ؟ جرنیل، جج اور سیاستدان سب ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں ۔
یہ سب جب تک عہدوں پہ ہوتے ہیں ان سے بڑا ملک و قوم کا محسن اور محب وطن
کوئی نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی یہ ریٹائرڈ ہوتے یا اقتدار سے ہٹتے ہیں ان کی
پہلی منزل کوئی یورپین ملک ہوتا ہے تاکہ دوران سروس اکٹھی کی گئی حرام کی
کمائی سے وہاں داد عیش دے سکیں ۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں کے محافظ جرنیل ،
قانون کی بالا دستی کا نعرہ بلند کرنے والے ججز ، اعلی بیوروکریٹ افسران،
وفاقی وزراء حتی کہ تین تین بار وزیراعظم رہنے والے بھی اپنی اولادوں کو
یہاں رکھنا گوارہ نہیں کرتے، میرے دوست مجھے ڈر ہے معاشرے میں روز بروز
برھتی ناانصافی مجھے پاگل کردے گی "۔
امجد صاحب میرے پرانے دوست ہیں ہم نے زندگی کے کئی ماہ و سال اکٹھے گزارے ،
آج ملے تو غم و غصے سے پھٹ ہی پڑے وہ پاکستان کے دہرے ظالمانہ اور منافقانہ
نظام سے سخت خائف دکھائی دے رہے تھے میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ
رہا تھا میں انہیں کیا تسلی دوں کہ خود میرے اندر بھی تو ایسا ہی لاوا ابل
رہا تھا ، مجھے یاد آیا سانحہ ساہیوال میں جب معصوم بچوں کے سامنے ان کے
والدین کو چھلنی کردیاگیا تھا تو میں بھی کئی دن ایسی ہی جھنجھلاہٹ زدہ
کیفیت کا شکار رہا تھا ، میں نے انہیں ٹھنڈا پانی پیش کیا اور ان سے یہ
ساری تمہید باندھنے کی وجہ پوچھی ۔
وہ عدالت کی طرف سے کانسٹیبل قتل کیس کے ملزم رکن اسمبلی مجیداچکزئی کی
باعزت رہائی پہ اداس اور غم زدہ تھے،ان کا کہناتھا"تصاویر اور ویڈیو میں
طاقتور مجید اچکزئی کو طاقت اورشراب کے نشے میں دھت کانسٹیبل کو اپنی قیمتی
گاڑی کےٹائروں تلے کچلتے صاف دیکھا جاسکتا ہے پھر بھی اسے شک کا فائدہ دے
کر رہا کردیا جاتا ہے اور دوسری طرف لاکھوں غریب پاکستانی چھوٹے چھوٹے
مقدمات میں سالوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں انہیں رہا کرنے میں کونسی چیز
مانع ہے ؟ ۔
میں نے انہیں بتایا کہ " ایک عام پاکستانی اور مجید اچکزئی جیسوں میں زمین
آسمان کا فرق ہے ، مجید اچکزئی جیسے لوگ ہمیں لوٹ کر کیڑے مکوڑوں کی طرح
ہمیں ہی مارنا اپنا حق اور عین ثواب سمجھتے ہیں ، عمران خان نے درست فرما
یا تھا" غریب آدمی کے لئے سکون اب صرف قبر میں ہی ہے "۔
میرے ملک میں چھوٹے موٹے چور کے لئے بچنے کا کوئی رستہ نہیں موقعے پہ پکڑا
جائے تو ہجوم کے ہاتھوں مارا جاتاہے پیٹرول ڈال کر جلایا بھی جاسکتا ہے ،
پولیس لے جائے تو ایسا ذلیل کرے کہ ساری زندگی خود سے نظریں چراتا رہے ۔
ایسا نہیں کہ گناہ یا جرائم کو ہمارے معاشرے میں قبیح عمل سمجھ کر اس سے
سخت نفرت کی جاتی ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹی موٹی چوری کرنا بہت
بڑا گناہ ہے اگر آپ کی چوری یا کرپشن کروڑوں یا اربوں میں ہے تو اطمینان
رکھئے اس ملک میں کوئی آپ کو پوچھ سکتا ہے نا آپ کا کچھ بگاڑ سکتا ہے ۔
کوئی غم نہیں یہاں جج اربوں ڈکار جائیں ، بیورو کریٹ پورا ملک کھاجائیں ،
جرنیلوں کے اکاونٹس میں کروڑوں ڈالر پڑے رہیں اور سیاستدانوں کی تو بات ہی
مت کیجئے یہ تو وہ مخلوق ہے جس کے لئے فرشتے بھی پریشان ہوجاتےہونگے کہ ان
کے لئے کچھ حرام ہے بھی کہ نہیں؟ ۔
میرے ملک میں جرائم کرنے کے لئے بس طاقتور ہونا ضروری ہے اگر آپ کے پاس
عہدہ ، دولت اور طاقت ہے تو بے فکر ہوکر پورا ملک بیچ دیجئے ، گناہ جرم
کرنا نہیں بس چھوٹا جرم کرنا ہے ۔
کراچی میں سرعام بے گناہ نوجوان سرفراز کو گولی مارنے والے اہلکار بھی رہا
ہو گئےتھے ،
ماڈل ٹاؤن میں 14 قتل اور 84 زخمی کرنے والے بھی آزاد ہیں ،
اورسانحہ ساہیوال کےسب کردار بھی بری ہو گئے تھے
اب ایسے میں ایک آن ڈیوٹی غریب پولیس والے کو کچلنے والا مجید اچکزئی رہا
ہو گیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی ہے ؟۔
ہندووں سے علیحدہ جداگانہ تشخص کو قائم رکھنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے اس
ملک کی اساس دو قومی نظریے کو قراردیاتھا ، افسوس وہ نظریہ تو ہم نے بہت
پہلے کہیں قبر میں اتار دیاتھا۔ اب ایک نیا دوقومی نظریہ پنپ رہا ہے عملا"
آج بھی ہمارا ملک دو قومی نظریے پہ ہی چل رہا یے ایک امیر کے لئے نظریہ اور
دوسرا غریب کے لئے، لیکن یہ موجودہ نظریہ اس نظریے سے یکسر مختلف ہے جس کے
لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں ۔ |