ڈاکٹر غلام شبیررانا
تاریخِ ادب کا مطالعہ کرتے وقت بیان کیے گئے واقعات کی صداقت کی جانچ پر کھ
کی بہت اہمیت ہے ۔کسی بھی خطے میں تہذیب و تمدن کی بالیدگی اور بقا کے لیے
یہ امر نا گزیر ہے کہ اقتضائے وقت کے مطابق ہرقسم کے درپیش خطرات کا پوری
استقامت کے ساتھ سامنا کیا جائے ۔گردش ِ ایام کے سامنے سینہ سپر ہونے والے
حریتِ فکر و عمل کے مجاہد ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کے راکب کا
کردار اداکرتے ہیں۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے اقوام و ملل کے تخت و کلاہ و
تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب کو
کوئی گزند نہیں پہنچتا۔دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی
میراث کے تحفظ کی مقدور بھر کوشش کی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس
دور میں ادب ،فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی اور والہانہ
محبت لوگوں کے دِلوں میں ر چ بس گئی تھی اور یہ ان کے جبلی انعکاس کی صورت
میں منصہ ٔ شہود پر آ رہی تھی ۔ دکنی ادب کے تخلیق کاراپنی تخلیقی فعالیت
کے وسیلے سے اس خطے کی تہذیبی میراث نسلِ نو کو منتقل کرنے کی سعی کررہے
تھے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں اس عہد کے تخلیق کاروں نے قلبی،روحانی اورذہنی
سکون اور مقبولیت کی جستجومیں خونِ بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کی
۔تخلیق فن کی یہ لگن افکارِ معیشت کے جھنجھٹ سے نجات اور پرورشِ لوح و قلم
کے ارفع معائر تک رسائی کی تمنا قابلِ ادراک صورتوں میں ان کے اسلوب میں
جلوہ گر دکھائی دیتی ہے ۔حالات و واقعات کی مرقع نگاری میں تخیل کی تونگری
اور اظہار و ابلاغ کے لیے منتخب اسالیب کے شعور میں پنہاں وفورِ شوق کی
ثروت ان کا امتیازی وصف ہے ۔انھوں نے اپنے دِل کی بات بیان کرنے کے لیے ہر
وہ التزام کیا جو اِس مقصد کے لیے نا گزیر تھا ۔ زمانہ قدیم کے افکار و
تصورات کا امین قدیم دکنی ادب اِس خطے کی قدیم تاریخ اور ہمارے اسلاف کی
نشانیوں پر مشتمل ہے ۔ان کے عمیق مطالعہ سے ہم وادی ٔخیال کے اُس مقام تک
پہنچ جاتے ہیں جہاں صدیوں پہلے یہ یگانۂ روزگار فاضل اپنے اشہب ِقلم کی
جولانیاں دکھانے میں انہماک کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
جہا ں تک دکنی نثر کا تعلق ہے اس کا آغاز خواجہ بندہ نواز گیسو درازکی
تصانیف ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ ‘‘ سے ہوا۔دکن میں تخلیق کاروں
نے سب سے پہلے نثر کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایااور اس کے بعد شاعری پر
توجہ دی۔دکن میں نثر اور نظم کی تخلیق کے سلسلے میں نصیر الدین ہاشمی نے
لکھا ہے :
’’ دنیا میں عربوں کے سامنے کوئی قوم خلقی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی
۔اسی طرح فارسی زبان میں
شاعری سے بڑے بڑے کام لیے گئے اور شاعری کو بادشاہوں کی خلوت، جلوت، رزم،
بزم سے خاص
تعلق رہا ۔شاعروں کی کافی طور سے عزت افزائی کی گئی اور انھیں ملک الشعرا
کا خطاب دیا جانے لگا۔مگر دکھنی
زبان میں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں نظم کی ابتدا نثر کے بعد ہوئی ۔اس کی وجہ یہ
معلوم ہوتی ہے کہ تحریر کی ابتدا چونکہ ترجمہ
سے ہوئی اور نظم کی بہ نسبت نثر میں ترجمہ کرنا آسان اورسہل تھا اس لیے
غالباًنظم کی ابتدا نہیں ہوئی بل کہ نثر سے
ابتدا کی گئی۔‘‘ (1)
جہاں تک قدیم شاعری کے ارتقا کا تعلق ہے ،بر صغیر میں اس کے سوتے دکن سے ہی
سے پُھوٹے۔محمد تغلق(عرصہ حکومت :1325-1351) کے زمانے میں مشرقی پنجاب کے
باشندے فوجی مہم جوئی کے باعث بہت بڑی تعداد میں دکن پہنچے۔اس طرح لسانی
تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا ۔سب رس میں نثر کے جو
نمونے ملتے ہیں ،ان سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ طویل عرصہ قبل لسانی
انجذاب کی جن مساعی کا آغازہوا تھا وہ ثمر بار ہوئیں۔ ملاوجہی ( اسداﷲ)کی
نثر گہری معنویت کی حامل ہے جس کے مطالعہ سے لسانی ارتقا کا اندازہ لگایاجا
سکتاہے ۔
۱۔ ’’ رقیب بے نصیب ،بے روش بے ترتیب سُنے کا طالب تھا ۔ (2)
۲۔ عشق دیدار تی پکڑیا زور ،عشق کوں دیدار نی لذت ہے کجھ ہور (3)
۳۔عشق کدھیں صاحب کدھیں غلام ،ایک شخص کے دو دو نام ۔ (4)
اسی بنا پر یہ گمان گزرتا ہے کہ دکن کی اردو اور پنجابی کا آپس میں گہرا
تعلق ہے ۔ (5)
لسانیات میں گہری دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قدیم دکنی ارد
ونے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کی خاطر پنجابی زبان سے خوشہ چینی میں
کوئی عار محسوس نہیں کی ۔پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کرنے کے نتیجے میں
دکنی زبان کا دامن پنجابی زبان کے نئے الفاظ سے معمور ہو گیا ۔ماہرین
لسانیات کاخیال ہے کہ قدیم دکنی اردو نے اپنے ذخیرہ الفاط میں اضافے کی
خاطر پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کیا۔اس طرح تہذیبی و ثقافتی سطح پر
دُو رر س تبدیلیاں رُو نما ہوئیں ۔لسانی تغیر وتبدل کا یہ غیر مختتم سلسلہ
صدیوں پر محیط ہے ۔دکنی زبان میں شاعری کی تخلیق سے یہاں کے باشندوں کے ذوق
سلیم کو صیقل کرنے میں بہت مدد ملی ۔ ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعددکنی
شاعری کو وسیع آفاق تک رسائی مِل گئی اور یوں لسانی تجربات نے ایک نیا رُخ
اختیار کر لیا۔یہی وہ دور ہے جب دہلی کے تخلیق کاروں نے ایہام گوئی کو شعار
بنایا۔تخلیق فن کے لمحوں میں ایہام کا نمو پانا در اصل تخلیقی اعتبار سے
ایک غیر متعین نوعیت کے فیصلے کا غماز ہے ۔ فکر وخیال کی دنیامیں ایک تخلیق
کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے
لیے اس کے سامنے موضوعات اور مواد کی کمی نہیں ہوتی ۔ ترک و انتخاب کے سخت
مقام پر پہنچ کروہ عجیب شش وپنج میں مبتلا ہو جاتا ہے۔آئینہ ٔ ایام میں
اپنی ادا کو دیکھتا ہے تو کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی کی
کیفیت اُسے کسی بڑے فیصلے سے روکتی ہے ۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر بے
شمار حکایتیں نا گفتہ رہ جاتی ہیں ،کئی شکایتیں بیان نہیں کی جا سکتیں اور
صبر کی روایت میں کئی ضروری باتیں لب پر نہیں لا
نہیں لا ئی جاتیں ۔ تخلیق کے لا شعوری محرکات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے
کہ تذبذب اور گو مگو کی ایسی ہی کیفیات ایہام کی محرک بن جاتی ہیں ۔ ایک
زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کاراپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت صریر
خامہ کو نوائے سروش سے تعبیر کرتاہے ۔ان لمحات میں جذبات عجب گُل کِھلاتے
ہیں جب تخلیق کار زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے دو
مختلف مطالب و مفاہیم کو بہ یک جنبش ِ قلم اس تخلیقی مہارت سے پیرایۂ اظہار
عطا کرتاہے کہ تخلیقی تحریر کا ہر لفظ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بن جائے۔گُل
دستہ ٔ معانی کو منفرد ڈھنگ اوردِل کش آ ہنگ سے مزین کرنا اورایک گُلِ تر
کا مضمون سو رنگ سے باندھنا تخلیق کا ر کا کمالٖن سمجھا جاتا تھا۔اس طرح
ایک سخن چار چار سمتوں کاحامل بن جاتا اور ایک جملہ اپنے دامن میں کئی
مطالب رکھتا تھا۔الفاط اور ان کے دامن میں نہاں متعدد معانی کی اس کرشمہ
سازی کو ایہام گو شعرا کی ایسی تخلیقی قلابازی سے تعبیر کیا گیا جس کے
نتیجے میں تخلیق فن کے لمحوں میں خلوص اور دردمندی کے متلاشی سرابوں میں
سرگرداں رہنے لگے ۔یہی وجہ ہے کہ بہت جلد ایہام گو شعرا نے اپنے اسلوب
کوترک کر دیا۔ دکن میں سراجؔ،داؤدؔ اورعزلتؔ کی شاعری میں ایہام موجود ہے
جب کہ دہلی میں آبروؔ ،مضمونؔ اور یک رنگ ؔ نے ایہام گوئی کو شعار بنایا۔
مضمون ؔ کا شمار ایہام کوئی کے بنیاد گزاروں میں ہوتاہے۔مثالیں :
دِل غم سے کر کے لو ہو لوہو سے کر کے پانی
آنکھوں ستی بہایا تب آبرو ؔ کہا ہے (آبروؔ)
ہوا ہے جگ میں مضمون ؔ اپنا شہرہ
طرح ایہام کی جب سے نکالی (مضمونؔ )
جلنالگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ جوں شتاب عبث جی دیا تو کیا (حاتم ؔ)
ہاتھ اپنا اُٹھا جو جور سے تُو
یہی گویا سلام ہے تیرا (یک رنگ ؔ)
لبِ شیریں سے تلخ کاموں کو
بولنا تلخ کام ہے تیرا (یک رنگ ؔ)
یہی مضمونِ خط ہے احسن اﷲ
کہ حُسن ِ خوباں عارضی ہے (احسن اﷲ )
آج تو ناجی ؔ سجن سے کر تُو اپنا عرضِ حال
مرنے جینے کا نہ کر وسواس ،ہوتی ہے سو ہو (سید محمد شاکر ناجی ؔ)
نمکین حُسن دیکھ کر پی کا
رنگ گُل کا مجھے لگا پھیکا (ناجیؔ)
اس کے بعد دہلی میں مقیم فارسی گو شعرا نے سرکاری زبان( فارسی ) کے بجائے
ولیؔ دکنی کے شعری اسلوب میں استعمال ہونے والی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں
(دکنی ،گجراتی اور مراٹھی ) سے متاثر ہو کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں
تلاش کرنا شروع کر دیں۔
اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے عہد کے مقبول شعرا شاہ حاتم ( 1699-1781)اورسراج
الدین
علی خان آرزوؔ (1689-1756)بھی اردو کی جانب مائل ہوئے ۔ (6)
لسانی ارتقا کا سلسلہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی طرح سدا جاری رہتا ہے ۔
دنیا کے کسی خطے کے سیاسی ،سماجی اورمعاشرتی حالات جہاں ماحول پر اثر انداز
ہوتے ہیں وہاں لسانیات ،ادب اور فنون لطیفہ بھی ان سے گہرے اثرات قبول کرتے
ہیں ۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دکن سے آنے والے تخلیق کاروں کے اسلوب کو
دہلی میں مقیم ادیبو ں نے رشک کی نگاہ سے دیکھا اور شاہ حاتم کی تحریک پر
اپنی زبان کو نیا رنگ اور منفر د آہنگ عطا کرنے کی کوششیں تیز کر دیں ۔
قدیم دکنی ادیب اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ ادب میں نِت نئے تجربے جمود کا
خاتمہ کرتے ہیں۔ اس لیے وہ تخلیق ِ ادب میں نئے تجربات میں گہری دلچسپی
لینے لگے۔اپنے بصیرت افروز تجربات ،خلوصاور دردمندی کے مظہر جذبات و
احساسات اور لائق صدرشک و تحسین خیالات کے اعجاز سے دکنی ادیبوں نے شہرتِ
عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب حاصل کیا۔ اِن ادب پاروں کے فنی
اور جمالیاتی محاسن کا ایک عالم معترف ہے ۔ ملا وجہی کی مقبول تصنیف ’’سب
رس ‘‘ میں شاعرانہ صناعی اور نُدرت ِ بیاں قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔وجہی
کی تخلیقات میں شامل اس قسم کے اشعار میں پند و نصائح کا دِل کو چُھو لینے
والا انداز اپنی مثال آپ ہے :
وہی ہے صافی کہ جس صافی تے صفا کوئی پاوے
وہی ہے کام کہ جس کام تے نفا کوئی پاوے
سب کسی کوں خدا مراد دیوے
اس کے محنت کی اس کوں داددیوے
زباں یک تھی دونوں کا دِل جُدا تھا
سمجتا حال اُن کا سو خدا تھا
اگر کوئی مرد ہے یا استری ہے
دنیا سب دغا بازی بھری ہے
جدھر تدھر بھی حسن ہے جو دِل کو بھاتا ہے
کدھر کدھر کی بلا عاشقاں پہ لاتا ہے
ابراہیم عادل شاہ (1556-162 زمیں دکن میں جن مختلف زبانوں کا ایک ملغوبہ سا
تیار ہو رہا تھااُن میں متعدد مقامی بولیوں کے علاوہ کھڑی بولی،برج
بھاشا،اودھی ،سرائیکی ، پنجابی، راجستھانی، سنسکرت اورگوجری شامل ہیں۔دکن
میں عادل شاہی دور میں بیجاپور سمیت دکن میں شاہی سر پرستی کے نتیجے میں
تخلیقی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا۔اس عرصے میں لسانی ارتقا کا سلسلہ
پیہم جاری رہا ۔
ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ بر صغیر کی اکثر جدید مقامی زبانیں اپ بھرنش
کی اولا دہیں ۔ (8)
قدیم زمانے میں سرسے زیادہ زبانوں کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا جا رہا
تھا ۔اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے رومیلا ٹھاپر نے لکھا ہے۔ :
,,A period of bilingualism has been suggested when more
than one language was used in the communicationbetween
various communities .Alternatively ,the non Indo -Aryan languages
coul dhave been substratum languages,elements from which were
absorbed into Indo -Aryan.,, (9)
نہ صرف دکن میں فارسی کو سرکاری سر پرستی حاصل تھی بل کہ شمالی ہندوستان
میں بھی اس کی پزیرائی کی جاتی تھی ۔بر ج بھاشانے بھی ادبی زبان کی حیثیت
سے اپنے وجود کا اثبات کیااور یہ بھی دکن میں نشوو نما پانے لگی۔یہاں تک کہ
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دست راست عبدالر حیم خان خاناں نے برج بھاشا
کو اپنی شاعری میں اظہار کا وسیلہ بنایا۔ (20)
تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دکن میں جس تہذیبی
،ثقافتی ،معاشرتی اور لسانی تبدیلی کا آغاز ہوا وہ پیہم تین سو برس جاری
رہا ۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں دکن کی سر زمین میں جو زبان
پروان چڑھتی رہی وہ دکنی کے نام سے مشہور ہوئی۔مورخین کا خیال ہے کہ اردو
زبان کو جدید دور کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں دکنی نے کلیدی کردار
ادا کیا ۔دکنی کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات نے
اہم کردار ادا کیا ۔شمالی ہند سے آنے والی زبان نے دکن میں اظہار و ابلاغ
کے لیے ایک مشترکہ زبان کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کر لی ۔اس طرح دکنی کو اس
خطے میں مروّج تین اہم زبانوں تلنگی،کنٹری اور مر ہٹی پر ترجیح دی جانے لگی
۔ مسلمانوں نے جب دکن کو مسخر کر لیا تو صدیوں پرانا فرسودہ معاشرتی ڈھانچہ
مکمل طور پر بدل گیا۔مسلمان فاتحین نے ہر قسم کی عصبیتوں ،منافرتوں اور
امتیازات کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کی مقدور بھر سعی کی ۔
قدیم دکنی زبان نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جس انداز اپنائے ان کا اندازہ
درج ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے :
۱۔ قدیم دکنی زبان میں املا کے یکساں متفقہ معائر عنقا ہیں۔دکنی میں درج
ذیل الفاظ دونوں صورتوں میں مروّج تھے:
جوسا ۔۔جثہ ، خطرا۔۔خطرہ ، زمیر ۔۔ ضمیر ، مشور ۔۔مشہور ،مرشید
۔۔مرشد،نفا۔۔نفع ،وضا ۔۔وضع ،ہوکم ۔۔حکم
دکنی میں عربی الفا ظ کوسادہ کرنے کا رجحان تھا مثلاً طما( طمع )،نفا( نفع)
وغیرہ
۲۔ ’’ ڑ،ڈ،ٹ ‘‘کو بالعموم ’’ر، د ،ت ‘‘لکھنا معمول بن گیا تھا ۔بعض اوقات
چار نقطے لگا کر ’’ ڑ،ڈ،ٹ ‘‘ کو ظاہر کیا جاتا تھا۔
۳۔ قدیم دکنی میں ’’ک ‘‘ اور ’’ گ ‘‘کے فرق کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا تھا
۴۔ یائے معرو ف (جس ’ ی ‘ سے پہلے ’ زیر ِ ‘ ہو اور وہ خوب ظاہر پڑھی جا
سکے جیسے امِیر ،فقِیر،عجِیب ،غرِیب ) اور یائے مجہول (جس ’ ی ‘ سے پہلے ’
زیر ِ ‘ ہو اور وہ خوب ظاہر نہ پڑھی جا سکے جیسے سیر،شیر،دلیر) کا انداز
تحریر بھی یکساں تھا۔
۵۔ دکنی میں ’’ ہ ‘‘اور ’’ ھ ‘‘میں کوئی امتیاز نہ تھا۔دکنی میں اُرد وکے
بر عکس ہکار آوازیں حذف کرنے کا رواج تھا جیسے سورکھ کو سورک ،ہاتھ کو ہت
،کچھ کو کچ،مجھ کو مج ،اور بھی کو بی لکھا جاتا تھا ۔
۶۔ شعری تخلیقات میں قوافی کے انتخاب کسی مسلمہ قاعدے یا عروضی ضابطے کو
اپنانے کے بجائے کسی مانوس قریبی آواز کو پیش نظر رکھ کر کام چلایا
جاتاتھا۔ اس قسم کے قوافی کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
روح کا قافیہ شروع ،اخص الخاص کاقافیہ یاس ،حوس (حواس) کا قافیہ نفس ،اولیا
کا قافیہ روسیاہ ۔
لسانی تجزیے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے اپنے ارتقائی مراحل میں دکنی زبان
مختلف ادوار میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی تھیں:
۱۔اسم سے فعل سازی کا عمل عام تھا جیسے چِتر (تصویر ) سے چِترانااور دِیپ
سے دِیپنا وغیرہ ۔
۲۔الفاظ سے حر ف علت کو منہا کر دیاجاتا تھاجیسے سُرج (سُورج )،اُپر (اُوپر
)،سار (سوار )،بِچ (بِیچ )،سُنا (سونا )وغیرہ ۔دکنی میں یہ بھی دیکھا گیا
کہ جن لفظوں کا پہلا مصوتہ طویل ہوتا تھا اُسے حذف کر دیا جاتا تھا مثلاً
آدمی کو ادمی،آسمان کو اسمان،آنکھ کو انکھ لکھنا معمول تھا۔اس کے علاوہ
دکنی میں درمیان میں آنے والی ُ ہ‘ بھی غائب کر دی جاتی تھی جیسے گھبراہٹ
کے بجائے گھبراٹ ،تمتماہٹ کے بجائے تمتاٹ لکھاجاتا تھا۔دکنی میں’ ں ‘
کااستعمال عام تھا دکنی اہل ِ قلم نے کوں ( کو ) سوں (سے ) نوں (نے )،نِت (
روزانہ) کثرت سے استعمال کیا ۔
۳۔ اُردو نے بہت سے ہند آریائی الفاط کو سہل بنا لیا لیکن دکنی میں ان کی
پرانی وضع برقرار رہی ۔دکنی میں مشدّد حروف کو مخف لکھنے کا رواج تھا جیسے
اول ( اوّل )،چھجا (چھجّا )،غُصا( غُصّہ )،ہتّی (ہاتھی )،سُتّا(سوتا)
وغیرہ۔
۴۔قدیم دکنی میں تاریخ کے مختلف ادوار میں فاعل بناتے وقت ’’ ہار ‘‘ کے
اضافے کو نا گزیر سمجھا جاتا تھاجیسے کرن ہار ،سرجن ہار ،رہن ہار ،دیکھلان
ہار،انپڑن ہار ، چاکھن ہار وغیرہ۔مرکبات کی تشکیل کے لیے ’پَن ‘ کااستعمال
عام تھا جیسے میں پَن(انانیت )،ایک پَن (وحدت)،ذات پَن ،توں پن وغیرہ۔
۵۔قدیم دکنی میں اگر فاعل جمع مونث ہوتا تو فعل بھی جمع مونث کی صورت میں
استعمال کیا جاتاتھا۔اس کی مثال درج ذیل ہے :
خوشی خرّمی میں او بلتیاں چلیاں
اکھرتیاں و پھرتیاں اوچھلتاں چلیاں (میزبانی نامہ : حسن شوقی )
دکنی میں مونث اسما کی جمع ’ یں ‘ لگانے سے بنتی تھی مثلاً رات سے راتیں
،بیل سے بیلیں وغیرہ۔ شمالی اردو میں ایک سے زیادہ طریقے رہے مثلاً رات سے
راتوں وغیرہ۔
۶۔علامت فاعل ’’ نے ‘‘ کا استعما ل قدیم دکنی میں بہت کم ملتا ہے ۔دکنی میں
علامت فاعل نہیں ہے ۔ضمیر غائب میں ’’ نے ‘‘ کا استعمال کہیں کہیں موجود ہے
۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
ع : جہاندار نے میزبانی کریا (حسن شوقی )
ع : جو بہرام نے سنواریا صلا (حسن شوقی )
ع : مُکھ موڑ چلی ہے چنچل نے گمان کر (شاہی )
۷۔ قدیم دکنی میں افعالِ معاون کی درج ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں:
ہے ۔اہے ۔اہیں۔
تھا ۔اتھا۔اتھے۔اتھار۔
تھا ۔تھیا۔تھیاں۔
اچھو۔اچھے۔ اچھیں۔
۸۔ دکنی اور اردو میں ضمائر کی مختلف شکلیں ان زبانوں کے ارتقا کو سمجھنے
میں مدد دیتی ہیں ۔ دکنی اوراُردو میں مندرجہ ذیل ضمائر مستعمل رہی ہیں :
منج (مجھ )، ہمن ( ہم ) ،تُوں ( تُو)،تم کا (تیرا) ،تُمن(تُم)،تُمنا
(تُم)،اُنن( اُن)، مَیں ،مُجہ ،مُجھے،میرا،ہَوں ،ہم،ہَمن،ہَمنا،تُوں ،تُجہ
،تُجے ،تیرا، تُمن،تمنا ُ،تہیں ،تُس ،تم ،اپے،،اپیں ،وو،وہ،اوس،اُلن،اُنوں
وغیرہ۔
۹۔دکنی زبان کے ارتقائی مدارج پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم
،ضمیر،فعل کے آخر میں ’’ چ ‘‘ کا اضافہ کرنے سے ’’ ہی ‘‘ کے معنی پیدا ہو
جاتے ہیں۔تاکیدی حرف ’ہی ‘ کے بجائے ’چ‘ کا استعمال مر ہٹی کا اثر معلوم
ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر دینا چ (دینا ہی)،تونچ(تو ہی )،اُسیچ (اُسے ہی )،
کاچ (کا ہی ) وغیرہ۔
۱۰۔قدیم دکنی میں درج ذیل الفاظ کثرت سے استعما ل ہوتے تھے :
آنجھو ،انجھو (آنسو ) ۔ ابھال (بادل)،اچھر (حرف )،اچیل (چنچل تیز گھوڑا
)،بھوئیں (زمین)۔
بھوتیک(بہت سے )،پر گٹ (ظاہر )،پنکھ، پنکھی (پرندا)،پونگڑا (لڑکا)،دھرتری
(دھرتی)،دسن
(دانت )،ڈونگر (پہاڑ )،رُکھ (درخت )رکت (خون )،سرس (سر )،سور (سُورج)،
کالوا(نالا)،ناد
(آواز)،نس دِن (رات دِن)نانو(نام)۔ (11)
کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جواردو ،دکنی اور پنجابی میں آج بھی کثرت سے مستعمل
ہیں ۔مثال کے طور پر نِت ( ہر روز) ، کُلی ( کٹیا) ،آوازہ ( پکار ) ،دم (
زندگی ) اور میری میری وغیرہ ۔دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دوآبے کے
وسیع علاقے میں پنجابی زبان بولنے والے والے لوگ آ ج بھی جھونپڑی کو ’ کُلی
‘ کہتے ہیں ۔کئی لوک گیتوں میں لفظ ’ کُلی‘ جھونپڑی کے معنوں میں مروّج
ہے۔محمدنصرت نصرتی کا شمار دکنی زبان کے ممتاز شعر ا میں ہوتاہے ۔اس نے لفظ
’ نِت ‘ کو نہایت خوب صور ت انداز میں ایک شعر میں شامل کیا ہے :
دھر نہار اکثر اثر مہر کی
رکھیا مجھ طرف نِت نظر مہر کی
پنجابی زبان میں بھی اس قسم کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔
اﷲ ہُو دا آواز ہ آوے کُلی نی فقیر دی وچوں
نہ کر بندیا میری میری دم دا وساہ کوئی نہ
ترجمہ: اﷲ ہوُ کی آوا زفقیر کی جھونپڑی میں سے آ رہی ہے
اے انسان دنیاوی حرص و ہوس سے بچ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں
آج بھی پنجاب میں مقیم مقامی زبان کے اکثر شاعر اپنے کلام میں لفظ ’ کُلی‘
کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کے
ممتاز شاعر مہر ریا ض سیا ل نے بھی اپنے ایک پنجابی دوہڑے میں لفظ ’ کُلی ‘
کو جھونپڑی،نِت کو ( روزانہ) اور ککھ ( تنکا ) کے معنوں میں استعمال کیا ہے
:
نِت اپنی بال کے سیکی کر ،تو ں آس کسے دی رکھ نئیں
جَداں سَیت نو ں آ اُگھلا ویندائے ،کوئی پرت کے ویدھا اَکھ نئیں
جِتھے عزت دا یار سوال ہووے ،کائی چیز بچا کے رکھ نئیں
ککھ ریاض ؔ شریکاں اِچ رہ جاوِن ،بھاویں رہے کُلی دا ککھ نئیں
ترجمہ:
روزانہ اپنی محنت شاقہ سے رزق ِ حلال کماؤ کسی غیر پر انحصار نہ کرو
مشکل وقت میں سبھی طوطاچشمی کرتے ہیں کسی کا اعتبار نہ کرو
حریت ِ ضمیر کا مسئلہ ہو جہاں کوئی چیز بچانے پر دِل کو تیار نہ کرو
گھر لُٹ گیا مگر رقیبوں میں عزت رہی اس پر دُکھ کا اظہار نہ کرو
دکنی زبان کے ارتقا کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد جو حقائق سامنے ا ٓتے ہیں
ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو زبان نے تاریخ کے ہر دور میں فکر و
خیا ل کی انجمن سجانے کی خاطر بر صغیر کی ہر زبان سے لسانی استفادہ کا
سلسلہ جاری رکھا ۔اپنے ذخیر ہ ٔ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے اردو زبان نے
ہر زبان کے ادب سے خوشہ چینی کو شعار بنایا۔اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا
جا سکتاکہ گیسوئے اردو کا نکھار مقامی زبانوں سے بھرپور استفادہ کا ثمر
ہے۔اردو زبان میں جو صد رنگی جول گر ہے وہ صدیوں کے اُس لسانی عمل کا ثمر
ہے جس کے معجز نما اثر سے یہ زبان نہ صر ف اس خطے کی تما م زبانوں بل کہ
دنیا کی مشہور زبانوں کی خصوصیات کا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔
تاریخی حقائق سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہلی کے قدیم شعرا نے تخلیق فن
کے لمحوں میں بالعموم دکنی اسالیب کو پیش نظر رکھا۔قدیم دور کی اردو شاعری
کا عمیق مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے شعرا نے دکنی زبان کے
متعدد الفاظ استعمال کیے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ دکنی زبان نے اپنی ہمہ
گیر اثر آفرینی سے فکر و خیال کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ دہلی میں
بولی جانے والی اردو میں دکنی کے بعض حروف اور ضمائر کی موجودگی اس حقیقت
کی شاہد ہے کہ دونوں زبانوں میں گہرا ربط تھا۔مثال کے طور پر ’’سیں ‘‘ ’’
منجے ‘‘ اور ’’سستی ‘‘ وغیرہ۔ دہلی کے شعر ا نے دکنی کے مندرجہ ذیل الفاظ
کا کثرت سے استعمال کیے:
انکھیاں ،ادھر،دستا،نپٹ،مُکھ،انا،بچن،کپت،لگ،پیا،من ہرن،پگ،سار،بھیتراور نت
وغیرہ ۔ (12)
دہلی کے اردو شعرا کے کلام میں دکنی حروف لسانیات کے ارتقا کی تاریخ کی
تفہیم میں جس طرح معاون ثابت ہوتے ہیں ،اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
میرے ملنے سیں پیارے کیوں عبث تُو جی کھپاتاہے
اِن ہی باتوں سے اے بے خبر اخلاص جاتا ہے ( نجم الدین شاہ مبار ک آبروؔ :
1683-1733)
تیر ا بر جستہ قد ہے منتخب مصرع نظامی کا
کہ چشمِ مست اُوپر صیاد جوں دستا ہے جانی کا (آبروؔ)
بے رحم و بے وفا و تُنک رنج و تُند خُو
تُجھ کوں ہزارنام سجن دھر گئے ہیں ہم (آبروؔ)
مرگ سی چُک سوں کھینچ ہرن کی کھال
پگ تلیں بیٹھی مرگ چھالا ڈال (فائزؔ )
جو ں جھڑی ہر سُو ہے پِچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کی سار (فائزؔ )
بہت سا جگ میں حاتمؔ ڈھونڈ آیا
پِھر ایسا دُوسر ا ہمدم نہ پایا ( شیخ ظہور الدین حاتم ؔ :1699-1733)
مئے پرستوں پر قیامت آن ہے ساقی نہیں
بزم لے اُس کے نِپٹ ویران ہے ساقی نہیں (حاتمؔ)
نہ بولے آپ سیں جب لگ نہ بولو
کُھلے نہ بِیچ جب تب لگ نہ کھولو (حاتم ؔ)
جب تک رہے قفس میں یہی شغل نِت رہا
سر کو جُھکاجُھکا کر پر و بال دیکھنا ( اشرف علی فغاں : ؔ 1726-1772)
نِپٹ سخت ہے ماجرا درد کا
دِل سرد کا اور رُ خ زرد کا (فغاںؔ )
دکنی ادب کے تخلیق کاروں نے اپنی زندگی کے تمام ارتعاشات ،نشیب و فراز
،دُکھ درد ،شادمانی اور ہزیمت کا سب احوال زیبِ قرطاس کیاہے ۔تہذیب و تمدن
کے انتشار سے بچنے کی خاطر اُنھوں نے ایقان کی اہمیت کو اُجاگر کیا ۔ قدیم
زمانے میں دکن میں بولی جانے والی دکنی زبان کے ادب کا مطالعہ کرتے وقت
قارئین چشمِ تصور سے قدیم زمانے کے ادیبوں کی زندگی کے نشیب و فراز سے آ
گہی حاصل کر لیتے ہیں۔ برصغیر میں بولی جانے و الی ہر زبان کے لیے ہندی نام
بالعموم تمام آریائی زبانوں کے لیے مستعمل رہا ہے ۔ دکنی زبان کو نر بدا یا
جنوبی سر حد تک محدود کرنا درست نہیں۔نر بدا بھوپال سے کچھ نیچے ہو شنگ
آباد کے نزدیک سے جو سر حد گزرتی ہے اس کے جنوب میں مدھیہ پردیش کا وسیع
علاقہ ہے وہاں موجود اصطلاح کے لحاظ سے ہندی زبان مستعمل ہے ۔ (
ان حقائق سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں شمالی
ہند کے وسیع علاقے میں دکنی زبان بولی اور بولی جاتی تھی ۔ شمالی ہند میں
دکنی زبان کے بہت سے محاورات کا استعمال عام تھا جیسے گریباں پھاڑنا، دِل
باندھنا ،زندگی بھاری لگنا ، دِل ہارنا،جی نکل جانا،جی جلانا ،جی قربان
کرنا ،جی ہارنا اورجی نکلنا وغیرہ۔
گریباں عاشق از غم پھاڑتا ہے
خمار ِ عشق میں دِل ہارتا ہے
ایسی نگاہ کی کہ میرا جی نکل گیا
قضیہ مِٹا عذاب سے چُھوٹے خلل گیا
دکنی اور اردو زبان کے ارتقا پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے
کہ فائزؔ،فغاں ؔ ،اورحاتم ؔ جسے ممتاز شعرا نے دہلی میں رہتے ہوئے دکن کے
شعرا ولیؔ ،غواصی ؔ اورسراجؔ کی زمینوں میں غزل گوئی کو شعار بنا کر دکنی
اسلوب کی دل کشی کو تسلیم کیا۔سراج الدین علی خان آرزو ؔ (1687-1756)کا
شماردہلی کے ممتاز اور مقبول شعرا میں ہوتا تھا۔ شاہ مبارک ،مضمون ،یک رنگ
،آنند رام ،مخلص اورٹیک چند بہار جیسے شاعراپنے عہد کے پُرگو شاعر سراج
الدین علی خان آرزوؔ کے شاگرد تھے ۔آرزو ؔکی شاعری میں دکنی کے متعدد الفاظ
کے استعمال اورسراپا نگاری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس تخلیق کار نے بھی دکنی
سے اکتساب فیض کیا ۔ولی ؔ دکنی کے زمانے میں محبوب کو ’’پی ‘‘ ، ’’پیا ‘‘
،’’صنم ‘‘ ، ’’ یارِ بے پروا‘‘ ’’پیتم ‘‘ ،’’ سریجن ‘‘ ،’’موہن‘‘ ،’ ’من
ہرن ‘‘ یا ’’ سجن ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا جب کہ بعد میں اس کے بجائے
معشوق ،محبوب یا پیارا کو ترجیح دی گئی۔ ولیؔکے معاصرین اور سراج الدین علی
خان آرزوؔکی شاعری میں بھی محبوب کے لیے اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے
ہیں :
ولی ؔ مجھ دِل میں یوں آتی ہے یادِ یارِ بے پرواہ
کہ جوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آ ہستہ (ولیؔ دکنی)
برنگِ قطرۂ سیماب میرے دِل کی جنبش سوں
ہوا ہے دِل صنم کا بے قرار آہستہ آ ہستہ (ولیؔ دکنی)
جس وقت اے سریجن تُو بے حجاب ہو گا
ہرذرہ تجھ جھلک سوں جوں آفتاب ہو گا (ولی ؔ دکنی)
ہر گز نظر نہ آیا ہم کو سجن ہمارا
گویا کہ تھا چھلاوہ وہ مَن ہرن ہمارا (آرزوؔ)
تیرے دہن کے آگے دم مارنا غلط ہے
غنچے نے گانٹھ باندھاآخر سجن ہمارا (آرزوؔ)
زندگی دردِ سر ہوئی حاتم ؔ
کب مِلے گا مُجھے پِیامیرا (حاتمؔ )
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیاجائے نا (قلی قطب شاہ )
دہلی میں مطلق العنان بادشاہوں اورسلاطین کے دور ( 1211 -1526) میں اس خطے
میں جس زبان کو فروغ ملا اسے کھڑی بولی اور دہلوی کا نام دیا گیا ۔ مسلمان
فاتحین ،ان کے ساتھ آنے والے فوجی دستے مقامی آبادی ،ادب اورفنون لطیفہ سے
وابستہ لوگ ،صوفی شعرا اور مبلغین سب نے با لعموم کھڑی بولی کو اظہار کا
وسیلہ بنایا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہا لے
جاتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ کھڑی بولی جو پنجابی سے
قریب تھی سال 1327میں جنوبی ہند میں نمو پانے لگی۔محمد تغلق کے عہد میں جب
دہلی سے اورنگ آباد اور دکن کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تولسانی
تغیر و تبدل بھی شروع ہو گیا۔پندرہویں صدی عیسوی میں دکنی زبان نے اس خطے
میں کوب رنگ جمایااور اسی میں ادب کی تخلیق پر توجہ دی گئی۔گو لکنڈہ اور
بیجا پورکی دکنی ریاستوں میں دکنی ہی کو اردو کی قدیم صورت سے تعبیر کیا
جاتا ہے ۔ ممتاز جرمن ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر ہیلمٹ ارنسٹ رابرٹ نسپیٹل
( Prof.Dr.Helmet Ernst Robert Nespital)نے زندگی بھر ہندوستانی لسانیات پر
اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ ماہر لسانیات رابرٹ نسپیٹل(1936-2001)نے ہندوستان
میں اردو زبان کے لسانی ارتقا کو مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ریختہ اور تصوف کی شاعری کا دور (1648-170)
۲۔اورنگ آباد سے ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعد کا عرصہ (1700-1720)
۳۔اردو گرامر پرتوجہ (1720-1740)
۴۔عہد زریں میرتقی میر ،سودا ؔ اوردرد ؔ کادور (1740-1780)
۵۔زبان کو معیار کی رفعت عطا کرنے کا تکمیلی مرحلہ (1780-1810) (13)
لسانیات اور ادب کی تاریخ ماضی کے واقعات پر پڑنے والی ابلقِ ایام کے سموں
کی گردکو صاف کرتی ہے۔اس طرح جب طاقِ نسیاں کی زینت بن جانے والے حقائق
منکشف ہوتے ہیں تو اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام ہوتا ہے ۔اسی
معجز نما کیفیت کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔مطالعۂ ادب کے حوالے
سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی شعور کے ثمر بار ہونے سے دِلوں کو مرکزِ
مہر و وفا کرنے ،اخوت و محبت کی فراوانی اور خلوص و دردمندی کے جذبات کو
مہمیز کیا جا سکتا ہے ۔اسی کے وسیلے سے ہر قسم کی منافرت ،عصبیت ،تنگ نظری
،جہالت اور انصاف کُشی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کی مساعی رنگ لاتی
ہیں۔اُرد واور دکنی زبان کی تاریخ کے دامن میں ماضی کے واقعات اور سیاسی
زندگی کے نشیب و فراز کے مظہر متعدد حقائق موجود ہیں۔ان کامطالعہ جہانِ
تازہ کے متلاشی فکر و خیال کی دنیا کے رہ نوردوں کو جہان ِ تازہ کی نوید
سناتا ہے اور افکارِ تازہ کی ایسی مشعل فروزاں ہوتی ہے جو سفاک ظلمتوں کو
کافور کر کے دلوں کو ایک ولوۂ تازہ عطا کرتاہے ۔فکر وخیال کی یہ ضیا پاشیاں
اقوام اور تہذیبوں کے ارتقا سے وابستہ اقدار و روایات اور ان سے منسلک
رازوں کی گرہ کشائی کو یقینی بناتی ہیں۔ دکن کے وسیع علاقوں بالخصوص
گولکنڈہ اور بیجا پور کی دکنی ریاستوں میں بولی جانے والی زبان ’’دکنی ‘‘کے
بارے میں یہی تاثر پایا جاتاہے کہ یہ اردو کی قدیم صورت ہے۔ دکنی کے اردو
کے ساتھ گہرے میلانات اور مشابہتیں اس کا بنیادی سبب ہیں۔ اردو زبان کا
قدیم دکنی زبان سے ایک الگ مزاج ہے مگر اسے دکنی کی ایک ایسی منفرد صورت
سمجھا جاتا ہے جس میں دونوں زبانوں کے کئی مشترک رنگ جلوہ گر ہیں۔
ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ جہاں تک علم الاصوات اورگرامر کے قواعدکا
تعلق ہے قدیم زمانے میں دکنی اور اردو میں گہری قرابت اور مشا بہت پائی
جاتی تھی مگر جدید دور میں یہ عنقا ہے ۔ان زبانوں میں پائے جانے والے
اختلافات کا تعلق قواعدی صوتیات ،شکل و صورت ،صرف و نحو اور لغت سے ہے
۔معاصر لسانی تصورات کی روشنی میں دیکھاجائے تو دکنی زبان کو اپنی نوعیت کے
اعتبار سے اُردو کی ایک ایسی الگ صورت سمجھا جاتا ہے جوجدید دور میں تخلیق
ادب کے لیے کم کم استعمال ہوتی ہے ۔ زمانہ قدیم کے تخلیق کار لسانیات کے
بارے میں یقیناً اس قدر باشعور اور سنجیدہ تھے کہ انھوں نے سیلِ زماں کے
تھپیڑوں پر کڑی نظر رکھی اور زندگی کی برق رفتاریوں کو محسوس کرتے ہوئے
حالات کی نبض پر ہاتھ رکھا ۔اپنے جذبات واحساسات کی لفظی مرقع نگاری اور
پیکر تراشی کرتے وقت اصلاح زبان پرتوجہ مرکوز رکھنا بِلا شبہ ایک کٹھن مر
حلہ تھا مگر قدیم تخلیق کاروں نے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کو
ثابت کر دیا ۔ دکنی کے کئی الفاظ جو قدیم اردو میں مستعمل رہے اب وہ متروک
ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب چکے ہیں۔ذیل میں قدیم دکنی کے چند الفاظ درج
کیے جاتے ہیں جن کا موجودہ زمانے میں استعمال تحریر کو پشتارۂ اغلاط بنانے
کاسبب بن سکتا ہے ۔ زبانیں جب نئے علاقوں میں پہنچتی ہیں تو مقامی زبانوں
کا ان سے متاثر ہونا نا گزیر ہے ۔اس طرح لسانی سطح پر تغیر و تبدل کا ایک
غیر مختتم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے لسانی ارتقا پر دُور رس اثرات مرتب
ہوئے۔ دکنی زبان سے اس خطے کی ارضی و ثقافتی اقدار و روایات کی ج ومہک آتی
ہے اس سے قارئیں ادب کا قریہ ٔ جاں معطر ہو جاتا ہے ۔دکن کے تخلیق کاروں نے
بر صغیر کے طول و عرض میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے خوشہ چینی کرتے
ہوئے الفاظ کے گل ہائے رنگ رنگ سے جو جو حسین و عنبر فشاں گل دستہ مرتب کیا
ہے اس کی رنگینی و رعنائی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔خاص طور پر تلگو
اورپنجابی الفاظ کا اپنا منفرد رنگ اورآ ہنگ ہے ۔ دکنی شعرا کے کلام میں
بھی اس قسم کے نا مانوس الفاظ موجود ہیں جو مقامی زبانوں سے مستعار لیے گئے
ہیں ۔ذوق سلیم سے متمتع قارئینِ ادب لسانیات کی اس قوسِ قزح کے حسین رنگ
دیکھ کرمسحور ہو جاتے ہیں ۔ سال 1327 میں محمد بن تغلق کی مہم جوئی کے
نتیجے میں اس خطے میں جس لسانی عمل کا آغاز ہوا اوردکنی زبان کی جو خشتِ
اول رکھی گئی اسی کی اساس پر دکنی زبان و ادب کا قصر ِ عالی شان تعمیر ہوا
۔ خواجہ بندہ نواز (1321-1422)کی معراج العاشقین جو اس خطے میں تصوف کی
اولین تخلیق ہے اورفخرالدین نظامی کی تخلیق ’کدم راؤ پدم راؤ( عرصہ تخلیق :
1420-1430)سے روشنی کے جس سفر کا آغاز ہوا وہ اب بھی جاری ہے ۔دکن میں
تلنگانہ اورآندھرا کے علاقوں میں تلگو کے اثرات نمایاں رہے ہیں جب کہ بہمنی
سلطنت کے ٹوٹنے کے بعداحمد نگر
( 1460-1633)، بیجاپور ( 1460-1686)،بیدار(1487-1619) اور گول کنڈہ
(1512-1687)کے علاقوں میں پنجابی الفاط کا استعمال زیادہ ہے۔
لفظ ’ نسنا ‘ پنجابی زبان میں بھاگ جانے یا راہِ فرار اختیار کرنے کے معنی
دیتا ہے ۔یہ لفظ دکنی شعرا کے کلام میں منفرد انداز میں موجود ہے :
جو لیدان آئے فقیراں وراس
چلی سب فقیری جگت چھوڑ نھاس ( احمد دکنی )
بُلا کر لائے چاکر شاہ کے پاس
کہا مایا چُرا کر جاتے ہیں ناس (محمد امین دکنی )
دونوں ہاتاں آپس کے کھو گیااو
نسنگ نھاس لگا ہے سگ بچہ او (ولیؔ دکنی )
قدیم دکنی میں دو طرفہ کے لیے ’ دولاں ‘ کالفظ استعمال کیا جاتا تھا جو
پنجابی لفظ ’ ول ‘ سے لیاگیا ہے ۔
دِسے فانوس کے درمیانے تھوں یوں جوت دیوے کا
سو تیوں دِستا دولاں میں تھے ہیویاں کا برن سارا (محمدقلی قطب شاہ )
نمک کی کان تو مشہور ہے مگر پنجابی میں لفظ ’ کان ‘ کا مطلب ’ واسطے ‘ یا
’لیے ‘ہے ۔ دکنی شعرا نے اس لفظ کو اپنے کلام میں اس خوش اسلوبی سے برتا ہے
کہ کلام کی تاثیر کو چا ر چاند لگ گئے ہیں ۔
سو کچھ مان مانس کوکیتا عطا
جوسب کو اِسی کان پیدا کیتا (احمددکنی )
جب میں سدا برہ کا دکھ دکھوں
میرے کان جھکڑاروا کیوں رکھوں (احمددکنی )
کچی مٹی کے پتلے گارے اورکیچڑ کو پنجابی میں ’ چِکڑ ‘ کہتے ہیں دکنی زبان
میں بھی یہ اسی طرح مستعمل ہے ۔
بڈھے جو رکت ہو چکڑ میں پڑے
پنکھی جو سٹے کات سوتر پڑے (احمددکنی )
دودھ کو پنجابی میں ’ کِھیر ‘ کہتے ہیں اسی کی تقلید میں دکنی زبان کے
تخلیق کار بھی دودھ کے لیے لفظ ’ کِھیر ‘ ہی استعمال کرتے ہیں ۔
تھاں دیکھنے لاگا بالک لکھ نہ آوے کِھیر
جِس کے انگو بھرم نہ جاوے اُس کیوں کہنا پِیر ( میراں جی شمس العشاق )
تہذیبی میرا ث کے حوالے سے بر طانوی مورخ آر نلڈٹائن بی (: 1889-1975
Arnold Joseph Toynbee )نے اپنی کتاب ( Civilization on Trial) میں دنیاکی
مختلف تہذیبوں کے عروج و زوال کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھاہے :
"In human terms ,I should say that each of these civilizations is,while
in action ,a distinctive attempt at a single great common human
enterprise,or,when it is seen in retrospect,after the action is over ,it
is a distinctive instance of single grear common human experience.(14)
اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں دکنی زبان او راردو
زبان کے ادیبوں نے کورانہ تقلید کی ر وش سے بچتے ہوئے نئے امکانات کی
جستجوکی خاطر جو طرز ِفغاں اپنائی اُس کی باز گشت آج بھی سنای دیتی ہے۔یہ
ادب جہاں روح ِ عصر کی ترجمانی کرتا ہے وہاں تاریخ اور اُس کے پیہم رواں
عمل کی جانب بھی توجہ دلاتاہے ۔
مآ خذ
(1)نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اردو ، لاہور،مکتبہ معین الادب ،چوتھی بار ،
1952 ، صفحہ 19۔
(2) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس،مصنف ملا وجہی ، کراچی ،انجمن ترقی
اردو پاکستان ،1952،طبع دوم ،صفحہ 70۔
(3)مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس، مصنف ملا وجہی ،صفحہ 80
(4)مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس ، مصنف ملا وجہی ،صفحہ 93
(5) شوکت سبزواری ڈاکٹر : لسانی مسائل ، کراچی ،مکتبہ اسلوب ،اشاعت اول
،1962، صفحہ 78۔
6.Jamal Malik:Islam In South Asia ,Brill ,Boston,2008,Page 283.
7. Heory Frowde (Publisher): The Imperial Gazetteer Of India, Vol,I,
Oxford,London 1909,Page 362
8.Romila Thoper: The Penguine History Of Early India
,London,2002,Page,113.
9.Keith Brown: Concise Encyclopedia Of Languages Of The
World,London,2009,Page,498
(10)جمیل جالبی ڈاکٹر :تاریخ ِ ادب اردو ،جلداوّل ، دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ
ہاؤس ،طبع دوم ،1986 ،صفحہ 200۔
(11)سیدہ جعفر ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو ،جلد اوّل ،حیدرآباد ،2002،صفحہ ،10۔
(12)سیدہ جعفر ۔گیان چند جین :تاریخ ادب اردو ،جلداول ، دہلی،قومی کونسل
برائے فروغ اردو ،1998،صفحہ ،54۔
13.George Cardona:The Indo-Aryan Languages,Routledge,New
York,2007,Page289.
14.Arnold J.Toynbee:Civilization On Trial,Oxford University Press New
York,1948,Page,55
|