”تم نے گلاس توڑا ہے،تمہارے پیسے کاٹوں گی“۔۔ماسیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا بُرا رویہ۔۔۔۔۔ہمیں شرمندہ کیوں نہیں کرتا؟

image
 
”صفیہ! تم کیوں کام ٹھیک سے نہیں کررہی ہو؟ ہاتھ اسی طرح آہستہ سے چلاؤ گی تو باقی کام کون کرے گا؟ تمہارے جانے تک یہ سب کام مکمل ہوجانے چاہئیں، اگر کام مکمل نہیں ہوئے تو میں تمہیں نہیں جانے دوں گی۔“
 
اس طرح کے مناظر ہمارے معاشرے میں جابجا بکھرے پڑے ہیں اور یہ الفاظ ہمیں آئے دن گھروں میں سننے کو ملتے ہیں۔ ہمارے یہاں گھریلو کاموں میں مدد کیلئے ماسیوں کو رکھا جاتا ہے۔ جو صبح آتی ہیں، گھر کا جھاڑو پونچھا کرتی ہیں، برتن اور کپڑے دھوتی ہیں۔ پورا دن وہ اسی مشینی انداز میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جہاں وہ کچھ دیر کیلئے ہاتھ روکیں یا سانس لینے کیلئے رُکتی ہیں۔ گھر کی مالکن کی آواز ان کے کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔۔۔ ُتم بس بیٹھی رہاکرو۔۔۔ وقت ضائع کرتی رہتی ہو، کوئی کام ڈھنگ سے وقت پر نہیں کرتی ہو۔“
 
پیسے کٹیں گے:
اسی طرح پورے مہینے ملازمہ ڈھنگ سے کام کرے لیکن طبیعت خراب ہونے کی صورت میں اس کا ہاتھ کسی دن کام کرنے کے دوران ہلکا چل رہا ہو، یا طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے کسی دن وہ چھٹی کرلے تو اکثر مالکن بجائے ان کے ساتھ ہمدردی جتانے کے،انہیں یہی کہتے دکھائی دیتی ہیں کہ“تم نے چھٹی کی ہے نا، میں تمہارے پیسے کاٹوں گی۔۔“ اس طرح دن رات محنت کرکے چند ہزار کمانے والی ان ماسیوں کی تنخواہ میں سے اسی طرح پیسے کاٹے جاتے ہیں اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔
 
انسان نہیں سمجھتے:
ہم گھر میں کام کرنے والی ماسیوں کو انسان نہیں سمجھتے، گھر کی مالکن کو یہ لگنے لگتا ہے کہ انہوں نے چند ہزار روپے دے کر ماسیوں کو جیسے خرید ہی لیا ہے۔ اس لئے وہ جس انداز سے چاہیں، اس سے کام لے سکتی ہیں، کئی گھرانوں میں ماسیوں کو مستقل کام میں لگایا جاتا ہے۔ ان کے کھانے پینے تک کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انہیں گھر کے برتن استعمال نہیں کرنے دئیے جاتے، ان کے پانی پینے کا گلاس تک الگ رکھا جاتا ہے۔ اگر کبھی اس سے ہاتھ سے کوئی گلاس یا برتن ٹوٹ جائے تو اسے کہا جاتا ہے کہ ”تم نے میرا اتنا مہنگا گلاس توڑا ہے، میں تمہارے پیسے کاٹوں گی۔“
 
image
 
بچیوں پر پرُ تشدد واقعات میں اضافہ:
دیہی اور کئی شہری علاقوں میں ملازم خاندان الگ ہوتے ہیں، جو کہ بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں یا مختلف شعبے سے تعلق رکھنے والے امیر افراد کے گھروں پر سالوں سے جدی پشتی ملازم ہوتے ہیں۔ ان کے گھرانوں کی بچیوں تک سے بہت بُرا سلوک رکھا جاتا ہے، گزشتہ سالوں کے دوران سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں گھر میں کام کرنے والی بچیوں پر تشدد کیا جاتا ہے، انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارا پیٹا جاتا ہے۔ کئی بچیاں تو جان کی بازی ہار چکی ہیں، معزز پیشوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ بچیوں پر ظلم کرکے انہیں مار تک دیتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کچھ دن بات کی جاتی ہے اور اس کے بعد یہ قانون کی گرفت سے آزاد ہوجاتے ہیں، ان کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی یا انہیں سزا نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی ان بچیوں پر مظالم کے واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔
 
عزت دیں، رحم دلی سے پیش آئیں:
گھروں میں کام کرنے والی ان ماسیوں کو انسان سمجھنے کی ضرورت ہے، کیا ہمارا ضمیر ہمیں اُس وقت ملامت نہیں کرتا،؟ جب ہم کسی بڑ ے شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ یا ریسٹورنٹس میں اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھائیں، لیکن ساتھ میں آنے والی ملازمہ کو الگ بٹھادیں اور انہیں کھانے کے لئے کچھ نہ دیں۔ تصاویر ایسی وائرل بھی ہوتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر ہمارا رویہ اب بھی نہیں بدل رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماسیوں کو انسان سمجھا جائے، ان کی عزت کی جائے۔ ان کے ساتھ رحم دلی کے ساتھ پیش آیا جائے۔ ساتھ ہی اپنے بچوں کی بھی تربیت کریں کہ وہ ملازموں اور ماسیوں سے اچھے انداز میں پیش آئیں،انہیں خریدا ہوا غلام نہ سمجھیں۔ ماسی کی طبیعت ٹھیک نہ ہو تو ان کا خیال رکھیں، انہیں چھٹی دیں۔ ایک دن گھر کا کام خود کرلیں گی تو کوئی طوفان نہیں آجائے گا، یاد رکھیں اسلامی تعلیمات بھی ہمیں یہ درس دیتی ہیں: ”تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“
 
image
 
 اس بات کو یاد رکھتے ہوئے گھروں میں موجود ماسیوں کی عزت نفس کا خیال رکھیں،اس طرح بطور مالکن آپ کی دنیا اورآخرت دونوں سنور ہوجائیں گی۔
YOU MAY ALSO LIKE: