پاکستان کی پولیس ٹھیک ہوگئی تو سمجھے ملک ٹھیک ہوگیا مگر
کیا کریں اسی پولیس کے ہاتھوں ملک میں خانہ جنگی کی سی صورتحال ہے نہ جانے
کتنے بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا بیواؤں ،یتیموں اور بے
سہارا افراد کی زمینوں پر قبضے کرلیے گئے یا کروادیے گئے بے گناہوں کو جیل
میں اور گناہ گاروں کو جیب میں لیے پھرتے ہیں ان سے بڑا ڈاکو اور بدمعاش
کوئی نہیں جسے چاہتے ہیں بدمعاش بنا دیتے ہیں ،بھتہ مافیا کا سربراہ بنا
دیتے ہیں جواریوں کا سرپرست بنا دیتے ہیں اور تو اور ہمارے تعلیمی اداروں
میں منشیات کی فراہمی میں بھی انہی شیر جوانوں کا ہاتھ ہے ان سے نہ صرف
شریف شہری تنگ ہیں بلکہ پورا معاشرہ ہی ان سے تنگ ہے اگر ان کے ساتھ چل کر
کسی کو خوشی ہوتی ہے تو وہ ہیں لٹیرے ،نوسر باز ،فراڈیے ،قبضہ گروپ اور
مافیا کے لوگ ایک عام شہری اپنے کام سے تھانے میں جاتے ہوئے ڈرتا ہے اپنی
ساتھ ہونے والی قابل برداشت قسم کی واردات کی رپورٹ درج کروانے سے بھی
کتراتا ہے پولیس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے
متروکہ وقف املاک بورڈ پر پولیس کے قبضے کے خلاف درخواست پر سماعت ے دوران
ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس اگر قبضہ گروپ بن جائے تو موٹر وے جیسے واقعات
ہوتے رہیں گے،پولیس قبضہ گروپ بن گیا ہے، افسروں کو معاف کرنے کی روش کو
چھوڑ دیں ۔یہ خیالات صرف جج صاحبان کے نہیں ہیں بلکہ ہر باشعور پاکستانی کی
یہی آواز ہے اور اس طرح کی آوازوں کو خاموش کروانے میں بھی پولیس اپنا ثانی
نہیں رکھتی جتنی مراعات اور اختیارات پولیس کو حاصل ہیں جسکی وجہ سے ان میں
فرعونیت بھی آجاتی ہے نجی ٹارچر سیل بنا کر بے گناہ افراد پر تھرڈ ڈگری
تشدد کیا جاتا ہے لاہور کے ایک پولیس افسر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ
انسانوں پر ایسے ایسے تشدد کرتا تھا کہ وہ انسان ہر جرم اپنے سر لینے کو
تیار ہوجاتا تھا بے گناہ افراد پر تشدد کرنا اور پھر پولیس مقابلے میں
مارنا انہی پولیس والوں کا وطیرہ ہے مسلم لیگ ن والے آجکل جس پولیس والے کی
شدید مخالفت کررہے ہیں وہ ان تما م چیزوں کے خلاف ہے بلخصوص پولیس میں
موجود کالی بھیڑیں اسکے نشانے پر ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سی سی پی او
نے نجی ٹارچر سیل رکھنے والے ایک انسپکٹر کو اسکے دو ساتھیوں سمیت حوالات
میں بند کردیا ایسے پولیس آفیسر ہمارے پاس آتے میں نمک کے برابر ہیں عمر
شیخ ان قابل افسران میں ایک ہیں جنہیں کسی کی پرواہ نہیں یہی وجہ ہے کہ
وزیراعظم عمران خان نے انہیں شدید مکالفت کے باوجود اپنا کام جاری رکھنے کا
کہہ دیا ہے اچھی بات ہے بلکہ بہت ہی اچھی اور خوش آئین بات ہے کہ بزدار
سرکار نے انہیں بھر پور حمایت کا یقین دلایا ہے پچھلے دنوں ان کے خلاف جتنی
مہم چلی وہ بھی شرم ناک تھی انہوں نے ملک کے ساتھ جو کیا اسی تناظر میں سی
سی پی او نے کہا تھا کہ ایک اکیلی خاتون کو ایسے سفر نہیں کرنا چاہیے تھا
کیونکہ وہ جس سیٹ پر بیٹھے ہیں وہاں کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ نہ صرف ہمارے
معاشرے کو سمجھتے ہیں بلکہ اس معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے والے پولیس والوں
کو بھی جانتے ہیں میں شیخ عمر کی فیس بک دیکھ رہا تھا تو انکے شیئر کیے
ہوئے دو شعر مجھے بھی پسند آئے جو یقینا انکے دل کی آواز بھی ہونگے آپ لوگ
بھی پڑھیں اور مزے لیں ۔
یہ اتفاق مبارک مومنوں کے لیے
کہ یک زبان ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
مجھے لگتا ہے کہ یہ شہر اس وقت شیخ صاحب نے پوسٹ کیا ہوگا جب انکے خلاف
محاذ گرم تھا اور وہ جوانمردی سے انکا مقابلہ کررہے تھے انکے پوسٹ کیے ہوئے
سبھی شعر بہت اعلی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفوں کو شعروں
میں ہی جواب دیا انکے پوسٹ کیے ہوئے شعر مجھے تو بہت اچھے لگے اس لیے وہ
لکھ رہا ہوں ۔
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ راہ
ہم وہ نہیں جنکو زمانہ بنا گیا۔
ہزار دام سے نکلا ہو ں ایک جنبش میں
جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے۔
اور جب انکی کارکردگی سب کی سمجھ میں آگئی حکومت نے بھی انہیں کھل کر کام
کرنے کا کہہ دیا اور خود وزیر اعظم انکی حمایت میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے
کہ لاہور پولیس میں بہت جلد تبدیلی نظر آئے گی شیخ عمر بہتر کام کررہے ہیں
جسکے بعد مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے ان مخالفین کے نام ہی یہ شعر پوسٹ
کیا ہوگا ۔
حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں ۔
شعرشاعری سے شغف رکھنے والے افراد بڑے حساس دل ہوتے ہیں اور خاص کر ایسے
افراد جو موقعہ کی مناسبت سے مخالفین کو انکی زبان میں جواب دینے کی بجائے
اپنی زبان میں جواب دینے کی سکت رکھتے ہوں وہ کبھی بھی مایوس نہیں کرتے
ایسے ذہین اور خوبصور لوگ ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں ہمیں ان پر فخر ہیں اور
ایسے لوگ ہمیں چاہیے جو بگڑے ہوئے نظام کو تبدیل کرسکیں اگر ہماری پولیس
تبدیل ہوگئی پولیس والوں میں انسانیت آگئی تو ہمارا معاشرہ ترقی کرجائیگا
ورنہ آئے روز کی ڈکیتیاں ،چوریاں ،منشیات فروشی ،قتل غارت اور عصمت دری کے
ساتھ ساتھ عصمت فروشی جیسا کاروبار ترقی کرتا جائیگا یہی پولیس والے جب بے
گناہوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں پہنچاتی ہے تو پھر وہاں پر انکے ساتھ کیا
کیا بیتتی ہے جیل پولیس میں بھی ایک شیخ عمر کی ضرورت ہے تاکہ انہیں جرائم
کی یونیورسٹیاں نہ کہا جائے وہاں سے نکلنے کے بعد مجرم بھی انسان کا بچہ بن
جائے نہ شریف اپنی بے گناہی کی سزا بھگت کر جب باہر نکلے تو پھر اس سے بڑا
بدمعاش کوئی نہ ہو اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے پولیس کا قبلہ درست کیا
جائے اور اس سلسلہ میں پنجاب حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے کہ انہوں نے شیخ
عمر جیسے شخص کو لاہور جیسے شہر میں سی سی پی او تعینات کررکھا ہے ۔
|