18 سالہ غیر شادی شدہ لڑکی اپنی بہن اور والدہ کے
ہمراہ کوٹ خواجہ سعید ٹیچنگ ہسپتال کی ایمرجنسی میں آئی اور معدہ میں درد
کی تکلیف بتا کر ایمرجنسی فیملی وارڈ میں داخل ہو گئی پیٹ میں درد کی شکایت
بتا کر وارڈ کے واش روم میں گئی۔ جہاں اس نے اپنی بہن کی مدد سے بچے کو جنم
دینے کے بعد اسے شاپر بیگ میں ڈال کر فلش کی ٹینکی میں ڈال دیا اور خود واش
روم سے باہر آ کر فرار ہونے کی کوشش کی مگر سکیورٹی و صفائی کے عملے نے
وارڈ اور واش روم میں خون کے قطرے دیکھ کر لڑکی کو پکڑ لیا اور اس سے پوچھ
گچھ کی تو اس نے واش روم کی فلش ٹینکی میں بچے کی موجودگی سے آگاہ کر دیا
جس پر ہسپتال کے عملے نے بچے کو ٹینکی سے نکال کر فوری چیک کیا تو بچہ زندہ
تھا اور سانس لے رہا تھا جسے طبی امداد دینے کے بعد نرسری میں بجھوا دیا
جبکہ اس کی غیر شادی شدہ ماں کو بھی لیبر روم لے جا کر ضروری طبی امداد
فراہم کی اور وارڈ میں داخل کر لیا۔
یہ گزرے سال کی بات ہے کہ اپنی عصمت گنوا دینی والی ایک لڑکی رابی پیرزادہ
کا واقعہ بہت مشہور ہوا۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں اسے لے کر بہت سوں نے
تبصرہ کیے۔ یہ اکیلی ایک لڑکی کا واقعہ نہ تھا ایسی حوا زادیوں کی تعداد
بہت زیادہ ہے جو نام نہاد محبت کے نام پر جنسی تسکین کا سبب بنتی رہی ہیں
مگر ان کی داستان کبھی سنی گئی نہ لکھی گئی کسی نے شرم کے ماری چپ سادھ لی
اور کسی کی رپورٹ رشوت کے ہاتھوں لگ گئی یوں بہت سی بیٹیاں لٹ کر بھی آہ نہ
کر سکیں رابی پیرزادہ کا واقعہ مگر ان سب کو زبان دے گیا کہ ہمارے ارد گرد
ایک نہیں کئی خرابیاں موجود ہیں اس کا اندازہ یوں کریں کہ ایک رپورٹ کے
مطابق صرف 2016 سے 2019 تک پاکستان کی دو لاکھ سے زائد لڑکیوں نے فیس بک پہ
محبت رچا کر اپنی عصمت برباد کی، تین لاکھ سے اوپر ایسی لڑکیوں کی تعداد ہے
جنہوں نے برہنہ تصاویر اور ویڈیو لڑکوں کو سینڈ کی اور اپنی محبت کا یقین
دلانے کی کوشش کی تین ہزار سے زائد ایسی لڑکیاں ہیں جن کی محبوب کے ہاتھوں
پورن ویڈیو بنیں اور ان کی عصمت کا جنازہ انٹرنیٹ کی دنیا میں خوب نکلا۔
یہ وہ اعدادوشمار ریکارڈ کا حصہ بنے جو سرکاری اداروں میں کہیں نہ کہیں درج
ہوئے، یہ سب رابی جیسی لڑکیاں ہیں جو لٹی اور خاموشی اوڑھ کر سوگئی لاتعداد
ایسے واقعات ہیں جو کہیں ریکارڈ نہ ہوئے۔ کسی نے بدنامی کے مارے درج نہ
کیا، کوئی تھانے سے اثرورسوخ کی وجہ سے بچ نکلا اور کسی نے اور طرح ایف آر
سے بچ جانے کی کوشش کی یہ تعداد ہمیں بتاتی ہیں کہ ہماری زندگیوں میں
معاشرتی بے حسی اور بے غیرتی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب گناہ کبیرہ بھی
معمولی سمجھا جانے لگا ہے۔ اپنی عصمت کی بھی فکر نہیں رہی جنسی ہوس نے محبت
کا نام لے کر سب کچھ جائز بنا دیا اور ہمارے معاشرے میں اس محبت کے نام پر
زنا جیسا کبیرہ گناہ بھی اب گناہ کے تصور سے خالی ہے یہ اس معاشرے کی تباہی
کی آخری نشانی ہوتی ہے جہاں گناہ کو گناہ ہی نا سمجھا جائے اور ایسے بڑے
گناہ جن کی حرمت پر غضب الٰہی برستا ہو اسے بھی روز مرہ زندگی کا معمول بنا
لیا جائے تو ایسی قوم پر تباہی یقینی ہو جاتی ہے۔
ہم جس عریانی کے سیلاب میں گلے تک ڈوب چکے ہیں یہی ہمیں ڈبو ڈبو کر مار دے
گا ہماری بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم غیرت اور حیا کو مار چکے ہیں انسانیت
ختم کر کے حیوانوں کی زندگی گزار رہے ہیں حیوان بھی اپنے بچے کو زندہ ضرور
رکھتا ہے مگر انسان اپنے بچے آپ ہی مار رہا ہے۔ حیوانات کی زندگی میں زنا
اور ولد الزنا کوئی معنی نہیں رکھتے اور اب انسانوں میں بھی ایسا ہی ہے۔
مگر اس فعل میں حیوانات انسانوں سے بازی لے گئے ہیں وہ پیدائش کے بعد بچے
کو خود ہی ختم نہیں کرتے اور نا ہی کوڑے کے ڈھیر پر پھینکتے ہیں مگر انسان
اب کثرت سے ایسا کرنے لگے ہیں۔ محبت کے نام پر پہلی ملاقات اور پھر زنا
شادی کے بغیر بچوں کا پیدا ہونا اور پھر ان نومولود کو درگور کر دینا تسلسل
سے ہوتے واقعات آگاہ کرتے ہیں کہ زنا جیسا فعل اب ہمارے معاشرے میں گناہ
نہیں بلکہ ایک معمولی فعل رہ گیا ہے انسان جب شیطانی کاموں میں مصروف رہنے
لگتا ہے توپھر شیطان بھی اس سے ایک کے بعد دوسرا فعل کرواتا ہے پھر کوئی
گناہ گناہ نہیں لگتا۔ جب انسان ایک حرام کام کرتا ہے تو پھر دوسرا بھی سرزد
ہوتا ہے حرا مکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو معاشرے میں بدنامی
سے بچنے کے لیے قتل کر دینا دوسرا کبیرہ گناہ ہے جس سے چھٹکارا قیامت کے
روز بھی ممکن نہیں۔
اٹھارہ سال کی بن بیاہی مائیں جو بچے پیدا کر رہی ہیں یہ کیسے ہو رہا ہے
معاشرے کے ہر فرد کو سوچنے کی ضرورت ہے، خاندان کے سربراہ کو بھی اور ان
اداروں کو بھی جو معاشرتی اقدار کے محافظ ٹھہرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے جس
سیلاب میں ہم بے غیرتوں کی طرح تیر رہے ہیں اس میں اگر بند نہ باندھا گیا
تو ایسے واقعات میں تسلسل نہ صرف بڑھ جائے گا بلکہ اٹھارہ سال کی عمر مائیں
بھی پندرہ کے ہندسے تک عبور کر جائیں گی۔
سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ اٹھارہ سال سے پہلے بالغ ہو جانے والی لڑکی کی
شادی ممکن نہیں قانون اجازت نہیں دیتا مگر وہ لڑکی زنا کرے اور بار بار کرے
تو کوئی نہیں روکتا اور اگر زنا سے حمل ٹھہر جائے ابھارشن کی سزا بھی نہیں
اور بچہ پیدا ہو جائے تو بھی قانون کچھ نہیں کہتا۔ وہ ادارے جو فحاشی کی
روک تھام کے لیے قائم ہیں ان میں بھی کوئی حرکت نہیں کرتا کہ کم سن بچیاں
اس راہ پر دوڑ رہی ہیں تو ایسا کیوں ہو رہا وہ بھی حرکت نہیں کرتا۔ مگر
کوئی سترہ سال کی بالغ لڑکی ہو جائے اور وہ گناہ سے بچنے کے لیے شرعی راستہ
اختیار کرے اور شادی کرنا چاہے تو یہ سب خاموش ادارے چیخنے لگتے ہیں مگر اس
پر کوئی شور نہیں کر رہا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کیا چاند
چڑھا رہی ہے۔
روز درجنوں چینلوں پر دن رات ڈرامے چل رہے ہیں، لڑکے لڑکی کی ملاقاتیں
پارکوں میں، ہوٹلوں میں، ڈنر کے مناظر، کالج کا مخلوط ماحول، ہاتھ پکڑ کر
چلنا گلے ملنے، بیویوں کا شوہر کے آفس جانے کے بعد بوائے فرینڈ سے شاپنگ یہ
سب مناظر ہیں جو چوبیس گھنٹے ہر ٹی وی پر چلتے ہیں اور یہ سب مناظر ترغیب
دلاتے ہیں کہ یہ سب ٹھیک ہے اس میں برائی نہیں۔ یہ تو اب زندگی کا حصہ ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ برائی برائی رہ ہی نہیں گئی اور اس پر ٹوکنا تو
درکنار اسے برا سمجھا ہی نہیں جاتا ہماری منافقت کا حال دیکھیے کہ ٹی وی پر
ڈرامہ چل رہا ہو تو بُرے کردار نبھانے والے اداکار کو شراب نوشی کرتے
دکھایا جا رہا ہو تو ساتھ میں ایک پٹی چلنا شروع ہو جاتی ہے جس میں لکھا
ہوتا ہے کہ شراب پینا حرام ہے، یا اگر سگریٹ پیتے کردار ہوں تو فوراً لکھا
آ جاتا ہے کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے۔ مگر شریعت اسلام کے مخالف جتنے
بھی کام ہوں اور بار بار ہوں وہاں کوئی پٹی چلتی ہے اور نہ ہی تنبیہہ پیغام
واضح ہوتا ہے۔ ایک عورت خاوند سے چھپ کر افیئر چلا رہی ہے پٹی نہیں چلتی کہ
خاوند یا بیوی کو دھوکہ دینا گناہ ہے، ایک مرد دوسرے کی عورت سے تنہائی میں
ملتا ہے پٹی نہیں چلتی کہ دوسرے مسلمان کی عزت تم پر حرام ہے۔ ڈرامے کے
کردار جھوٹ بولتے ہیں پٹی نہیں چلتی کہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے۔ شادی میں
مرد و عورت لپٹ کر ناچ رہے ہیں پٹی نہیں چلتی، بغیر نکاح کے ایک عورت اپنے
خاوند کو چھوڑ کر ہفتوں دوسرے مرد کے ساتھ رہتی ہے پٹی نہیں چلتی کہ ایسا
منع ہے۔ جب ہیرو یا ولن سگریٹ پیتا تو فوراً سگریٹ پر پٹی نمودار ہوتی ہے
کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے نقصان دہ ہے یعنی ہمارے معاشرے کو سگریٹ اور شراب
سے خطرہ ہے باقی گویا سب جائز ہے یہ ہمارے معاشرے کی تباہی کے اثرات کا
نتیجہ ہے۔ اور یہ تباہی کی دستک ہے کہ اب یورپ کی طرح پاکستان میں بھی بن
بیاہی ماؤں کے واقعات عام ہونے لگے ہیں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے بچے
ایسے مل رہے ہیں جیسے کھلونے جی بھرنے کے بعد پھینک دئیے جاتے ہیں … |