اسلام وعلیکم :- میرے سوہنے رب کی بنائی گئی مخلوق میں
انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ اسے خود پوری طرح سے اپنی خوبیوں اور خامیوں کا
علم کبھی نہیں ہوتا۔ ہم بے شمار صلاحیتوں کے ہوتے ہوے کبھی خود کو مکمل طور
پر کھوج نہیں پاتے۔ یا پھر شاید ہمیں یہ کھوجنے کی تمنا ہی نہیں ہوتی کہ
ہمارے اندر کیا کچھ چھپا ہوا ہے ۔ میں نے اس سے پہلے سوچ کو الفاظ کی شکل
نہیں دی تھی تو کبھی سمجھ نہیں سکی کہ لکھنے سے میری سوچ کے کتنے نئے
دروازے مجھ پر کھل جائیں گے ۔ آج سے پہلے میں بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اس
بات کی قائل تھی کہ ہمارہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اس میں مرد طاقت ور
اور عورت کمزور ہے ۔ اس میں بدلاؤ صرف مرد ہی لا سکتے ہیں اور مرد ایسا
کبھی نہیں چاہیں گے کیوں کے وہ اپنی حاکمیت سے دست دربار کیوں ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان نکات پر سوچتے سوچتے میں اپنی سوچ کی راہنمائی میں بہت پیچھے چلی گئی
اور تب مجھ پر اشکار ہوا کہ مردوں کے اس معاشرے کی بانی تو خود عورت ہی ہے
۔ مردوں کے مظالم کے خلاف روتی چلاتی عورت ۔ یہی عورت ازل سے گھر کی چار
دیواری میں خود اپنے ہاتھوں سے حاکم ،جابر اور ظالم مرد کو پروان چڑھا رہی
ہے ۔
جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے ۔میں اور آپ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ معاشرہ بے شک
مردوں کا ہے ۔ پر ان مردوں کی پرورش ازل سے عورت کے ہاتھ میں ہے۔ کسی دانا
کا کہنا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو ۔ ۔میں تم کو بہترین قوم دوں گا
الحمدللّٰہ ہمارہ معاشرہ اتنا زوال پزیر نہیں ہوا کہ بیٹی کی پیدائش پر
افسوس کا اظہار کیا جائے ہم رب باری تعالٰی کی رضا پر راضی ہو جاتے ہیں پھر
وہی رب دلوں میں بے پناہ محبت ڈال دیتا ہے اور بیٹیاں گھر بھر کی لاڈلی بن
جاتی ہیں ۔ اور پھر جیسے جیسے بیٹی بڑی ہوتی جاتی ہے ۔ ہم اسے یہ بارور
کراتے رہتے ہیں کے تم بیٹی ہو تمہاری کچھ حدود ہیں جو ہمارے مذہب اور
معاشرے نے تم پر لگائی ہیں کل کو تم نے دوسرے گھر جاناہے تم کو گھر کا ہر
کام آنا چاہیے ۔ زبان کو شائستہ رکھو ورنہ سسرال میں مسلۂ ہو گا ۔ دیر تک
سونے کی عادت مت ڈالو سسرال میں کیا کرو گی ۔
جب بیٹی آفس یا کسی ایسی جگہ مصروف ہوتی ہے جہاں مردوں کی موجودگی ہو تی ہے
۔وہاں تو بیٹی کو ہدایات کی ایک لمبی لسٹ تھما دیتے ہیں کہ غیر مردوں سے
بات مت کرنا ۔ عورت اور مرد کے بیچ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ شیطان کو موقع
نہیں دینا ۔ خود ہی مردوں سے دور رہو ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
میں یہ نہیں کہ رہی کہ ہم غلط کرتے ہیں ۔ ہم بلکل ٹھیک کرتے ہیں ۔ ہماری
لاپرواہی وہاں سے شروع ہوتی ہے ۔ جہاں ہم بیٹی کو تو وہ سب گائیڈ کرتے ہیں
جو ہمیں کرنا چاہیے پر کیا اس معاشرے میں جسے ہم مردوں کا معاشرہ کہتے ہیں
صرف ہماری بیٹیاں ماحول میں سدھار لا سکتی ہیں ۔ بلکل نہیں وہ اپنی حفاظت
کے لیے وہ سب کریں گی جو ہم نے انُ کو سکھایا ہے ۔ پر وہ پھر بھی ناکام
رہیں گی کیونکہ ہم نے ادھوری تربیت کی ہے۔ ہم نے معاشرے کے دوسرے اور طاقت
ور رکن کو سکھایا ہے کہ بیٹا اپنے گھر کی عورت پر پوری نظر رکھو ۔ کسی کو
اس کی طرف میلی نظر بھی نہ ڈالنے دینا ۔ میرا بیٹا تو شہزادہ ہے ۔ ہر لڑکی
کی نظر ہے میرے بیٹے پر ۔ جس لڑکی پر میرا بیٹا ہاتھ رکھے گا ہم اسی کوبیاہ
کے لے آیں گے ۔
اگر ہمارہ بیٹا راہ چلتی کسی عورت کی کوئی مدد کرے اور گھر آ کر ذکر کرے تو
ہم فورًا کہتے ہیں تمہیں کیا ضرورت تھی خدائی فوجدار بننے کی ۔ ایک تم ہی
تھے وہاں اور کوئی نہیں تھا ۔ پرائے معاملے میں کیا ضرورت ہے ٹانگ اڑانے کی
۔ اور کیا معلو م کیسی عورت تھی اس کا کوئی اپنا کیوں نہیں تھا اس کے ساتھ
۔ ایسی عورتیں مردوں کو گھیرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہیں ۔ حتیٰ کے ہم اپنے
بیٹے یا بھائی کی مکمل برین واشنگ کر دیتے ہیں کہ وہ کبھی اپنے گھر کی عورت
کے علاوہ کسی کا بھلا نہ کرے چاہے کوئی کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو۔ یوں
آہستہ آہستہ وہ اپنے گھر کی عورت کے علاوہ ہر عورت کو بے زرر اور حقیر
سمجھنے لگتا ہے ۔ اسے کوئی پروا نہیں باہرکسی کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ دفاتر
میں آنے والی خواتین بھی انسان ہیںجبکہ نہیں وہ یہ سوچتا ہی نہیں کہ ان کو
بھی حق ہے اپنی صلاحیتوں کو بروکار لا کر معاشرے کا اہم رکن بننے کا ۔بلکہ
ہمارے یہ بیٹے ان پر آوازیں کسنے لگتے ہیں ۔ یا پھر ان کی طنزیہ نظریں ہر
وقت ان خواتین کو گھیرے رہتی ہیں ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اگر وہ خواتین
کسی بھی ادارے میں کوئی کامیابی حاصل کرتی ہیں تو ان مردوں کو لگتا ہے کہ
یہ کامیابی تو انھوں نے اپنے عورت ہونے پر حاصل کی ہے ۔ یو ں نفرت پروان
چڑھتی رہتی ہے ۔ نسل در نسل مرد عورت کو اور عورت مرد کو حریف سمجھ کر ایک
دوسرے کے لیے انتقامی جذبے کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں ایسے میں جہاں مرد کو
موقع ملتا ہے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کہ اپنی انا کو تسکین دیتا ہے ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ! تو کیا یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا ۔ کون ہے اس کا
ذمہ دار ۔؟ جی ہاں عورت خود ۔۔ہر وہ عورت جس نے اپنے بیٹے کو یہ تو بتایا
کہ تم معاشرے کا طاقت ور رکن ہو پر یہ نہیں بتایا کہ عورت تمہاری حریف نہیں
ہے بلکہ وہ بھی معاشرے کی ایک نہایت کارآمد رکن ہے ۔ مرد اور عورت دونوں کہ
حقوق برابر ہیں ۔۔ ہاں عورت جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہے تو جہاں محسو س
کرو کہ اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اس کی مدد کرو ۔ مگر مذہب اور۔ معاشرے
کی حدود میں رہتے ہوے ۔
ہم عورتوں نے بحیثیت ماں اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جو مرد۔
عورت سے کرتا آ رہا ہے ۔ بلکہ ہم اس نفرت کو اور گہرا کرتے رہے ۔
یاد رکھیے آج مرد صرف اپنے رشتوں کی قدر کرتا ہے میری ماں ، میری بہن ،
میری بیوی ، میری بیٹی ۔ عورت کی قدر وہ ہرگز نہیں کرتا ۔
یوں عورت خود اپنی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ آگہی ہر بار عذاب نہیں ہوتی ۔
شروعات کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے ۔ آئیے آگہی کی اس روشنی کو اپنے بیٹوں
کے اندر روشن کریں ۔ انہیں بتائیں کہ حوا کی بیٹی کو آدم کی پسلی سے اس لیے
پیدا کیا گیا کہ آدم کو ہمیشہ یاد
رہے کہ یہ مجھ سے مختلف تو ہے مجھ سے الگ نہیں ۔
خدا ہم سب کو اپنے حفظ و امان۔ میں رکھے اور ہمیں اپنی آئندہ نسل کو درست
راہ دکھانے کی توفیق دے ۔ آ مین
م |