اصحاب علم کی صحبت کتب سےبڑا معلم ہے۔ اس لیےکہ وہ ضرورت
کے مطابق خوراک دیتے ہیں ۔ ایک صاحب علم وفضل نے انکشاف کیا کہ ’انقلاب‘
غیر قرآنی اصطلاح ہے ۔ جب پوچھا گیا کہ سورۂ اعراف کا منقلبون تو انقلاب
جیسا ہی لگتا ہے۔ اس پر پوری آیت سنا دی :’’ انہوں نے جواب دیا "بہر حال
ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے‘‘۔اورسوال کیااب بتاو یہاں کہاں ہے انقلاب
؟ آیت میں چونکہ کسی کے جواب کا ذکر تھا اس لیے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ
آخر یہ کون ہے ؟ وہ بولے فرعون نے جب جادوگروں کو دھمکی دی کہ تم میری
اجازت کے بغیر ایمان کیسےلے آئے میں تمہارے ہاتھ پاوں مخالفت سمت سے
کٹواکر سولی چڑھا دوں گا تو جواب میں یہ کہا گیا۔ یہی تو انقلاب ہے کہ
جادوگروں کی مانندلوگوں کی آزادی کو سلب کیا جاتا ہے۔ وہ اس کے خلاف بغاوت
کرتے ہیں توانہیں دھمکی دی جاتی ہے ۔وہ قربانی پیش کرتے ہیں۔ باطل پہلے
فکری سطح پر اور پھر عملاًمغلوب ہوجاتا ہے ۔ یہی سب تو وہاں پر ہوا۔ بندوں
کی غلامی کا خاتمہ ہوگیا اور اللہ کی حاکمیت قائم ہوگئی ۔کیا انقلاب،
مستضعف کا غلبہ اورمستکبر کی مغلوبیت نہیں ہے؟
آئیے دیکھیں اس انقلاب کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ پہلے فرد بدلتا ہے اس کے
بعد معاشرہ اور بالآخر حکومت بدل جاتی ہے۔سورۂ الزمر میں ارشادِ ربانی ہے
: ’’اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس
میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے
والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے
لئے نرم ہوجاتے ہیں‘‘۔ اس انقلاب کا آغاز کتاب سے ہوتا ہےکسی کی اندھی
تقلید یا عصبیت کی تاریکی سے نہیں بلکہ علم کی روشنی سے ہوتا ہے اور وہ
انسان کی وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ بے
حسی کا خاتمہ اور بیداری قلب و جسم پر چھا جاتی ہے۔ دل نرم ہوجاتا ہے اور
جسم کا کبر و غرورکا فور ہوجاتا ہے ۔ اللہ کا ڈر جس کے دل میں جاگزین
ہوجائے وہ بھلا دوسروں کو ڈرانے دھمکانے کی حماقت نہیں کرسکتا؟ جس کا قلب
اللہ کی محبت سے معمور ہو وہ اللہ کے بندوں سے نفرت و حقارت کا معاملہ بھی
نہیں کرسکتا ۔ یہ فرد کا انقلاب جو جادوگروں میں آیا تو ان کے بارے میں
فرمایا :’’ یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے‘‘۔
فرعون کا اس کا منکر ہوا تو فرمایا: ’’ اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس
کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے‘‘۔
فرد کے بعد معاشرتی و سیاسی انقلاب کیسے برپا ہوتا ہے اس کا جواب سورۂ
انفال میں ملاحظہ فرمائیں :’’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ غزوہ بدر پر
تبصرے والی آیت کی شروعات ہی مالِ غنیمت کی تقسیم سے متعلق سوال سے ہوتی
ہے اس لیے کہ تعلقات کو بگاڑنے والی یہی چیز ہے تو اس کا جواب یہ دیا گیا
کہ:’’ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں‘‘، یعنی اس کا خیال
دل سے نکال دو ۔ اس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑ دو اور وہ جو حکم
دیں اسے بسرو چشم قبول کرلو تو باہمی تعلقات درست رہیں گے ۔ آگے فرمایا
:’’ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور
اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔معاشرہ چونکہ افراد کا مجموعہ
ہوتا ہے اس لیےہر اہل ایمان کےلیے یہ رویہ اختیار کرنالازم ہے۔ آگے فرمایا
:’’ سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے
ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ
جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘۔ اللہ کی محبت میں لرزتے دل
اور ایمان سے لبریز سچے مومن جب رزمِ حق و باطل میں قدم رکھتے ہیں تو ارشاد
ہوتا ہے:’’پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو
قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو
اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک
بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے والا اور
جاننے والا ہے‘‘۔اس طرح دین اسلام غالب ہوجاتا ہے اور اسلامی ریاست قائم
ہوجاتی ہے۔فرد کا ارتقاء بالآخر ریاست کی تشکیل پر منتج ہوجاتا ہے۔
|