ڈاکٹر غلام شبیر رانا
شمالی ہند اور جنوبی ہند کے باشندے بر صغیر کی اقوام کی ایک مخلوط اور مرکب
نوعیت کی تہذیب و ثقافت کی پہچان خیال کیا جاتا ہے ۔اس کی ہمہ گیر وسعت اور
جامعیت کا ایک عالم معترف ہے ۔دکن کی تہذیب و ثقافت اور لسانیات کی تاریخی
جہات کے کرشمے دہلی اور اس کے مضافات میں صدیوں سے توجہ کا مرکز چلے آ رہے
ہیں ۔ادب اور فنون لطیفہ ہوں یا علوم سب کی ایک خطے سے دوسرے خطے کے
باشندوں تک منتقلی انسانوں ہی کی مرہون منت رہی ہے ۔ذوق سلیم سے متمتع
انسانوں کا وسیلہ علمی و ادبی میراث کی منتقلی کے لیے نا گزیر سمجھا جاتا
ہے اس کے بغیر علوم و فنون کے ارتقا سے وابستہ تاریخی تسلسل کا جاری رہنا
بعید از قیاس ہے ۔رخشِ حیات کی طرح لسانیات کی یہ برق رفتاریاں سدا جاری
رہتی ہیں اورخوب سے خوب تر کی جانب سفر جاری رہتا ہے اور مر حلہ ٔ شوق کبھی
طے نہیں ہوتا ۔ بادی النظر میں لسانی ارتقا بھی ایک حرکی عمل ہے جو اس
عالمِ آب و گِل میں اپنا فعال کردار ادا کرنے والے متعدد زندہ مظاہر کے
مانند ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کے کرشمے دکھا کر اپنی ہمہ گیر اہمیت
کی دھاک بٹھا دیتا ہے ۔لسانی ارتقا کا معاشرے اور ماحول کے تغیر و تبدل کے
ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ دکن کے قدیم باشندوں نے اپنے عہد کے سیاسی حالات کو
قریب سے دیکھااوروہ اس تجربے کا حصہ رہے جو عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں
سامنے آئے ۔فوجی مہمات کے نتیجے میں مختلف علاقوں سے بڑے پیمانے پر انتقال
آبادی کے مسائل و مضمرات ان کی تخلیقی فعالیت پر بھی اثر انداز ہوئے ۔مطلق
العنان بادشا ہوں کے دور میں معاشرتی زندگی کے معمولات مکمل طور پر بدل
جاتے ہیں ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جوہرِ قابل کا کوئی پرسان حال
نہیں ہوتا مگر جاہل غاسب اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتے ہیں ۔معاشرتی
زندگی میں انصاف کُشی اس قدر عام ہو جاتی ہے کہ با صلاحیت اور ناہل کا
امتیاز کیے بغیر ہر آمر اپنی ساری رعایا کویک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے ۔
مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈ لانے لگا ہے
۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اقوام کے جاہ و جلال ،سطوت و ہیبت کو تو خس و خاشاک
کے مانند بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب ان سے محفوظ رہتی ہے ۔ادب اور فنون
لطیفہ کی تعلیم کے وسیلے سے تہذیبی میراث کو نئی نسل کومنتقل کیا جاسکتاہے
۔مغربی فلسفے کابنیادگزار ایتھنز سے تعلق رکھنے والا یونانی فلسفی سقراط
(D,399 BC :Socrates ) ہو یا اطالوی راہب، فلسفی،ماہر فلکیات ،ریاضی دان
اور ساحر جیور ڈانو برونو (Giordano Bruno : 1548-1600)، برطانوی رہزن ڈک
ٹرپن (: 1705-1739 Dick Turpin)ہو یااپنے عہد کا متمولسرمایہ کار اور بے
باک برطانوی صحافی ہورتیا بوٹملے (Horatio Bottomley: 1860-1933)سب کے سب
شامت ِ اعمال یا فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ کر فسطائی جبر کے مہیب
پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر کوئی آنکھ ان کے دلِ شکستہ پر نَم نہیں ہوتی ۔
تہذیبی میراث کے حصول کے لیے نئی نسل کو سخت محنت کو شعار بنانا پڑتا ہے ۔
معاشرتی زندگی میں لسانیات کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی دستور ہے جہاں ترک
وانتخاب کا سلسلہ ہمیشہ جاری ر ہتا ہے اور ماضی کے کئی حقائق خیال و خواب
بن جاتے ہیں ۔ دکن میں ادب ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے وابستہ فعالیتیں جو
ابتدائی ادوار میں تہذیب و تمدن کے فروغ کے سلسلے میں معمولی زاد ِ راہ
سمجھی جاتی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی فعالیتیں معاشرتی زندگی کے لیے
ناگزیر ضرورت بن گئیں ۔لسانیات میں سُود و زیاں کا کوئی تصور ہی نہیں کسی
زبان کی پزیرائی ہی کو اس زبان کی حقیقی فیض رسانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
افراد کی معاشرتی زندگی میں اظہار و ابلاغ میں تجریدی پیرایۂ اظہار کے
بجائے اس سے وابستہ حرکت و حرارت اور مزاج و کیفیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے
۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں وہ اقدار جن کا تعلق معاشرے کی اجتماعی زندگی
تھا پیہم تغیر و تبدل کی زد میں رہی ہیں لسانی ارتقا بھی اس عمل سے بے نیاز
نہ رہ سکا ۔لسانی حوالے سے ادب محض اُن تجربات،احساسات ،واقعات اور ان سے
متعلق تفصیلات پر انحصار نہیں کرتا جو تخلیق فن کے لمحوں میں پیش نظر رہے
بل کہ ایک اجتماعی جذبِ دروں کی دھنک رنگ کیفیت اس کے پسِ پردہ کارفرما
رہتی ہے ۔اس طرح تخلیق کار جس نوائے سروش سے سرشار ہو کر اپنی گُل افشانی ٔ
گفتارکے جوہر دکھاتا ہے اس کے حرکیاتی کردار سے معاشرتی زندگی میں نکھار
پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔
دکن میں بہمنی دور(1347-1495)کو اس خطے میں لسانی ارتقا کے حوالے سے ہمیشہ
یاد ر کھا جائے گا۔سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسوداز شہبازؔنے اپنی
تحریروں سے اس خطے میں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو نمو بخشی ۔اُن کی نثری
تصانیف معراج العاشقین،ہدایت نامہ ،تلاوت الوجود،شکارنامہ اور علم تصوف کے
موضو ع پر وقیع رسائل کے اعجاز سے دکنی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ توحید ،
وحدت الوجود،رسالت ،اسرارِ خودی ،معرفت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی
کو اس دکنی تخلیق کار نے سدا پیشِ نظر رکھا۔
پانی میں نمک ڈال مزا دیکھّا دسے
جب گُھل گیانمک تو نمک بولنا کسے
یوں کہوی خودی اپنی خدا سات محمد ﷺ
جب کُھل گئی خودی تو خدا بِن نہ کوئی دِسے
جسمانی صحت کا زندگی کے معمولات سے گہرا تعلق ہے اس بنا پر یہ کہا جاتاہے
کہ حفظان صحت کا تہذیب وثقافت سے گہر اتعلق ہے ۔ صحت کا انسانی مزاج اور
طرزِ عمل سے گہرا تعلق ہے جسمانی صحت کو اسی بنا پر متاعِ بے بہا سے تعبیر
کیا جاتاہے ۔سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسوداز شہباز نے دکنی زبان
میں کئی منظوم طبی نسخے لکھے جو آج بھی قارئین کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے
ہیں۔ اِن طبی نسخوں کے مطالعہ سے اُس عہد کی تہذیبی ،ثقافی اور معاشرتی
زندگی کی فکر ی منہاج کی تفہیم میں مدد ملتی ہے ۔عملی زندگی میں بعض اوقات
ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک اِنسان کسی جسمانی تکلیف کے باعث مضمحل ہوجاتا
ہے ۔ یہ طبی نسخے عطائیت کے خاتمے اور خود انحصاری کی ایک ایسی قابل عمل
صورت پیش کرتے ہیں جس کی تہذیبی اہمیت مسلمہ ہے ۔ایسی صورت میں جب کوئی
تیماردارنہ ہو اور چارہ گر بھی چارہ گری سے گریز کریں توفوری طبی امدادکے
لیے یہ سہل الحصول طبی نسخے درد کادرماں ثابت ہوتے ہیں۔
آنتوں ہلیلہ آنتوں لوں
پتیں کے گھر جائے کون
آنکھ کو ہلیلہ دانت کوں لوں
حکیم کے گھر جائے کون
جِتنا کاجل اُتنا بول
اوس سے دُونا گوند گھول
ذرا سی پھٹکری نمک لا تھوڑا
قلم جیسے جوں تُرکی گھوڑا
سُن تُو سیانے میری بات
بولوں دارُو میں کِس دھات
جِس کے منھ میں آوے باس
اُس کی دارُو سُن مُجھ پاس
جِس کے منھ میں دُکھتے دانت
ہلتے جلتے کٹے کٹے پات
وزن برابر سب کو تول
دارُو ہووے یوں اَن مول
داتوں کارن مِسّی کر
خوبی کن تو دِل میں دَھر
زِیرہ مِرچیاں ستو ا سنوٹ
کہتا اُجلا لے کر گھونٹ
نِیلا طوطہ دھنیا بُھون
اِس میں مِلا تو سیندا لون
پان پلاس کے کاہنٹیاں آن
ما پھل لوچن اور لوبان
جوں جوں لگاوے پاوے سُکھ
تُجھ دانتوں کا جاوے دُکھ (1)
دکنی زبان کے بزرگ شاعر خواجہ بندہ نواز کے بیٹے سید محمد اکبر حسینی کی
پیدائش دہلی میں ہوئی مگر بعد میں وہ گلبرگہ منتقل ہو گئے ۔باپ کی زندگی ہی
میں وفات پائی ۔
دھو کر زبان کوں اپنے پہلے پِیر سوں بیان پر
بولوں صفت خدا کی کر شکر میں زبان پر
نظامی : سلطان احمد شاہ ثالث بہمنی کے دور کا درباری شاعر تھا۔اُس نے ایک
عشقیہ مثنوی لکھی جس کے ہیرو کدم راؤ اور پدم ہیں ۔اس مثنوی میں قدیم زمانے
کے دکنی رسوم و رواج کا حوالہ ملتاہے ۔
صدر الدین :اس صوفی شاعر کی تصنیف ’’ کسب محویت ‘‘ میں وحدت الوجود اور
قلبی و روحانی کیفیات کا حال مذکور ہے ۔
صدر الدین تو کسب پر ثابت اچھے
صرف سوں صفتوں کے نِت ثابت اچھے
صدر الدین پَل پَل میں یوں بے کل ہوا
وصل میں بھی یک پَل منجی میں حل ہوا
مشتاق: اس شاعر نے سلطان محمدشاہ بہمنی کے عہدِ حکومت میں اپنی غزلوں
اورقصائد کی وجہ سیبہت شہرت حاصل کی ۔
او کسوت کیسری کر تن چمن میانے چلی ہے آ
رہے کھلنے کون تیوں دستی او چپنے کی کلی ہے آ
سورج مرجان میں جیوں دِستا نظردوں کانپتی تھر تھر
جو لَٹ پیچاں بھری سر تھے اور رُخ اوپر ڈھلتی ہے آ
کسی بھی معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی اجتماعی زندگی میں رونما ہونے
والے واقعات ،سانحات،نشیب و فراز ،تغیر و تبدل اورارتعاشات کو محض اتفاقات
یا حادثات سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ایسے حالات ازخود پیدا نہیں ہو جاتے
بل کہ یہ ایک نظام کے تحت منصۂ شہود پر آتے ہیں جس کے پس پردہ متعدد عوامل
کارفرما ہوتے ہیں ۔معاشرتی زندگی کے قواعد و ضوابط کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ
وہ انسانوں کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے عہدہ بر آ ہونے پر مائل کرتے
ہیں ۔شمال ہند اور جنوبی ہند کے مختلف نوعیت کے سیاسی ،سماجی اور معاشرتی
حالات کوقدیم ادیبوں نے اپنے اسلوب میں جگہ دے کر تاریخ اور اُس کے پیہم
رواں عمل کو ایک مستقل حوالہ بنا دیاہے ۔شمالی ہند اور جنوبی ہند کے
باشندوں کے رہن سہن ،معمولات ِزندگی اور مشاغل کے بارے میں قدیم ادب کو اہم
اور اولین بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ۔اسی کی اساس پر اُن تخلیق کاروں
کے افکار کا قصر ِ عالی شان تعمیر ہوا ہے ۔زندگی کی یہی بو قلمونی ، وسعت
،تنوع اور نُدرت ہی اس خطے کے مختلف علاقوں کی پہچان اور حسن ِ فطرت کا
معدن بن گئی ہے ۔زندگی کے مسلمہ معائر کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم
دوشِ ثریا کرنے کا یہی انداز اس خطے کی تہذیبی میراث ثابت ہوا۔ اپنی جنم
بھومی کی تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت شمالی ہند اور
جنوبی ہند کے باشندوں کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ
تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ اس کی پیہم تخلیق
،تجدید اور نکھار پر توجہ مرکوز کی جائے ۔تہذیبی اور ثقافتی اختلا ف کے
باوجود اس خطے میں انسانی اقدار کے بارے اتفا ق رائے تھا جس کے معجز نما
اثر سے خداداد صلاحیتوں کو صیقل کرنے اور استعدادِ کار کو مہمیزکرنے میں
مددمِلی ۔
دکن کے باشندوں نے اپنی مقامی زبان کے لہجوں اور اصوات سے بہت محبت کی لیکن
اقتضائے وقت کے مطابق زبان میں ترمیم اور اِس کی تشکیلِ نو کا سلسلہ بھی
جاری رہا۔ اپنی زبان کی خاص حدود میں رہتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرنے کی
خاطر انھوں نے دوسری زبانوں سے معتبرربط بر قرار رکھا ۔انسانیت کی بقا
،وقار اور سر بلندی اس امر کی متقاضی ہے کہ بے لوث محبت ، خلوص ،دردمندی
،تعاون اور ایثار کو شعار بنایا اور تخلیق ِ ادب کو تاریخ کے مسلسل عمل کی
ایک صورت عطا کر دی ۔ اس زمانے کے ادیب یہی چاہتے تھے کہ اپنے ساتھیوں کے
ساتھ مل جُل کر زندگی بسر کی جائے اور سب کے ساتھ ہمدردی کو شعار بنایا
جائے ۔ مِل جُل کر رہنا ،ایثار اور غم گساری انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔
ارض ِ وطن کی تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی انسان کو اُس صلاحیت سے متمتع
کرتی ہے جو حب الوطنی ،حریت ِ فکر و عمل تاریخی حقائق اس امر کے شاہد ہیں
کہ انسانی ذہن و ذکاوت اور قلب و روحانیت کے اعجاز سے نمو پانے والے تصورات
کا اظہار الفاظ کا مرہونِ منت ہے ۔ادبیات اور لسانیات کا ارتقا الفاظ کی صد
رنگی کا مظہر ہے جسے تاریخی تناظر میں دیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے
۔دکن میں رونما ہونے والے لسانی تغیرات کا تاریخی پس منظر متعدد چشم کشا
صداقتوں کا امین ہے ۔اس خطے کی اقدار و روایات کی محبت جس انداز میں اُن کے
لا شعور میں ر چ بس گئی تھی اِس کا اظہار اُن کے اسلوب میں جلوہ گر ہے ۔
تیرہویں صدی عیسوی میں بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین فیروز
خلجی (عہد حکومت : 1290-1296) کے بعد علاؤالدین خلجی (عہد حکومت
:1296-1316)مسند اقتدار پر فائز ہوا۔اسی بادشاہ کے عہد میں مسلمان افواج
دکن پہنچیں ۔اس یلغار کے نتیجے میں جو نقل مکانی ہوئی لسانی عمل بھی اس سے
متاثر ہوا۔اس نئی زبان میں پنجابی،ہریانی اور کھڑی بولی کے امتزاج سے اظہار
و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آئے۔اِس نئی زبان نے جہاں برج بھاشا سے اثرات
قبول کیے وہاں عربی اورفارسی زبان سے بھی بے نیاز نہ رہ سکی ۔ تاریخ کے
مختلف ادوار میں اس نئی زبان کو جن ناموں سے پکارا گیا ان میں
ہندی،ہندوستانی اور دکنی شامل ہیں ۔دکنی زبان کے ارتقا میں ایک اور اہم
واقعہ محمدبن تغلق (عہد حکومت :1325-1351)کی وہ مہم جوئی ہے جو اس نے
مہاراشٹر کے شہر دیو گری کو دولت آباد کا نام دیا اور اسے اپنا دار الحکومت
بنایا ۔اسکے س اتھ ہی قصر شاہی سے رعایا کو نئے دار الحکومت کی جانب ہجرت
کرنے کا حکم صادر ہوا۔ محمد بن تغلق کے اس حکم کی تعمیل کرنے والوں کو سفر
خرچ اور قیام و طعام کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ محمد بن تغلق کے احکام
کے نتیجے میں دہلی اور اس کے مضافات میں مقیم لوگوں نے بڑے پیمانے دولت
آباد کی جانب ہجرت کی ۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس علاقے میں
لسانی تغیرات کو تقویت ملی اور مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان نے فارسی
زبان سے گہرے اثرات قبول کیے ۔ شمالی ہند میں مروج زبان جس کا دامن معیاری
ادبی تخلیقات سے تہی تھا اس نقل مکانی کے بعدمہاراشٹری اور دراوڑی زبانوں
کے درمیان معیاری ادبی زبان کی صورت میں سامنے آ رہی تھی۔ چودھویں صدی کے
وسط میں تغلق بادشاہوں کا جاہ و جلال جب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آیا
اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے قصہ ٔ پارینہ بننے لگے تو جنوبی ہند میں
سیاسی حالات کا رخ بدل گیا ۔یہ علاقہ مرکزی حکومت کے اثر سے نکل گیا اور
یہاں دہلی کی مرکزی حکومت سے بغاوت کرنے والے سلطان علاؤالدین حسن بہمن شاہ
کی قائم کردہ بہمنی سلطنت ( عہد حکومت : 1347-1527) قائم ہوگئی۔اس اقدام کے
بعد دکن کا شمالی ہند کے ساتھ رابطہ ٹُوٹ گیا۔سال 1538کے بعدبہمنی سلطنت
پانچ حصوں(احمد نگر ،بیجا پور ،برہان پور ،بیدار اور گو کنڈہ ) میں منقسم
ہو گئی ۔صرف دو ریاستوں (بیجاپور ،گو ل کنڈہ )میں علم و ادب کی سرپرستی پر
توجہ دی گئی ۔ بیجاپور میں عادل شاہی جب کہ گو ل کنڈہ میں قطب شاہی سلطنت
کے قیام سے اس علاقے میں علم و ادب کی تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔دہلی
میں مغل حکومت کے قیام کے بعد بہمنی سلطنت کے اقتدار کی شمع ٹمٹمانے لگی
مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے ان دو ریاستوں کا مغل سلطنت کے ساتھ ادغام کر دیا
اور اس طرح بہمنی سلطنت کے عروج کے قصے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے اور علم و
ادب کی سرپرستی کی روایات اور ان سے وابستہ اقدار بھی تاریخ کے طوماروں میں
دب گئیں ۔ بہمنی سلطنت کے منتشر ہونے کو علم و ادب ،معیشت اور صنعت و حرفت
کی ترقی کے لیے ایک نیک شگون سمجھا گیا ۔اس طرح جہاں معاشرتی ترقی کے نئے
امکانات پیدا ہوئے وہاں دکنی ادبیات کو مزید ادبی مراکز دستیاب ہوگئے ۔ان
ادبی مراکز میں حکمرانوں کی سر پرستی کے اعجاز سے ادب اور فنون لطیفہ کو
افکار تازہ کو پروان چڑھا کر جہانِ تازہ کے نقیب نئے آفاق تک رسائی کے
امکانات پیدا ہو گئے ۔
دکن میں علم و ادب کے ارتقا کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے
حکمرانوں نے علوم و فنون کی ترقی میں گہری دلچسپی لی ۔دکن کے کئی بادشاہ
اپنے ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اُرو،برج بھاشا اورتیلگو میں اپنی
تخلیقات پیش کرتے تھے ۔دکن میں تخلیق ادب کے حوالے سے اولین نام حضرت خواجہ
بندہ نواز گیسو درا ز کا ہے ۔اس خاندان نے علم و ادب کے فروغ میں گہری
دلچسپی لی ۔بہمنی سلطنت کے انتشار کے بعدبیجا پور میں یوسف عادل شاہ
(1490-1510)نے عادل شاہی حکومت( 1490-1686)قائم کر لی ۔عادل شاہی دور میں
آٹھ بادشاہوں نے حکومت کی :
۱۔ یوسف عادل شاہ :1490-1510
۲۔اسماعیل عادل شاہ : 1510-1534
۳ ۔ ابراہیم عادل شاہ : 1534-1558
۴۔علی عادل شاہ : 1558-1579
۵۔ابراہیم عادل شاہ ثانی :1580-1627
۶۔محمد عادل شاہ :1627-1657
۷۔علی عادل شاہ ثانی :1657-1672
۸۔سکندر عادل شاہ : 1672-1686
علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ (1558-1579 )
یہ بادشاہ اپنے عہد کا با کمال شاعر بھی تھا جس کی علم دوستی اور ادب پروری
سے متاثر ہو کر نصرتی ؔ اس کاشاگرد بن گیا ۔
شاہی عاشق اتا بول مناجات کچ
تا کہ کرم تج پہ ہوے بہر حسین و حسن
کار جہاں کے سگل فکر تے بہاری اچھے
سائیں کرے لو بہ جب دُور ہو جاوے محن
ابراہیم عادل شاہ ثانی ابراہیم ؔ بھی علم و ادب کا قدر دان تھا ۔
ابراہیم سب سندری دیکھا یو لچھن ہے کہاں
جات چاند سلطان نا نوبی ملکے جہاں
شاہ میراں جی شمس العشاق(1407-1498)
پندرہویں صدی عیسوی میں اس عہد کے ہندی زبان کے ممتاز صوفی شاعر شاہ میراں
جی شمس العشاق(1407-1498) کی مذہبی ، علمی و ادبی خدمات کوقدر کی نگاہ سے
دیکھا جاتا تھا۔ سال 1450میں بر صغیرپہنچنے والے اس شاعر کی تخلیقات عشق
،مذہب ،تصوف اور زندگی کے تمام نشیب و فراز پر محیط اس تخلیق کار کی شاعری
ادبی اعتبار سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگرکرتی ہیں ۔ شاہ میراں جی شمس
العشاق نے ’ شہادۃ الحقیقت‘ ،’خوش نغز ‘ ،’خوش نامہ ‘ اور تصوف سے وابستہ
اہم موضوعات پرنثر کی کتاب ’ شرح مرغوب القلوب ‘ لکھ کرادب کی ثروت میں
اضافہ کیا۔شاہ میراں جی شمس العشاق نے دکنی زبان کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ
بنایا ۔شاہ میراں جی شمس العشاق کا نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
تُو قادر کر سب جگ سب کو روزی دیوے
تُو سبھوں کا دانا بِینا،سب جگ تُج کو سیوے
ایکس ماٹی مولی دیوے ایکس ماٹی باج
کیتوں بِھیکھ منگواوے کِیتوں دیوے راج
کِیتوں پاٹ پتمبر دیتاکِیتو ں سر کی لایا
کِیتوں اوپردھوپ تلاوے کیتوں اوپر چھایا
کیتے گیان بھگت بیراگی کیتے مُورکھ گنوار
ایک جن ایک مانس کیتا اک پرس اک نار
شاہ برہان الدین جانمؔ (متوفی :1599)
شاہ میراں جی شمس العشاق کے ذہین فرزند شاہ برہان الدین جانمؔ (متوفی
:1599)نے تصوف کے موضوع پر نظم اور نثر میں جو سرمایہ پیش کیا اس کے لیے
دکنی زبان کا انتخاب کیا ۔شاہ برہان الدین جانم ؔکی شعری تصانیف ’سکھ لیلا‘
،’وصیت الہادی ‘ ،اور ’ارشاد نامہ ‘ ہیں ان کی نثری تصنیف ’کلمۃ الحقائق
‘تصوف کے موضوع پر اہم کتاب ہے جس کے موضوعات کی ’ معراج العاشقین ‘ سے
گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔ شاہ برہان الدین جانمؔ نے شاعری میں ہندی اوزان
پر بھی توجہ دی ۔ شاہ برہان الدین جانمؔ کا نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
یہ رُوپ پر گٹ اَپ چھایا کوئی نہ پایا انت
مایا موہ میں سب جگ باندھیاکیونکہ سُوجھے پنت
بعض آ کہیں اپنی بوجھ
معلوم ہیں اوس کی سوجھ
ایک جمع سب پکڑیا بَار
جوں کے بیچ تھے نھکیااڑ
کاٹا چھانٹاپھل اور پُھول
شاخ،برگ سب دیکھ اصول
نہ اس خالق مخلوق کوئے
جیسا تیسا سمجھا ہوئے
امین الدین اعلیٰ
شاہ برہان الدین جانم کے بیٹے اور جا نشین امین الدین اعلیٰ نے بھی دکنی
زبان میں نظم اور نثر کی تخلیقات پیش کیں ۔ ممتاز محققین کی رائے کے مطابق
امین الدین اعلیٰ نے اپنے اسلاف کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے زیادہ بہتر او ر
موثر انداز میں تصوف کے مسائل پر اظہار خیال کیا ۔ ان کی تصانیف ’ محب نامہ
‘ ، ’رموز السالکین‘، ’گنج خوبی‘ اور ’ وجودیہ‘ کی بہت پزیرائی ہوئی ۔نمونہ
کلام درج ذیل ہے :
قمرین میں تیرے ساحر ہوے ہموں کوں
مگر اہ کر بھلا دے قوس قزح بہوں کوں
پیچوں بھریاں زلف تج موجوں ڈبے بحرموں
ہر لہو پڑ کرشمہ ٔ عشاق کے ریجن کوں
اس عہد کے جن تخلیق کاروں نے فروغ ادب میں حصہ لیا ان میں میراں جی خدا نما
،شاہ محمد قادری ،سیّد میراں حسینی،شاہ معظم اور داول کے نام قابل ذکر ہیں
۔ابراہیم عادل شاہ ادب اور فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی لیتا تھا ۔اس نے
دکنی زبان میں شاعری کی اورگیتوں اور موسیقی کے موضوع پر کتاب ’’نو رس ‘‘
لکھی ۔ابراہیم کے بعد محمد عادل شاہ نے عنان اقتدار سنبھالی ۔محمد عادل شاہ
اور اس کی بیگم کو شعر و ادب سے قلبی لگاؤ تھا۔اس کے عہد حکومت میں جو شعرا
دربار سے وابستہ رہے ان میں رستمیؔ ،ملک خوشنود،دولت شاہ،عبدل اور
مقیمیؔشامل ہیں۔
کمال خان رستمیؔ
کمال خان رستمی ؔ ایک زود نویس، پُر گو اورقادر الکلام شاعر تھا ،اس کا
اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے محمدعادل شاہ کی بیگم (خدیجہ
سلطان شہر بانو )کی فرمائش پر چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل ایک طویل مثنوی
’’خاور نامہ ‘‘ محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں سال 1649 مکمل کی۔ مثنوی ’’خاور
نامہ ‘‘ اگرچہ ایک فارسی نظم کا ترجمہ ہے مگر رستمیؔ نے ترجمے کو اس مہارت
سے دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے کہ ترجمے میں بھی تخلیق کی چاشنی پیدا ہو گئی
ہے ۔ امیر خسرو کی فارسی تصنیف پرمبنی ملک خوشنود کی مثنوی ’’ ہشت بہشت
‘‘اگرچہ مشکل زبان میں لکھی گئی ہے مگر اس کی لسانی اہمیت کو نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا۔
اوّل جب کیا یو کتاب اِبتدا
بندیاات میں نقش نامِ خدا
کیاترجمہ دکھنی ہور دِل پذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر
خلق کہتی ہے مجھ کمال خان دبیر
تخلص سو ہے رستمی ؔ بے نظیر
عبدالغنی عبدل ؔ
بادشاہِ وقت کی مدح میں لکھی گئی عبدلؔ کی مثنوی ’’ ابراہیم نامہ ‘‘ کو بھی
دکنی زبان کے ارتقا میں اہم سمجھا جاتا ہے ۔
کہیا شاہ استاد عبدل ؔ سو یوں
توں ہر اِک زبان کر شعر بات کو ں
نصرتی ؔ ( محمد نصرت )
علی عادل شاہ کے عہد حکومت میں رزمیہ اورعشقیہ شاعری کے مشہور شاعر نصرتی ؔ
ؔ (محمد نصرت )کے ہمہ گیر اور منفرد اسلوب کا ہر طرف شہرہ تھا ۔اس نے
واسوخت(عاشقِ نا مراد کی شکایتوں اور عرض ِ ِ غم کی حکایتوں کا بیان)
اورشہر آشوب(معاشرتی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی کا المیہ ) کے
بیان میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا ۔ تخلیق فن کے دوران میں وہ
’بادشاہ شاہی ‘کے قلمی نام سے لکھتاتھا۔اس کا مجموعہ کلام ’’کلیات شاہی ‘‘
کے نام سے شائع ہوا ۔ اپنی شاعری میں نصرتی ؔ نے بالعموم مثنوی کی ہئیت کو
منتخب کیا اور مثنوی ہی اس کی شہرت کا وسیلہ بن گئی ۔مثنوی کے علاوہ نصرتیؔ
نے غزلیں اور قصیدے بھی لکھے ۔ اسے دکنی اردو میں قصیدے کا پہلا شاعر سمجھا
جاتا ہے ۔اس کی مثنوی ’’ گلشن عشق ‘‘منوہر اور مدھو مالتی کی داستان محبت
پر مشتمل ہے ۔اپنی مثنوی ’’علی نامہ ‘‘ (سال اشاعت 1670)میں نصرتی ؔ نے علی
عادل شاہ
ثانی کی حیات اور مہمات کو موضوع بنایا ہے ۔ اس طویل مثنوی کے ہر حصے کا
آغاز ایک قصیدے سے ہوتاہے۔ادبی اسلوب کے اعتبار سے مثنوی ’علی نامہ ‘ پر
شکوہ انداز ،شدت جذبات اور دل کش پیرایۂ اظہار کی بنا پر حسن شوقی کی تخلیق
’ میزبانی نامہ ‘کے مانند بزم کے موضوع پر قلب وروح کی گہرائیوں میں اتر
جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے ۔ اس کی تیسری مثنوی ’’تاریخ سکندری‘‘ جو
نصرتی ؔ کی اچانک وفات کے باعث نا مکمل رہ گئی۔ملا نصرتی ؔ ( محمدنصرت )
بیجا پوری (1600-1674) نے معانی اور موضوعات میں پائی جانے والی حد فاصل کی
جانب متوجہ کر کے ادبی تھیوری کو نئے آ ہنگ سے متعارف کرانے کی سعی کی ۔اُس
کی تصانیف ’ گلشن عشق ‘ ، ’ علی نامہ ‘ اور تاریخ سکندری میں فکر و خیال کی
رفعت اور اظہار کی ندرت نے شاعری میں مضمون آفرینی اور معنی بندی کا ایک
جہاں تازہ جلو گر ہے جو قاری کے احساس و ادراک کو مہمیز کر کے اپنے من کی
غواصی پر مائل کرتاہے ۔ نصرتی ؔ کے اسلوب کا نمونہ گلشن عشق کے ان اشعار
میں دیکھیں :
اودھرسا تھ تھی ماں کے مدھو مالتی
اودھر ماں کے سنگات چمپاوتی
بہت دِن کوں جِس وقت بِچھڑے مِلے
اکر اک لگائے چنگل کر گَلے
انوکیاں سسکیاں چنکی سو سات تھیں
انوں کے کنبے بھی اوسی دھات تھیں
اِتے نرم و نازک رنگیلی پانوں (پانوں : پاؤں )
اُٹھے جِیب پر نقش لینے میں پانوں ( جِیب : زبان )
چندر بدن کہیا تو کہی موں سنبھال بول
سورج مُکھی کہیا تو کہی یوں نہ گھال بول
سید میراں ہاشمی ؔ بیجا پوری
نا بینا شاعر سید میراں ہاشمی ؔ بیجا پوری (متوفی : 1697)نے بار ہ ہزار
اشعار پر مشتمل مثنوی ’یوسف زلیخا ‘ تخلیق کی جو مولاناگرامی کی تصنیف کا
آزاد ترجمہ ہے ۔ہاشمیؔ نے عرب روایات کے برعکس اظہار محبت اور تکلم کے
سلسلے کاآغاز عورت کی جانب سے کیا ۔ سید میراں ہاشمی ؔ بیجا پوری کے ان
خیالات کی بنا پر اس کاشمار ریختی کے بنیاد گزار شعرا میں ہوتا ہے اوراسے
ارد وکے پہلے صاحبِ دیوان ریختی گو شاعر کی حیثیت سے شناخت مِلی ۔ ہاشمی سے
پہلے بھی ریختی کا وجود تھا اسی زمانے میں عارفی ؔ نے ریختی میں اپنے اشہبِ
قلم کی جولانیاں دکھائیں ۔ اس کا خطاب ’ میاں خان ‘ تھا ۔ دکن میں ہاشمی ؔ
کی مرثیہ نگاری کی بھی بہت دُھوم تھی۔ سید میراں ہاشمی بیجا پوری کانمونہ
کلام درج ذیل ہے :
ثنا حمد اِس کوں سزا وار ہے
گل عشق کا جس کو بستا ر ہے
سکت کِس میں ہے جو کرے سر بہ سر
اب تُو ہاشمی مناجات کر
مرے شعر کرے بادشاہاں پسند
پسند کر کردار اکیں جو سب ہوش مند
اپنی شاعری میں ہاشمی نے ریختی پر زیادہ توجہ دی اس لیے اُس کی شاعری میں
حسن و رومان اور جنس و جنوں کے جذبات کا عجب انداز ہے ۔ہاشمی کانمونۂ کلام
درج ذیل ہے :
سجن آویں توپردے کے نکل کر بہار بیٹھوں گی
بہانا کر کے موتیاں کا پروتی ہار بیٹھوں گی
اونو یہاں آؤ کئیں گے تو کہوں گی کام کرتی ہوں
ا ٹھلتی ہور مٹھلتی چُپ گھڑی دو چار بیٹھوں گی
محمد امین ایاغیؔ
محمد امین ایاغی ؔدکن کا شاعر تھا اور نصرتی کا معاصر تھا۔ مذہبی شاعری پر
مشتمل اس کی مثنوی ’’نجات نامہ ‘‘ دو سو چالیس (240) اشعار پر مشتمل تھی۔
اس مثنوی میں شاعر نے ناصحانہ انداز اپنایا ہے اور احکام ِ شریعت کی پابندی
پر زور دیا ہے۔ اس کے ہم عصر شعرا میں سیواؔ،شغلیؔ،مومنؔ،قادرؔ،شاہ من عرف
اور معظم شامل ہیں ۔محمد امین ایاغی ؔ کا نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
ایاغی ؔ کِدہر تو چلیا باٹ چھوڑ
سر رشتے کو پندان کے تو یوں نہ توڑ
محمد امین و ایاغی ؔ اوپر
الٰہی کرم کی نظر کر نظر
حسن شوقیؔ
حسن شوقیؔ (1511-1633) کا شمار گولکنڈہ کے اُن ممتاز شعرا میں ہوتاہے جنھوں
نے اپنے عہد میں دکنی زبان میں کُھل کرلکھا۔ اس کا تعلق دکن کے تین درباروں
یعنی قطب شاہی ،عادل شاہی اور نظام شاہی سے رہا مگر اس کا زیادہ وقت
بیجاپور ہی میں گزرا۔ ابن نشاطی بھی اس شاعرکا معتقد تھا اور اس نے اپنی
مثنوی پھول بن میں حسن شوقی کی شاعری کو سراہا ہے ۔ حسن شوقی کی وفات پر
ابن نشاطی نے اپنے جذبات حزیں کااظہارکیاہے ۔ولی ؔ دکنی نے سال 1630میں
لکھی گئی حسن شوقی کی پر لطف بزمیہ تخلیق’’ میزبانی نامہ ‘‘ کو بہ نظر
تحسین دیکھا اور اس شاعر کے اسلوب سے اثرات قبول کیے۔ بیجا پور کے والی
سلطان محمدعادل شاہ نے جب اپنے وزیر مصطفی خان کی دختر سے بیاہ کیاتوحسن
شوقی نے اپنی مثنوی ’’ میزبانی نامہ ‘‘ میں نیک تمناؤں کااظہار کیاہے ۔
میزبانی نامہ
سدا دار پر تجھ منگل گز گزیں
منگل گز گرین جیوں بدل گز گزیں
ہستی مست پر پیلیاں مست ہے
زبر دست پو کیا زبردست ہے
سد ا دار پر تجہ طَبل باجتے
طبل باجتے ہور مندل کا جتے
بہت دیس تے شہ کی گھر کاج ہے
شہر گشت کی رات سو آج ہے
شہر گشت کا ساز و سامان ہوا
نفیریاں ترائے دماماں ہوا
حسن شوقی ؔ نے غزل گوئی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔سراپا نگاری
میں اسے کمال حاصل تھا:
دلبر سلونی نین پر کھینچی ہے سوکاخوبتر
خطاط جیوں ماریا رقم چھندوں ثلث کے صاد پر
امینؔ: درویش منش صوفی شاعرامینؔ کا تعلق ابراہیم عادل شاہ کے زمانے سے تھا
۔اس کی مثنوی ’بہرام و حسن بانو ‘ بہت مشہور ہوئی ۔امینؔ کا نمونہ کلام :
کیا حمد اور نعت کون مختصر
نہیں ہیں کیا طول یو سر بہ سر
یکایک میرے دِل میں آیا خیال
قصا یک کہوں میں مقیمی مثال
زبان پر بچن خوب آتا چلا
یو مضمون خوش تر بناتا چلا
زبان پرہے جس کے موتی آب دار
اسی کے بچن کا ہے اکثر وقار
مرزا محمد مقیم مقیمی ؔ
سر زمین ایران سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے بیجا پور میں مستقل سکونت
اختیار کر لی ۔ مرزا محمد مقیم مقیمی ؔ نے دکنی ،فارسی اور اردو میں شاعری
کی ۔اس کی مثنوی ’ چندر بدن و مہیار ‘ اس کی یادگارہے ۔اس نے دو سو پچاس
(250) صفحات پر مشتمل ایک اور مثنوی ’سو مہار ‘ بھی لکھی۔ہندی کی مقبول لوک
کتھا ’’چندر بدن اور مہیار ‘‘ ( تصنیف : 1050ہجری )کو مقیمی ؔ نے دکنی میں
نیاآ ہنگ عطا کیا مگر یہ مثنوی قارئین کی توجہ حاصل نہ کر سکی ۔ دو سو پچاس
اشعار پر مشتمل مقیمیؔ کی ایک اور مثنوی ’’ سو مہار ‘‘ بھی ہے ۔مقیمی ؔ کا
نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
خدا کون سزاوار کبر و منی
او قادر ہے قدر کا صاحب دھنی
جویوں کیا آدم یک ارواج کوں
بسالیا ہے طوفاں نے تونوح کوں
کیا تار گلزار رب الجلیل
کہ نمرودکے ہات بانچیاخلیل
سنا ہوں کہ یک شہر سندرپٹن
اتھا راج وہاں ایک ہندو برن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جا اوسے اے دیوانے بشر
کہاں سوں تو آیا چلیا ہے کدھر
ابراہیم صنعتی ؔ
ابراہیم صنعتی ؔ نے عادل شاہی دور میں دربار تک رسائی حاصل کی اور درباری
شعرا میں اسے بلند مقام حاصل تھا ۔اس کی دو مثنویاں مشہور ہیں جن میں ایک
تو ’’ قصہ تمیم انصاری ‘‘ اوردوسری مثنوی ’ گلدستہ ‘ ہے ۔ابراہیم صنعتی ؔ
کے اسلوب میں سادگی ،لطافت اور جذبات کی روانی کا کرشمہ قارئین کو مسرت کے
منفرد احساس سے سرشار کرتا ہے ۔
ثنا بول اول توں سبحان کا
جو خلاق ہے جن و انسان کا
بشر کوں اپس قدرت پاک سوں
بنایا اگن جل پوں خاک سوں
دسیں جل پو بارے تے اس دھات موج
کہ چنچل کی جون چک میں غمزیاں کی فوج
ہر یک پات پر بوندبرسانت کے
ہریک شاخ پر مرغ کئی بہانت کے
جتے مرغ وان کے خوش آواز تھے
فرشتیاں سوں تسبیح میں ہم راز تھے
ملک خوشنود : دکنی زبان کا یہ شاعر قطب شاہی سلطنت کا غلام تھا۔ ملک خوشنود
اگرچہ شاہانِ گولکنڈہ کاغلام تھا مگر اس کی شاعری اور دیانت داری کی وجہ سے
کی وجہ سے اُسے دربار میں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا ۔اپنی خدادا صلا
حیتوں کی بنا پر ترقی کے مدارج طے کر کے دربار میں بلند منصب حاصل کیا۔اس
کی مثنویاں ’’ ہشت بہشت ‘‘ اور ’’ بازار حسن ‘‘اس کی یادگار ہیں۔ملک خوشنود
کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے :
عجب بے مہر دنیابے وفا ہے
محبت عین اس کاسب جفا ہے
جتے ہیں دوستاں فرزند ساقی
سگل ہے گور تک او سب سنگاتی
دکنی ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکنی اردو کو ابتدا
میں گجری بھی کہتے تھے۔دکن میں مقیم متعدد تخلیق کاروں نے اپنی زبان کو
گجری کہنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔دکنی زبان کے شعرا اور مصنفین نے بھی دکنی
اردو کا نام گجری پسند کیا ۔(25) اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
جے ہوویں گیاں بچاری
نہ ویکھیں بھاکا گوجری (شاہ برہان الدین جانم فرزند شاہ میران جی شمس
العشاق)
محمد امین
مطلق العنان مغل بادشاہ محی الدین محمد اورنگ زیب کے عہد (1658-1707)میں
دکنی شاعر محمد امین کی مثنوی ’ یوسف زلیخا ‘ جو دکنی زبان کی مقبول مثنوی
تھی اسے خود اس مثنوی کے تخلیق کارمحمد امین نے گجری زبان کی تخلیق کہا ہے
:
سنو مطلب اَہے اب یو امیںؔ کا
لکھی گجری منے یوسف زلیخا
ہر اِک جاگا ہے قصہ فارسی میں
امیں اس کو اتاری گوجری میں
کہ بوجھے ہر کدام اس کی حقیقت
بڑی ہے گوجری جگ بیچ نعمت
دکنی ادیبوں نے اپنے ماضی ،حال اورمستقبل پر نظر رکھی اور اپنے دِل کے گلشن
پراُترنے والے تمام موسموں کی لفظی مرقع نگاری میں گہری دلچسپی لی ۔اس خطے
کی تہذیب و تمدن کی نشو و نما اُن کی اوّلین ترجیح رہی ۔اُن کی خواہش تھی
کی تخلیق ِادب کے وسیلے سے اس خطے کی گراں قدر تہذیبی میراث کو آنے والی
نسلوں کو منتقل کرنے کی مساعی جاری رکھی جائیں ۔اِن ادیبوں نے گلشنِ ادب
میں جو گل ہائے رنگ رنگ کِھلائے اُن کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو
گیا۔اُن کی شعور مساعی کے اعجاز سے اُس عہد کی فکر وخیال کی وادی میں اصناف
ِ ادب کے جو نہال پروان چڑھے اُن کے سائے میں کئی نسلیں پروان چڑھیں ۔حریت
ِ فکر کے اِن مجاہدوں نے اپنی تہذیبی شناخت برقرار کھنے کی خاطر سخت جد و
جہد کو شعار بنایا۔اُن کی دِلی تمناتھی کہ شعور و ذہن اور فکر و خیال کے
ارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے ۔
مآخذ
1۔نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اُردو ،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو ،دہلی
،2002ء ،صفحہ 53
|