آج صفوراں جانے کیلئے بس اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا
تھا کہ خیالوں خیالوں میں یونیورسٹی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ آخر یہ
قسم کا وائرس ہے جس کو صرف تعلیمی اداروں سے دشمنی ہے، پھر ذہن میں خیال
آیا کہ ہوسکتا ہے یہودیوں کی سازش بھی ہوسکتی ہے یا پھر یہ وائرس را (Raw)کا
ایجنٹ ہو جو خفیہ آپریشن کے ذریعے ہمارے ملک کی تعلیم تباہ کرنے پر نکلا ہو
اور اس کا ساتھ دینے باقی دنیا کے ممالک بھی دے رہے ہوں، ان ہی خیالوں سے
تب باہر نکلا جب مسعود بس نے ہارن بجایا۔ جلدبازی میں بس میں چڑھ گیا، سیٹ
پر بیٹھنے کے بعد احساس ہوا کہ میں نے کچھ عجیب سا دیکھا ہے، پیچھے مڑ کر
دیکھا کہ بس کے دروازے پر کھڑے کنڈکٹر کی شکل کورونا وائرس جیسی تھی، سوچا
کہ سوشل ڈسٹنس کو برقرار رکھنے کیلئے کنڈکٹر نے یہ کورونا جیسا ماسک پہنا
ہوگا، کچھ منٹ گذرے لیکن اس متعلق سکون نھ تھا۔ کنڈکٹر آیا، اشارے سے کرایہ
مانگا، میں نے صفوراں کا کہہ ہے پیسے دے دیئے، لیکن اس کے ماسک کے بارے میں
سوچتا رہا اور دل ہی میں کہنے لگا کہ اس محترم کو انسانوں کی جانوں کی
اہمیت کا پتہ ہوگی تب ہی اتنا انتظام کر رکھا ہے۔
سفر جارہ تھا اور میرے سوچنے کا سلسلہ بھی سفر میں تھا لیکن منزل کا کچھ
پتہ نہیں تھا کہ اچانک سے ایک عجیب آواز سنی! جب اِدھر اُدھر دیکھا کچھ خاص
سمجھ میں نہیں آیا، پھر دوبارہ اسی قسم کی آواز سنی، اس مرتبہ بس کے اندر
آواز کو ڈھونڈنے کی کوشش کی اور کامیاب ہوتے دیکھا کہ کنڈکٹر اور ڈرائیور
آپس میں بات کر رہے تھے لیکن آواز ایسی جیسے کوئی بیمار روبوٹ بول رہا ہو۔
تب مجھے شک ہوا حقیقت معلوم کرنے کا خیال ذہن میں باربار آتا رہا، آخر
کنڈکٹر سے بات کرنے کا سوچ لیا۔ جب کنڈکٹر بات کرکے واپس آرہا تھا تب اس کو
اشارہ دے کر اپنے پاس بلایااور پوچھا کہ آپ کی آواز ایسی کیوں ہے؟ اور آپ
نے یہ کورونا جیسا ہیلمٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ آپ لوگوں کو سوشل ڈسٹنس بنانے
کا کہہ رہے ہیں؟ میرے سوال سن کر کنڈکٹر بے اختیار ہوکر ہنسنے لگا، اس کی
ہنسی سن کر مجھے بہت ڈر لگنے لگا، خود کو اندر سے سہارا دے کر بہادری کا
مظاہرہ کیا، چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو، لیکن اندر
سے ایسی حالت تھی جیسی بچپن میں اندھیرے میں ہوجاتی تھی۔ خیر ہنسی رکنے کے
بعد مختصراََ کہا آپ کی حکومت آپکو صحیح کہتی ہے کہ آپ لوگ بے وقوف باآسانی
بن جاتے ہیں۔ یہ سن کر اور بھی الجھ گیا اور چہرے پر پریشانی کے تاثرات
واضع ہوگئے اس پر کنڈکٹر مجھ سے کہنے لگا، اصل حقیقت یہ ہے کہ میں نے کوئی
ہیلمٹ یا ماسک نہیں پہنا ہوا اس میں وہ ہی کورونا وائرس ہوں جس نے مخلوق کو
پریشان کر رکھا ہے۔ ہم نے اپنا ورلڈ ٹوئر کا سفر شروع کرتے وقت کبھی نہیں
سوچا تھا کہ ہمیں اتنا بڑا اور بہتریں ملک میسر ہوگا، جب ہم بہت ملکوں سے
ہوتے ہوئے یہاں تمہارے وطن میں پہنچے تب سب ہی ہم سے ڈرنے لگے، اس کا میں
کیا بتاؤں خود آپ نے دیکھا ہوگا۔
پھر ایک دن آپ کی حکومت نے ہمارے چیف وائرس کی دعوت کی اور جب چیف وائرس
صاحب واپس آئے تو ہم سب کو ایک ہنگامی اجلاس میں بلایا ار کہا کہ ہمیں
ٹھیکہ ملا ہے سب سے بڑا، اور اس کو پورا کرنا ہمارا سب سے بڑا مشن ہوگا۔
شروع میں آپ سب کو ہر جگہ پھیل جانا ہے، اس کے بعد ہمارا مین ٹارگٹ تعلیمی
ادارے کا ہوگا، جہاں پر ہم نے ڈیرے ڈالنے ہیں اور مستقل رہائشی بننا ہے،
ہمیں یہاں کا شناختی کارڈ دینا کا بھی وعدہ کیا گیا ہے اور تو ہمیں کوئی
تعلیمی اداروں سے باہر نکال نہ سکے اس لئے ہمیں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز
کے اسٹوڈنٹ کارڈ فراہم کئے گئے ہیں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسکولوں
کے کارڈ دیئے گئے ہیں۔
کافی دن اِدھر اُدھر پھرتا رہا، ایک دن ہمارے چیف وائرس صاحب نے واٹس اپ پہ
ایک خوشخبری کا میسیج بھیجا جس میں ہمیں (کورونا) اس ملک میں کام کرنے کی
حکومت کے اجازت نامہ سے آگاہ کیا گیا پھر اس کے بعد میں نے بھی بے روزگاری
سے بچنے کیلئے کام کرنے کا سوچا اور ایک دوست کی معرفت بس میں کنڈکٹرکا کام
مل گیا اور اس نے کہا کہ تم کو ڈگری ملنے کے بعد کسی اچھی پوسٹ پر رکھواؤں
گا۔
یہ سارا قصہ سن کر میرے ہوش و حواس نہ جانے کہاں جا پہنچے تھے۔ ہمت کرکے
میں نے ایک اور سوال کیا کہ آپ کو پتہ ہے تعلیمی اداروں میں ہی کیوں رہائش
دی ہوئی ہے؟ تو جواب میں جناب کورونا کہنے لگا کہ ہمارے چیف نے بھی دعوت کے
وقت یہی سوال کیا تھا جس پر ان کو جواب ملا تھا کہ ہمارے مائی باپ نہیں
چاہتے کہ میرے ملک کی عوام پڑھ لکھ کر شعور یافتہ ہو کیوں کہ پھر منی ٹرائل
مانگنے لگتے ہیں۔ اور چیف نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس مشن کو پورا کرنے کے
بعد حسبِ روایت ہمیں رٹائرمنیٹ پر سندھ کے مختلف شہروں جیسے گڈو، کوٹڑی،
کراچی، ٹھٹہ، تھر، گھوٹکی، سکھر اور دیگر شہروں کی زمینیں مفت میں دی جائیں
گی اور ہم کو افغانیوں، برمیوں، بنگالیوں کی طرح یہاں کی شہرت ملے گی۔
اب تو یہ سن کر میں عجیب کیفیت میں چلا گیا اور سوچنے کی انتہا پر جا پہنچا،
جب کنڈکٹر نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ صفوراں آگیا اتر جاؤ، تب خیالوں
کی دنیا سے واپس آگیا اور سیٹ سے اٹھ کر دروازے کر طرف چلنا شروع کیا،
دروازے کے قریب پہنچ کر پوچھا آپ کو کس تعلیمی ادارے کا اسٹوڈنٹ کارڈ ملا
ہے تو جیب میں سے کارڈ نکال کر دکھایا جس پر میری یونیورسٹی کا نام لکھا
ہوا تھا۔
|