جس دن سے میں کو چہ تصوف کا طالب علم بنا ہوں خدائے
لازوال کے کرم خاص اور والدین کی دعاؤں کے نتیجے میں لوگ مُجھ گناہ گار کو
نیک سمجھ کر میرے پاس روحانی راہنمائی کے لیے آنا شروع ہو ئے ہیں تو پہلے
دن سے ہی آج تک یہ سوا ل تواتر کے ساتھ مُجھ حقیر فقیر سے پو چھا جاتا ہے
کہ سر میں اﷲ کا ولی درویش فقیر راہ سلوک کا مسافر خدا کا عاشق کو چہ تصوف
کو عملی طور پر اپنانا چاہتا ہوں اﷲ کا بندہ خاص بننا چاہتا ہوں تو میں سب
سے پہلے تو اُس کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم خوش قسمت ترین انسان ہو جو خدا
کے محبوب بندوں میں شامل ہو نا چاہتے ہو ‘ خود کو الٰہی رنگ میں رنگنا
چاہتے ہو ‘ ساتھ ہی یہ گزارش کر تا ہوں کہ خدا کا ولی بننے کا آسان ترین
فارمولا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات امور نشیب و فراز میں خدا کو ترجیح
اول بنالو ‘محبوب بنالو ‘محبوب حقیقی ایسا محبوب جس کو راضی کر نے کے لیے
یا جس کے ابروئے چشم تک انسان اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہو جائے جب
کو ئی بھی کام یا حرکت کرنے سے پہلے تم یہ سوچو کہ خداکا اِس بارے میں کیا
حکم ہے خدا کی منشا رضا کیا ہے تو سمجھ لو تم نے اپنے روحانی سفر کا آغاز
کر دیا ہے کہ تم اپنے وجود ظاہر باطن نفس خواہشات خیالات پر الٰہی رنگ منشا
چڑھا دو کہ حق تعالیٰ کی اِس بارے میں کیا منشا ہے اپنے وجود خیالات کو
نفرت تکبر غرور شہوت لالچ قتل و غارت دھوکہ فراڈ جھوٹ جیسی ہر سوچ سے پاک
کر لو جس سے دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہو اپنے من میں چھپے اِن شیش
ناگوں کے زہر کو ختم کر لو پھر اپنے اندر پیار محبت اخوت ایثارقربانی عبادت
الٰہی عشق رسول ﷺ عشق الٰہی خدمت خلق سخاوت سے بھر لو اِس کے بعد خدا کی
بنائی ہو ئی ہر چیز جاندار غیر جاندار خاص طور پر انسانوں کو خدا کا کنبہ
خاندان سمجھ کر پیار کرو محبت کرو بھلائی کرو ‘خدائے لازوال اور سرتا ج
الانبیاء ﷺ کے احکامات کے سامنے سر جھکا دو ‘سر نڈر کر دو ‘سپردگی دے دو
‘سر تسلیم خم کر لو تو سمجھ لو تمہاری ریاضت عبادت مجاہد ہ شروع ہو گیا خود
کو ساری زندگی خود احتسابی کے پل صراط پر موجود پاؤ ‘ ہمہ وقت مسلسل خود
احتسابی کا عمل جاری رہے خدااور اُس کی مخلوق سے پیار محبت ہر سانس کے ساتھ
جاری ہو جائے تو تمہاری نس نس سے پیار محبت خدمت خلق کے چشمے پھوٹ پڑیں گے
تم کن فیکون کے مقام کو پالو گے تمہاری ہر سانس ہر لفظ سے پھر کرامات کا
ظہور ہو گا پھر تم مرجع خلائق بن جاؤ گے ۔ولی کامل ‘درویش ‘خدا کا بندہ خاص
بننے کا یہ آسان سادہ سا فارمولا ہے جس پر چل کر بندہ قطرے سے گہر میں
تبدیل ہو سکتا ہے ۔ جب بھی راہ حق کا کوئی طالب میرے پاس آتا ہے تو میں یہ
آسان سا راستہ اُس کو بتا تا ہوں کہ اِس پر خدا اور نبیِ رحمت ﷺ کی حمد و
ثنا ء اورذکر کے ساتھ اپنا سفر عشق شروع کرو پھر دیکھو کس طرح تم پر تجلیات
الٰہی کی مو سلا دھار بارش ہو تی ہے کس طرح تمہارے ظاہر و باطن کا برسوں
پرانا زنگ صاف ہو تا ہے کیسے باطن کے سیاہ اندھیرے اجالوں میں ڈھلتے ہیں
لیکن اکثر ایسے ہو تا نہیں کو چہ تصوف میں وارد ہو نے والا طالب جیسے ہی
راہ حق کے کٹھن سفر پر نکلتا ہے ذکر اذکار کا ابھی آغاز ہی کرتا ہے کہ
مشاہدات کے تقاضوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے کہ مجھے اتنی تسبیح پرہیز عبادات
کرتے ہوگئے ابھی تک نظارے اور مشاہدات کی کہکشاؤں سے واسطہ کیوں نہیں پڑ
رہا لہٰذا تو جہ خدا کی ذات سے ہٹ کر شعبدے بازی میں اٹک جاتی ہے پھر نفس
مختلف ترغیبات اور خواہشات کے ساتھ سرا ٹھا نا شروع کر دیتا ہے اور پھر
سالک خدا کی بارگاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی نفس کی بھول بھلیوں میں الجھ کر
حقیقی راستے کی بجائے اِدھر اُدھر گم ہو جاتا ہے ‘ طالب میرے پاس بہت جوش
خروش دعوؤں کے ساتھ آتا ہے لیکن چند دن کے بعد ہی نفس کے بہکاوے میں الجھ
کر حقیقی منزل کھو دیتا ہے پھر ساری زندگی ایک بابے سے دوسرے بابے کی چوکھٹ
پر ماتھا رگڑتے گزار دیتا ہے میں نے بہت کم لوگوں کو راہ سلوک ‘خود سے خدا
تک کے سفر میں مستقل مزاج پایا ہے آتے بہت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ہیں
لیکن چند دن میں ہی چستی سستی میں ڈھل جاتی ہے نفس اور شیطان طالب کو صرا ط
مستقیم سے ہٹا کر غلط راہوں کا مسافر بنا دیتے ہیں بڑے بڑے عالم حفاظ بھی
آئے لیکن پھر اپنے سفر کو جاری نہ رکھ سکے ۔پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گئے
خدا کو ترجیح اول نہ رکھ سکے ‘تو بہ کا رنگ جس شدت سے چڑھا اُسی شدت سے
اُترتا چلا گیا ‘ تو بہ کا نشہ چند دن کے بعد ہی اُتر گیا ۔ لیکن باجی مورت
جو ہیجڑا ہو کر نامکمل مرد ہو کر تو بہ کر کے اِس شان سے تو بہ پر قائم کہ
حیران کن ‘ باجی مورت کا توبہ پر قائم رہنا مجھے متاثر کر تا گیا کہ پچھلے
ماہ میں وہ اُسی جنسی غلاظت میں زندگی کے دن گزار رہی تھی لیکن اُس کی توبہ
کا رنگ پہلے دن کی طرح چمک رہا تھا وہ پہاڑی کے چراغ کی طرح روشن تھی ۔خدا
کے لیے اُس نے تو بہ کی پھر اُس تو بہ کو قائم رکھا جس کو میرے پاس آنے
والے بہت سارے قوی طاقت ور توانا پہلوان نما مرد قائم نہ رکھ سکے جو بلند
وبانگ دعوؤں کے ساتھ کو چہ تصوف میں آتے تھے راہ حق کو اپنا تے لیکن زمانے
کی چند ٹھوکروں اور نفسی ترغیبات کے بعدہی کمزور پڑتے گئے باجی مورت کی
توبہ نے مجھے بھی بہت حوصلہ دیا اُس کی توبہ نے مجھے بھی اپنی ذات کے کمزور
حصوں کو مضبوط کر نے کی ترغیب دی میری ذات کے جو حصے مرمت طلب تھے ان کی
مرمت کی طرف توجہ دی باجی مورت کی سچی توبہ پھر اُس پر قائم رہنا یہ ہمارے
تعلق کی اصل بنیاد تھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا تھا مجھے خوشی تھی کہ حق
تعالی کے کرم خاص سے گناہوں میں لتھڑی ہوئی روح طہارت کے نام سے آشناہو ئی
اُس کا توبہ پر قائم رہنا اُس کی ایسی باکمال خوبی تھی کہ بہت سارے مرد اُس
کے سامنے کیڑے مکوڑے نظر آتے جو توبہ کر کے راہ سلوک اختیار کر کے بھاگ گئے
تھے اس سفر کوادھورا چھوڑ کر ہمت ہار کر دنیاوی رنگوں میں کھو گئے تھے باجی
مورت کا میرے پاس آنا گھنٹوں باتیں کر نا میرے کام کر نا میرا اُس کو بھر
پور توجہ دینا اُس کو اہمیت احترام دینا اہل دنیا کو یہ سب بلکل بھی پسند
نہ تھا میں اولیاء کرام کے قدموں سے اٹھنے والے غبار کو آنکھوں کا سرمہ
بنانے والا تاریخ تصوف کی عظیم صوفیا کرام کی تعلیمات کو جانتے ہو ئے خدا
کی ہر تخلیق کو پیار کر تا تھا محبت سے گلے لگا تا تھا یہاں پر اہل دنیا
اور اطراف میں رہنے والوں کو تکلیف شروع ہو گئی ان کے ہاضمے خراب ہو نا
شروع ہو گئے کہ ایک ہیجڑا ناچنے گانے والا فحاشی اور جنسیت کی گندگی میں
غرق میری توجہ احترام کا اہل کیسے ٹھہرا ۔ میں کیونکہ مری میں پر دیسی تھا
اپنے خاندان کا واحد بندہ اوپر سے مری کے اطراف میں میلوں تک منکرین
روحانیت لوگوں کی بہتات جو روحانیت فقیری درویشی کو شعبدہ بازی سمجھتے تھے
خدا کے فضل و کرم سے جب ہزاروں لوگوں نے میری طرف رجوع کرنا شروع کیا تو
چھوٹے سے شہر میں بھونچال زلزلے کی کیفیت پیدا ہو گئی مذہب کے ٹھیکیداروں
نے اپنی دور بینوں کا رخ میری طرف کر دیا کہ کوئی کمزور حصہ نظر آئے کہ
عوام کی نظروں میں میری اچھائی کو برائی میں بدلا جاسکے ہمارے نام نہاد
مہذب معاشرے میں کسی عام انسان کا کسی ہیجڑے سے میل ملاپ اچھا برتاؤ قابل
قبول نہیں ہے ہیجڑوں کو قابل نفرت دھتکارا ہوا طبقہ قرار دے دیا گیا اوپر
سے اُن بیچاروں کی حرکتیں بھی ایسی کہ عام انسا ن بھی اُن کو قصور وار قرار
دیتا ہے ساتھ ظلم ہیجڑوں کیساتھ یہ بھی کہ اُن کو نفرت حقارت سے دھتکار کر
آبادیوں سے الگ کر دیا گیا وہ اپنے جیسے لوگوں میں ہی زندگی کے دن پورے
کرتے ہیں ہمارا بانجھ ظالم معاشرہ اُس نظر انداز طبقے کی اصلاح کی طرف توجہ
ہی نہیں دیتا ۔ مجھے میر ے دوستوں نے دبے لفظوں میں سمجھایا بھی کہ میں
باجی مورت سے دور رہوں لیکن میں اُس کی سچی تو بہ سے متاثر تھا اب وہ مری
کا سیزن ختم ہو نے پر واپس پشاور جانے سے پہلے آخری بار میرے پاس آرہی تھی
مجھے زمانے کی مخالفت حقارت کے باوجود اُس کا انتظار تھا ۔
|