بر صغیر کی تاریخ میں ایک واقعے کا ذکر موجود ہے جس کے
مطابق اس وقت کے فرمانروا شیر شاہ سوری نے اپنے اوباش سپوت کے کرتوت کی سزا
اپنی بہو کو سنائی تھی کہ اسے برہنہ کر دیا جائے اور مدعی اس کے ساتھ وہی
سلوک کرے جو بادشاہ کے بدقماش بیٹے نے اس کی بیوی کے ساتھ کیا تھا ۔ سوال
صرف اتنا ہے کہ اگر بادشاہ کے بیٹے کی جگہ اس کا داماد ہوتا تو کیا وہ اپنی
بیٹی کے بارے میں بھی یہی حکم جاری کرتا؟
سانحہ موٹر وے کیس کے موقع پر لاہور پولیس کے چیف نے جو کچھ کہا اس پر ملک
بھر تو کیا دنیا بھر سے شدید مذمت اور احتجاج کے بعد موصوف کا وضاحتی بیان
بھی آ گیا جو کہ یقیناً منطقی اور قابل قبول ہے ۔ مگر سوال یہی پیدا ہوتا
ہے کہ اگر متاثرہ خاتون کی جگہ ان کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا وہ تب بھی یہی
کچھ ارشاد فرماتے کہ آدھی رات کو گھر سے اکیلی نکلی کیوں؟ موٹر وے سے کیوں
گئی جی ٹی روڈ کیوں نہ پکڑی؟ پیٹرول چیک کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ؟ کیا وہ
بھرے ہجوم میں پورے میڈیا کے سامنے خود اپنی بیٹی کی کوتاہیاں گنواتے؟ نہیں
ناں؟ بس ساری خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے ہر سطح پر ہر پیمانے پر ۔ قانون
قاعدے اصول ضوابط رسوم رواج رعایتیں روایتیں اپنے لیے کچھ ، اور کسی دوسرے
کے لیے کچھ اور ۔ اتنی بڑی پوسٹ پر تعینات ایک اعلا تعلیم یافتہ اور سینئر
شخصیت کی جانب سے اتنے غیر ذمہ دارانہ غیر پیشہ ورانہ بیان پر ردعمل تو
سامنے آنا تھا ۔ خیر سانحے کو ایک ہفتہ بیت چکا ہے اور اس دوران روز ایک
نئی کہانی سننے کو ملتی رہی اور زیادتی کے مجرموں کی سزا کے طریقہء کار پر
بحث جاری ہے ۔ اور ایسی ذہنی و اخلاقی ناکارہ مخلوق کو جسمانی طور سے بھی
ناکارہ کرنے کی تجویز بھی زیرغور ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ساری عمر کی قید بھی
ہونی چاہیئے ورنہ تو ایسا جانور بس صرف ایک وہی کام نہیں کر سکے گا باقی تو
کیا نہیں کرے گا مایوسی نامرادی اور غم و غصے کی کیفیت میں ۔ قتل و غارتگری
دہشتگردی جہاں موقع ملا کوئی عورت ہتھے چڑھ گئی تو اس کی عزت تو بچ جائے گی
جان نہیں ۔ یہ اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے
گا ایسے جانوروں کو کھلا چھوڑ دینے کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ بھیانک
برامد ہو گا ۔ زیادتی کے ساتھ قتل کے بھی مجرم کی سزا تو سیدھے سیدھے
پھانسی ہی ہونی چاہیئے چاہے سرِ عام یا پرے عام ، مگر ایسے درندوں کو زندہ
رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ غریب بیگناہوں کو جھوٹے الزام میں سزائے
موت یا معمولی سے جرم پر بیس بیس سال تک جیل اور قتل و زیادتی دونوں طرح کے
سفاک مجرموں کی ضمانت پر رہائی اور پھر ان کی دوبارہ کوئی نا کوئی کارروائی
ہماری عدلیہ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے اور سماج کی ساکھ پر اتنا
شرمناک دھبہ ہے جسے پوری دنیا کا پانی مل کر بھی نہیں دھو سکتا ۔ اور ہر
سانحے حادثے کے وقوع پر اپنی سیاست چمکانے والے ، پھانسی کی سزا کی مخالفت
کرنے والے خود ملک و قوم کی ناموس پر کسی دھبے سے کم نہیں شاید انہیں لگتا
ہے کہ پھر ہم بھی نہیں بچ سکیں گے ۔ فکر کی کیا بات ہے جب تک ہمارے جج
سلامت ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ |