اداس چھو ڑ گیا وہ ہر ایک موسم کو
گلاب کھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے
بہ قول’’ غالب مرحوم انسان ایک محشر خیال ہے ‘‘ مرزا دہلوی نے غالب کے اس
قول میں مزید حسن اس قید سے پیدا کردیا کہ خیال میں حشر برپا کرنے کے لئے
کسی بیرونی تحریک کا ہونا لازمی ہے۔امین عثمانی مرحوم کے دماغ، افکا ر
اورخیالات میں تحرکات حیات کا نیا جذبہ اور آہنگ جس بیرونی تحریک نے
پیداکیااور ساتھ ہی آپ کے گنجینہ علوم کو نور، روشنی ،تحریک ،تحرک ،ڈھنگ،
سلیقہ اور شعور عطا کیا ہے وہ دنیا ئے اسلام کے عظیم فقیہ اور مفکر قاضی
مجا ہد الاسلام قاسمی مرحوم ہیں ۔ انہی کی صحبت اور تربیت نے امین عثمانی
صاحب کو جہاں بینی اور جہاں نوردی کے اصول سکھائے جس طرح قاضی مجا ہد ا لا
لسلام صاحب اپنی چشم بینا سے دنیا کے مسائل اور آنے والے حالات سے آگاہی
حاصل کرلیتے تھے ۔یہی فہم اور ادراک قاضی صاحب کی چشم عنایت اور توجہ سے
امین عثمانی صاحب کو حاصل ہو گیا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امین عثمانی
صاحب قاضی صاحب کے فکر و خیال اور ان کے تحریکی مزاج کے وارث اور امین تھے
۔جذبہ کی وہی صدا قت اور لگن جو قاضی صاحب کے یہاں تھی اس کا اظہار اور
نمونہ امین عثمانی صاحب کے یہاں بہ خوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ مزید جس طرح
قاضی صاحب مسائل کے استنباط اور دیگر معاملات میں فکر و نظر کے اعتبار سے
بلاکی وسعت اور ذہنی کشادگی میں منفر د اور امتیازی شان رکھتے تھے اس حیثیت
سے بھی امین عثمانی صاحب ان کے نمائندے اور مبلغ تھے۔
جناب امین عثمانی صاحب مرحوم سے قرب اور شناسائی کا وسیلہ ان کا غیرمعمولی
علمی تبحر اور انتظامی امور میں ان کی قابلیت اور شہرت بنی ۔ دراصل دہلی
میں میرے قیام کی مدت دس سال کو محیط ہے اس طویل مدت میں جادۂ علم و کمال
کی بہت سی عظیم ہستیوں کے دربارمیں نیاز مندانہ حاضری ہوئی۔ بلاشبہ ان سبھی
کے علمی چشموں سے جرعہ نوشی بھی کی۔ تاہم امین عثمانی صاحب استفادہ کرنے
والوں کی اس طویل فہرست میں ایک ممتاز اور منفرد شان رکھتے ہیں۔ میرے حوالے
سے ان کی اس انفرادیت کے بہت سے پہلو ہیں، جن میں اور بھی ان کے بہت سے شنا
سا شامل ہوں گے۔ لیکن بہت سے مسئلوں میں ان کا مجھ پر جو اعتماد اور اعتبار
تھا اور جس رازدارانہ انداز سے وہ مجھ سے گفتگو کرتے تھے اور راز کی باتیں
بتاتے تھے یہ ان کا میرے تئیں والہانہ تعلق ان کے اخلاق اور کردار اور خرد
نوازی کا ایک خوبصورت عنوان و علامت تھی۔
امین عثمانی صاحب کو لوگ صرف ایک متحرک اور فعال منتظم اور فہم و ادراک کے
اعتبار سے ایک دور بیں مدبر اور دانشور کے طور پر جانتے تھے ، اس میں کوئی
شک بھی نہیں کہ امین عثمانی صاحب آسمان فضل و کمال کے ستارو ں کی بزم میں
ستارہ سحر تھے ۔ اور نسیم سحر کی مانند ان کے وجود سے محفل علم و فن آباد
اور شاد تھی ۔ بلکہ آپ خود چراغ محفل تھے جس سے ایک جہان روشن اور تابناک
تھا ۔ لیکن ان کی حیثیت اضافی بھی تھی جس کا علم شاید بہت کم لوگوں کو حاصل
ہو ۔
وہ چہار دیواری کے اندر گوشہ گیر رہتے ہوئے بھی جس طرح دنیا اور خاص طور سے
عالم اسلام کے حالات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ آپ کی وہاں کے سیاسی اور
سماجی مسائل میں غیر معمولی دلچسپی اور ہرطرح کے بدلتے ہوئے حالات پر ان کی
گہری نظر اور آگا ہی ان کی شخصیت کے معیار کو عالمی سطح پر اسلام کے عظیم
مفکر کی حیثیت سے ممتاز اور منفرد بنادیتی ہے۔ دوہزار گیارہ میں عرب بہارکے
نام سے عربوں میں جو انقلاب کی لہر تیونس سے شروع ہوئی تھی اور دیکھتے ہی
دیکھتے پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ امین عثمانی صاحب کبھی
کبھی جب ان انقلا بات پر گفتگو اور تجزیہ پیش کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا
تھا کہ یہ شخص ان انقلابات کی خود پلاننگ بناکر آیا ہے ۔ حتی کہ کبھی کبھی
یہ بھی بتا دیتے تھے کہ انقلابیوں کا اگلا قدم کونسا اور کیا ہوگا اور اب
کس عرب ملک پر ان کا اگلا انقلابی اقدام ہوگا۔ یہاں کہنے کا اصل مقصد یہ ہے
کہ امین عثمانی صا حب خاک کے پردے میں تھے اور قطعی طور پر اپنے آپ کو اگلی
صف میں کھڑا کرناپسند نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی نظر نظریہ بن کر
معمار جہاں کے تانے بانے بنانے میں مصروف تھی ۔ان کے پاس وہ بصیرت اور وہ
ادا شناس فہم تھی جو حالات کو بھانپ کر اس کے دفاع اور اقدام کا خاکہ تیار
کردیتی تھی، وہ تنہائی پسند ضرور تھے لیکن وہ وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
کے ذریعہ قوموں کو بیدار کرنے میں ہر وقت سنگ نشاں کی جستجو اور تلاش میں
منہمک تھے ۔ ان کی مثال اس جنوں شعار مسافر کی تھی جس کی کوئی منزل نہیں
ہوتی وہ سفر در سفر کی ان دیکھی راہوں کو شاہین بن کر پہاڑوں کی اونچائیوں
پر پہنچنے کے فراق میں سرگرم رہتے ہیں وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا مقصد
حیات ہر وقت نیا لحظہ نیا طور اور نئی برق اور تجلی کا مصداق اور عمل ہے۔
امین صاحب کی عادت اور روش بلکہ مزاج تھا کہ وہ نئے نئے زاویہ نظر اورنئے
افکار و خیالات کونئی نسل تک منتقل کرنے کے لئے ہر وقت مصروف عمل رہتے تھے
جب بھی ان کی علمی بارگاہ میں ملاقات کی غرض سے جانا ہوتا ۔تو ان کے علمی
کمالات اور علمی چشموں سے خوب سیرابی ہوا کرتی تھی۔ آپ کے یہاں ہمیشہ نئے
نئے مضامین اور نئے خیالات سننے کو ملتے ۔ ایک مرتبہ میرے دوست مولا نا
بدرعالم رائپوری نے اپنے اسلامیات میں پی ایچ ڈی مقالے کے عنوان کا مشورہ
کیا تو مضامین نو کے انبار لگا دیے ۔ فرمایا کہ بہت سے عنوا نا ت ہیں جن پر
کام کیا جا سکتا ہے مثلا قرآن کا اخلاقی تصور ۔ ہندستان کی فقہ اکیڈمیاں
اور ان کی علمی خدمات وغیرہ اور بھی بہت سے فکری اور علمی مضامین ان کے ذہن
کے نگار خانے سے جو چشموں کی مانند ابل رہے تھے ۔
قو موں کے عروج و زوال میں آپ نفسیات کا بڑا دخل مانتے تھے بلکہ اس کو وہ
عروج و زوال میں بنیاد کا پتھر مانتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں قوموں
کی نفسیات کے مطالعہ پر بڑا دھیان تھا وہ کہتے تھے کہ جب تک ہم قوموں کی
نفسیات سے مکمل آگاہی حاصل نہیں کریں گے توہم سر بلندی کے نشان کو نہیں چھو
سکتے ہیں۔ نفسیات کے حوالے سے ان کا نظر یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے
انبیاء کی دعوت او ر تعلیمات میں نفسیات کو خاص اور اہم مقام حاصل ہے۔تاہم
کبھی نفسیات کے مطالعہ پر بہ حیثیت دعوت اور قوموں کے عروج و زوال کی حیثیت
سے کے کوئی توجہ نہیں کی۔
ان کو ہندوستان کی موجودہ قیات اور خصوصا اہل علم سے کچھ شکایتیں تھیں
دراصل ان کی مستقبل شناس نظر اور دور بیں نگاہیں آنے والے ہندوستان کا جو
تماشہ دیکھ رہی تھیں وہ ان کے دل کو بے چین اور پریشان کر کے ر کھتی تھی
اور ہر آنے والے شخص سے وہ کسی نہ کسی شکل میں اس کا کھل کر ا ظہار بھی
کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم مسلمان اسلام کی اخلاقی ،تمدنی اور تہذیبی
تعلیمات کو متعارف کرانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے۔
اس کے لیے آپ زبان کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور خصوصا اہل مدارس کو ہندی زبان
سیکھنے میں ہمیشہ زور دیتے رہے ۔ان کا ماننا تھا کہ اس وقت اسلام کی اخلاقی
تعلیمات کو اس حیثیت سے فروغ دینے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کا کوئی
مذہب بہ حیثیت اخلاقی بلندی اور سرفرازی کے اس کی تعلیمات کا مقابلہ نہیں
کرسکتا ۔ آپ کا مقصد اس سے د ر ا صل یہ تھا کہ اس وقت دنیاکے تمام مذاہب یہ
دعویٰ کررہے ہیں بلکہ اس کی اشاعت اور تر ویج میں دولت پانی کی طرح بہا ر
ہے ہیں اور ہر مذہب والے کا یہی دعویٰ ہے کہ اخلاق کی تعلیمات کا ذخیرہ
ہمارے مذہب میں بھی موجود ہے ۔ حالاں کہ اسلام کے مقابلے میں اخلاقی
تعلیمات کا نظام کسی دوسرے مذہب کے پاس ہے ہی نہیں۔
مولانا امین عثمانی صاحب ایک اعلی بلکہ مفکرانہ خطیب کی حیثیت سے دنیا
بھرمیں متعارف تھے ، فن خطا بت میں آپ کی اس امتیازی شان کی بنیادی وجہ یہ
تھی کہ آپ کے لہجے میں جوش اور گھن گر ج کے بجائے سنجیدہ اور خالص علمی اور
فکری گفتگو سنائی دیتی تھی۔آپ کا صاف ستھرا اور ذوق جمال سے بھرا ہوا معتدل
لہجہ اور آہنگ دل و دماغ کے دریچوں میں تازگی ، تحریک اور غور و فکر کا
جذبہ بھر دیتا تھا ۔مزید آپ کی خطابت میں مایوسی اور نا امیدی کے نوحہ نہیں
ہوتے تھے ۔ بلکہ آپ زندگی کے نغمہ گر کی حیثیت سے قوموں کی کمزوریاں اور
خامیاں بھی بتاتے تھے لیکن مرض کی اس تشخیص کے ساتھ حاذق طبیب کی طرح نسخہ
شفا بھی عطا کر تے تھے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وسیع ہال میں اہل علم و دانش کے ایک مجمع کو
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یقینا یہ ایک اہل علم اور اہل فکر کی مجلس ہے بہت
سی باتیں ہوچکی ہیں، میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ میں صرف تین
باتیں کہوں گا پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم دعوت دیتا ہے امت مسلمہ کو
تبدیلی کی تغیےر کی ۔ اور چینجنگ (changing) کی اور یہ چینجنگ لا نے کی
دعوت دیتا ہے وہ ہر سطح پر ، سماجی سطح پر سیاسی اور معاشی سطح پر تعلیمی
اور دیگر سطح پر۔ اور یہ تبدیلی باہر سے نہیں آسکتی بلکہ یہ تبدیلی اندر سے
آئے گی قرآنی آیات صاف طور پر بتاتی ہیں کہ جب تک یہ امت اور یہ ملت جو
ہندوستان میں موجود ہے وہ ازخو د یہ طے نہیں کریگی کہ ہمیں اپنے اندر کیا
تبدیلی لانی ہیں اپنے طریقہ کار سوچ اور موقف اور ایٹی ٹیوڈ attitude میں
اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ تقسیم ہند کے بعد سے ملک کے حالات تیزی
سے بدل ر ہے ہیں۔ خاص طور سے نئی حکومت کے آنے کے بعد حالات اور مشکل ہوگئے
ہیں اس لئے اپنے اندر تبدیلی لاکر بہتر پلاننگ کے ذریعہ ہی ان حالات کا
مقابلہ ممکن ہے ۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے قرآن کریم پر غیر مسلموں کی طرف
سے کچھ اعتراض ہوئے تھے میں نے تلاش کیا کہ ایسے افراد جو مدرسہ بیک گراؤنڈ
background سے ہوں اور وہ سنسکرت بھی اچھی جانتے ہوں اور انہوں نے ہندستانی
مذاہب خصوصا ہندو مذہب اور جین مذہب کا مطالعہ ان کے بنیادی ماخذ سے کیا
ہوکچھ مجھے مل جائیں لیکن نہیں ملے۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ اگر ہم یہ سوچتے
ہیں کہ آج کی تاریخ میں اکثریت سے کچھ گفتگو اور مکالمہ کر نا ہے کچھ ایشوز
پر بات کرنی ہے تو ہمارے درمیان ایسے لوگ نہیں ہیں جو ہندوازم کو جانتے ہوں
اس کے فلسفے اس کی تاریخ اس کی نفسیات اور اس کے لیڈراس کے بیانات کو جانتے
ہوں تو ہمارے پاس نہیں ہیں اس لئے کوئی گفتگو بھی نہیں ہوسکتی معلوم ہو ا
یہ کمی بھی ہے دیگر کم یوں کے سا تھ ساتھ‘‘ ۔
مولانا امین عثمانی صاحب نے اپنے افکار و خیالات کی ترسیل کی تجربہ گاہ
اسلامک فقہ اکیڈ می کو بنایا ۔ زندگی کے آخری ایام تک فقہ اکیڈمی کی حیات
نو میں ایک مالی اور باغباں کی طر ح لگے رہے اور اپنے خون جگر سے اس کی
حیات نو میں ایسے پھول کھلائے جن کی مہک سے ایک دنیا محظوظ ہورہی ہے۔ یہ
امین عثمانی صاحب کی غیر معمولی فہم ، زیرک نگا ہ اور اعتدال پسند طبیعت کا
نتیجہ اور حصہ ہے کہ آج فقہ اکیڈمی کو معاصر دنیا میں نیک نامی، شہرت
اعتبار اور محبوبیت حاصل ہے اور اکیڈ می کی علمی حیثیت کو پوری دنیا تسلیم
کرتی ہے۔ یقینا امین عثمانی صاحب کے پاس جو نظر بلکہ نظر یہ تھا وہ ذرہ کو
آفتاب اور غبارہ راہ کو کندن بنانے کا ہنر رکھتا تھا۔
بلاشبہ ہم نے جہاں نم آنکھوں کے ساتھ ایک اعلی مدبر ، مفکر ، مبصر ناقد
اورمنتظم کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت کے سا تھ الوداع کہہ دیا وہیں ایک
معمار جہا ں اور قوموں کی نفسیات اور عروج و زوال کا و ا قف کا ر اور نبض
شناس اور بہترین انسان کی جدائی کا غم بھی برداشت کرنا پڑا ۔ سچ بات یہ ہے
کہ امین عثمانی جیسے بے نفس اور بے نیاز لوگ اب ہمارے پاس تعداد کے اعتبار
سے چند ہی ہیں ۔بلکہ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔
|